ابتدائی سرکاری تخمینے بتاتے ہیں کہ رواں سال پاکستان میں ریکارڈ رقبے، دو کروڑ 38 لاکھ 28 ہزار 271 ایکڑ پر گندم کاشت کی گئی ہے۔ ملک میں اس سے پہلے سب سے زیادہ 2015-16ء میں دو کروڑ 27 لاکھ 92 ہزار 690 ایکڑ اراضی پر گندم کاشت ہوئی تھی۔
اس بار گندم کی کاشت کا رقبہ 16-2015ء سے 10 لاکھ 35 ہزار 581 ایکڑ زائد اور پچھلے سال یعنی 2022-23ء سے تقریباً 15 لاکھ ایکڑ زیادہ ہے۔
اس وقت ملک میں گندم کے زیر کاشت رقبے کا 73 فیصد حصہ پنجاب میں ہے جہاں رواں سال ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک کروڑ 74 لاکھ 43 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم بوئی گئی جو پچھلے سال سے 14 لاکھ 29 ہزار ایکڑ زائد ہے۔ پنجاب میں اس سے پہلے2015-16 ء میں سب سے زیادہ ایک کروڑ 72 لاکھ 50 ہزار 750 ایکڑ اراضی پر گندم اگائی گئی تھی۔
صوبہ سندھ میں بھی اس سال 31 لاکھ 37 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کی کاشت کا نیا ریکارڈ بنا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 19 لاکھ 24 ہزار 787 ایکڑ اور بلوچستان میں 13 لاکھ 23 ہزار 584 ایکڑ گندم کاشت ہوئی ہے۔
کاشت میں اضافہ کیوں ہوا؟
ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ادارہ تحقیق برائے گندم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جاوید اکرم بتاتے ہیں کہ ایک تو پچھلے سال گندم کی پیداوار بہت اچھی رہی اور دوسرے اس کی سرکاری قیمت بہتر تھی جس سے کسانوں کا اچھا معاوضہ ملا ہے۔
گزشتہ سال وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت دو ہزار 200 روپے سے بڑھا کر تین ہزار 900 روپے کر دی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ برسوں میں گندم کی امدادی قیمت کم تھی جس کی وجہ سے کاشت کاروں نے سرسوں، آلو اور مکئی کاشت کرنا شروع کر دی تھی۔ پچھلے سال سرسوں زیادہ کاشت ہوئی لیکن ناموافق موسم نے پیداوار کو متاثر کیا اور فروخت میں بھی مشکلات آئیں۔ اسی طرح مکئی کے ریٹ بہت گر گئے تھے جس سے کسانوں کو کافی نقصان ہوا۔ اس لیے رواں سال سرسوں اور مکئی کی کاشت میں کمی آئی اور اس کی جگہ گندم نے لے لی ہے۔
پنجاب کراپ رپورٹنگ سروس کے ڈیٹا کے مطابق رواں سال پنجاب میں چھ لاکھ پانچ ہزار ایکڑ رقبے پر سرسوں کاشت ہوئی ہے جو گزشتہ سال سے 43 فیصد یعنی لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ ایکڑ کم ہے جبکہ کینولہ بھی پچھلے سال سے تقریباً 92 ہزار ایکڑ (50 فیصد) کم کاشت ہوا ہے۔
کاشت کاروں کی تنظیم 'پاکستان کسان اتحاد' کے مرکزی صدر چوہدری عمیر مسعود بھی گندم کی زیادہ کاشت کا کریڈٹ 'بہتر سرکاری نرخ' (امدادی قیمت) کو دیتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال سرسوں کی بڑے پیمانے پر کاشت ہوئی لیکن اسے بیچنا مشکل ہو گیا تھا اور یہی حال مکئی کا ہوا۔ نگران حکومت نے فیڈ انڈسٹری سے مل کر کراچی بندر گاہ پر کھڑے سویابین کے سارے کنٹینرز آف لوڈ کرنے کی اجازت دے دی جس سے ملک میں مکئی کے نرخ نیچے گر گئے۔
زیادہ کاشت سے ملک کو کتنا فائدہ ہوگا؟
پاکستان میں ہر خاندان(اوسطاً فی خاندان 6.30 افراد) کو اپنی سالانہ ضرورت پوری کرنے کے لیے ساڑھے 19 من گندم درکار ہوتی ہے۔ اس حساب سے تقریباً 24 کروڑ 15 لاکھ لوگوں کے لیے دو کروڑ 97 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہو گی۔
گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان اوسطاً سالانہ دو کروڑ 24 لاکھ 4 ہزار ایکڑ رقبے کی کاشت سے تقریباً دو کروڑ 72 لاکھ میٹرک ٹن گندم پیدا کرتا رہا ہے جو اس کی ضرورت سے تقریباً 25 لاکھ میٹرک ٹن کم ہے۔
پچھلے تین سال کی اوسط پیداوار جو کہ 30.3 من فی ایکڑ تھی کو دیکھا جائے تو رواں سال گندم کی دو کروڑ 89 لاکھ میٹرک ٹن پیداوار متوقع ہے۔
اگر مارچ اور اپریل میں موسم سازگار رہا اور فی ایکڑ اوسط پیداوار پچھلے سال کی طرح 30.93 من فی ایکڑ تک آگئی تو پھر رواں سال کی پیداوار دو کروڑ 94 لاکھ 81 ہزار میٹرک ٹن ہوسکتی ہے جو سالانہ ملکی ضرورت سے صرف تین لاکھ میٹرک ٹن کم ہے۔
وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ویٹ کمشنر ڈاکٹر امتیاز احمد گوپانگ پرامید ہیں کہ موسم سازگار رہا تو پاکستان رواں سال گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل کرے گا۔حکومت نے اس مرتبہ 30 ملین میٹرک ٹن (3 کروڑ میٹرک ٹن) کا پیداواری ہدف مقرر کیا ہے جو زیرکاشت رقبےکو دیکھتے ہوئےکوئی زیادہ نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال پنجاب میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 33 من تھی حالانکہ ماضی میں یہاں 38 من تک بھی آتی رہی ہے۔ تاہم اب موسمیاتی تغیرات فصل کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔
ان کے بقول رواں سال کھاد کے معاملے میں کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں جبکہ بارانی علاقوں میں اس بار بارشیں کم ہوئی ہیں۔ اسی طرح دسمبر اور جنوری میں تقریباً 30 روز سورج ہی نہیں نکلا جس سے فیصل آباد اور گوجرانوالہ سے فصل پر "رسٹ" کی شکایت سامنے آئی ہیں۔ ایسے فیکٹرز سے پیداوار کچھ نہ کچھ متاثر تو ہو گی۔
پنجاب میں گندم کی اوسط پیداوار میں کمی کی ایک اور وجہ کچھ سالوں سے یہاں کے بہتر پیداواری علاقوں میں اس کی کاشت میں کمی بھی تھی۔ تاہم رواں سال ساہیوال ڈویژن میں گندم کا زیر کاشت رقبہ 21 فیصد، ملتان میں 14 فیصد اور فیصل آباد ڈویژن میں 11 فیصد بڑھاہے۔ ان تین ڈویژنوں میں پچھلے سال کی نسبت اس مرتبہ تقریباً سات لاکھ ایکڑ زیادہ رقبے پر گندم کاشت ہوئی ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق بہاولپور ڈویژن میں اس سال 12 اور ڈی جی خان میں آٹھ فیصد زیادہ رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اکرم جاوید دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر مارچ میں درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ اور اپریل میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رہتا ہے اور غیرمعمولی بارشیں یا ژالہ باری نہیں ہوتی تو پنجاب میں اوسط 36 من سے زیادہ آسکتی ہے۔
محکمہ موسمیات کا ڈیٹا بھی یہی بتاتا ہے کہ ملک میں جس سال مارچ اور اپریل قدرے ٹھنڈک رہی اس سال گندم کی پیداوار میں بہتری آئی۔ 2021ء کے مارچ میں درجہ حرارت اوسط ملکی درجہ حرارت سے 2.91 سینٹی گریڈ اور اپریل میں 0.76 سینٹی گریڈ زیادہ رہا تھا تو اس سال یہاں گندم کی اوسط 30.31 من فی ایکڑ تھی۔
2022ء کے مارچ کا درجہ حرارت اوسط سے 5.01 سینٹی گریڈ اور اپریل میں 5.02 سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا تھا۔ جس سے اس سال گندم کی اوسط فی ایکڑ کم از کم ایک من تک کمی واقع ہوگئی تھی۔ یہ وہ سال ہے جب پاکستان میں 1961ء کے بعد مارچ اور اپریل کے مہینوں میں سب سے زیادہ گرمی پڑی تھی اور اس سال اوسط پیداوار 29.75 من فی ایکڑ رہی تھی۔
پچھلے سال یعنی 2023ء کے مارچ میں درجہ حرارت معمول سے 1.57 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا لیکن اپریل میں 0.12 سینٹی گریڈ کم رہا تو اوسط 30.93 من فی ایکڑ پر چلی گئی۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ہیں کہ 2023 میں اگرچہ بارشوں نے خاصا نقصان کیا تاہم ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ہونے والا فائدہ کہیں زیادہ تھا۔ جس کے نتیجے میں ملک میں دو کروڑ 76 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ گندم ہوئی جو ایک ریکارڈ تھا۔
گندم کی زیادہ پیداوار بھی مسئلہ
کسان اتحاد کے صدر عمیر مسعود کو بھی لگتا ہے کہ رواں سال پاکستان میں گندم کی پیداوار کا ایک نیا ریکارڈ بنے گا لیکن ساتھ انہیں خدشہ بھی ہے کہ زیادہ پیداوار کہیں کسانوں کے لیے مسئلہ ہی نہ بن جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی ملکی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا ہوئی تو کسانوں کو کوڑیوں کے بھاؤ فصل بیچنا پڑی۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت تب ہی خریداری میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے جب اسے لگے کہ پیداوار ضرورت سے کم ہے اور ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے 2017ء اور 2019ء کی مثال دی کہ اس وقت زیادہ پیداوار ہوئی تو گندم کا کوئی خریدار نہیں تھا۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت پاکستان سے کم تھی تو نجی خریدار غائب ہو گئے اور حکومت نے باردانہ تک نہیں دیا تھا۔ 2017ء میں گندم کی سرکاری قیمت 13 سو روپے تھی لیکن کسانوں نے 700 روپے من تک بیچی تھی۔
پاکستان 2000ء سے 2018ء تک نہ صرف گندم کی اپنی ضروریات پوری کرتا رہا ہے بلکہ اوسطاً ہر سال 10 لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد بھی کرتا رہا۔ لیکن پھر اس خودکفالت کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔
پاکستان کو 2020ء سے 2023ء تک اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے سالانہ تقریباً 27 لاکھ میٹرک ٹن گندم بیرون ملک سے منگوانا پڑی اور ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ زرمبادلہ خرچ ہوتا رہا۔
رواں مالی سال میں بھی جولائی سے جنوری 2024ء تک 19 لاکھ80 ہزار 183 میٹرک ٹن گندم باہر سے منگوائی گئی جس پر 162 ارب 56 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔
عمیر مسعود نے بتایا کہ اس مرتبہ فصل کی کاشت کے دوران افواہیں تھیں کہ حکومت گندم کے نرخ ساڑھے چار ہزار روپے من مقرر کر رہی ہے اس لیے کسان زیادہ گندم اگانے پر مائل ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوری کے آغاز میں گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کی تجویز آئی تھی لیکن کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ جس پر پچھلے سال والی قیمت یعنی 39 سو روپے من ہی برقرار رکھی گئی۔
صدر کسان اتحاد کا کہنا ہے کہ اب جب فصل تیار ہونے والی ہے تو مارکیٹ میں گندم کی سرکاری قیمت میں کمی کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جن سے کسان کافی پریشان ہیں۔ اسی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں بھی گندم کے نرخ گرنا شروع ہوگئے ہیں۔
قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ جولائی 2023ء میں ملک میں آٹے کی اوسط قیمت اوپن مارکیٹ میں پانچ ہزار 636 روپے من تھی جبکہ فروری 2024ء میں فی من اوسط قیمت پانچ ہزار دو روپے ہوگئی ہے۔
صرف پاکستان ہی نہیں عالمی مارکیٹ میں بھی گندم کی قیمت کم ہو گئی ہے۔ پاکستان نے رواں مالی سال میں جو گندم درآمد کی ہے وہ تقریباً 33 سو روپے من پڑ رہی ہے جبکہ ملک میں امدادی گندم چھ سو روپے من زیادہ ہے۔
قرضوں سے گندم پر سبسڈی
پاکستان میں لوگ اپنی روزمرہ خوراک میں کسی نہ کسی طرح گندم ضرور استعمال کرتے ہیں اور یہ غذائی تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ بات حکومت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ماضی میں بھی آٹے کے بحران کی وجہ سے سیاسی بحران پیدا ہوتے رہے ہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام سے بچنے کے لیے ہر حکومت کی ترجیح رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح آٹے کو پورا کر لیا جائے۔ اس کے لیے حکومت نہ صرف خود خریداری کرتی ہے بلکہ اس فصل کی زیادہ کاشت پر کسانوں کو مائل کرنے کے لیے امدادی قیمت کا بھی اعلان کرتی ہے اور پھر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے سبسڈی پر اربوں روپے جیب سے بھی دیتی ہے۔
چین کی ہوزونگ یونیورسٹی آف ایگریکلچر ووہان کے سکالرز کے 2019ء میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت پر گندم کی بڑے پیمانے پر خریداری کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔
تحقیق میں شامل حکومتی رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے 17-2016ء میں 39 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن گندم خرید کی جس پر 164 ارب 68 کروڑ روپے خرچ آئے۔ پھر یہی مقدار 127 ارب 40 کروڑ روپے میں فروخت کی گئی۔
یوں تقریباً ایک سال میں ہی صوبائی حکومت کو گندم کی خریداری اور دیکھ بھال کی مد میں 37 ارب 36 کروڑ روپے جیب سے ڈالنا پڑے۔
مقالہ نگار کے مطابق دوسرے لفظوں میں حکومت نے کسانوں سے ساڑھے 32 روپے کلو گندم خریدی اور تقریباً ایک سال بعد اسی قیمت پر فلور ملوں کو بیچ دی۔ تاہم اسے اکٹھا کرنے اور سنبھال کر رکھنے پر جو ساڑھے نو روپے فی کلو اخرجات آئے وہ حکومت کو دینا پڑے۔
یہ تحقیق بتاتی ہے کہ ایک ایک کلو کے اس خسارے نے 2017ء تک پنجاب حکومت کا قرض245 ارب روپے تک پہنچا دیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ قرض بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس قرض پر صرف سود کی مد میں پنجاب حکومت بینکوں کو ہر سال اربوں روپے ادا کر رہی ہے۔
وزارت خزانہ پنجاب کے ڈیبٹ مینجمنٹ یونٹ کی جون 2023ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جون 2020ء میں یہ قرض بڑھ کر 462 ارب جبکہ جون 2023 میں 680 ارب روپے ہوگیا تھا حالانکہ ان سالوں میں حکومت نے بالترتیب 109 ارب، 133 ارب، 164 ارب اور 386 ارب روپے قرض واپس بھی کیا ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں پنجاب حکومت نے اس قرض کے سود کی مد میں بینکوں کو 55 ارب روپے، 2021ء میں 36 ارب، 2022ء میں 41 ارب اور 2023ء میں 87 ارب روپے ادا کیے ہیں۔
وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ویٹ کمشنر ڈاکٹر امتیاز احمد گوپانگ گندم کی مارکیٹنگ میں حکومتی مداخلت کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو مرحلہ وار اس سے باہر نکلنا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ سٹریٹجک ریزرو کے طور پر پاسکو کے علاوہ پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں پانچ پانچ لاکھ میٹرک ٹن گندم خرید لیں اور باقی مارکیٹ کو اوپن چھوڑ دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں
گندم، کپاس اور دالوں کے لیے تنگ ہوتی زمین، موسمیاتی تغیر پاکستان کے زرعی منظر نامے کو کیسے بدل رہا ہے؟
ان کا ماننا ہے کہ مارکیٹ میں مداخلت سے بگاڑ (ڈسٹارشن) پیدا کرنے کا عمل ختم کرنا ہو گا۔ حکومتیں ہی دفعہ 144، ضلع بندی اور مساجد سے اعلانات جیسے اقدامات سے بگاڑ پیدا کرتی ہیں جن سے مارکیٹ میں خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ تو ٹریڈرز خریداری کر سکتے ہیں اور نہ ہی فلور مل والے۔
"پھر ہوتا یہ ہے کہ کسانوں بہتر قیمت حاصل نہیں کر پاتے، اس لیے حکومتیں خریداری کی لائن سے نکل جائیں"۔
وہ چاول کی مثال دیتے ہیں جو پاکستان ضرورت سے 50،60 فیصد زیادہ پیدا کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ دھان کی خریداری میں حکومتی مداخلت نہ ہونے سے کسانوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔
محکمہ زراعت(توسیع) پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل انجم علی بٹر، امتیاز گوپانگ کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سے صرف پنجاب ہی سرپلس گندم پیدا کرتا ہے جبکہ سندھ اپنی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ باقی دو صوبوں، گلگت اور آزاد کشمیر کے کروڑوں لوگوں کا انحصار پنجاب پر ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب حکومت نے خریداری بند کر دی تو تاجر ساری گندم خرید کر باہر بھیج دیں گے یا پھر چینی کی طرح ذخیرہ اندوزی کر کے مرضی کے قیمتوں پر بیچیں گے۔ چینی، پیاز یا ٹماٹر کے بغیر تو گزارہ ہو سکتا ہے لیکن اگر ایک خاندان کو صرف ایک دن بھی آٹا میسر نہ ہو تو سوچیں کیا صورت حال ہو گی؟
تاریخ اشاعت 12 مارچ 2024