بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کی تحصیل اوستہ محمد گزشتہ سال سیلاب اور بارشوں کے باعث شدید متاثر ہوئی تھی۔ نو ماہ گزرنے کے بعد بھی یہاں زرعی رقبہ بارشوں اور سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے جس کے باعث بیشتر زمیندار اس سال گندم کی فصل کاشت نہیں کر سکے۔
یہاں قاضی عبدالصمد گاؤں کے شریف الدین ایسے ہی ایک کسان ہیں جو ہر سال نومبر کے آغاز پر گندم کی بوائی شروع کر دیتے تھے۔ جب فصل تیار ہوجاتی تو وہ اسے سرکاری خریداری مرکز پر فروخت کرکے اتنا معاوضہ حاصل کرلیتے تھے جس سے ان کے بیوی بچے آرام سے گزر بسر کر لیتے تھے۔
گزشتہ سال کی بارشوں اور سیلاب نے شریف الدین کو بے حد متاثر کیا اور وہ گندم کی بوائی کا سیزن شروع ہونے پر کھیتوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے بیج نہ بو سکے۔ دو ماہ تک مزید انتظار کے بعد جب ان کے کھیتوں سے پانی خارج ہو گیا تو انہوں نے بوائی کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر اس تاخیر سے ان کی گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔
'ماضی کی نسبت اس سال گندم کی فصل بہت ہی کم ہوئی ہے۔ میں پریشان ہوں کہ اس بار اخراجات پورے کیسے ہوں گے اور بچوں کا پیٹ کیسے پالوں گا؟'
ڈائریکٹر ایگریکلچر ریسرچ بلوچستان ڈاکٹر عصمت اللہ کے مطابق نصیر آباد ڈویژن کے علاقوں میں حالیہ بارشوں کے بعد کاشت کا عمل تاخیر سے شروع ہوا ہے جس کی وجہ سے فصل کی تیاری اور کٹائی میں بھی تاخیر ہو گی۔
بلوچستان میں اس بار گندم کی بوائی کا سیزن دو ماہ کی تاخیر کے بعد دسمبر میں شروع ہوا
''بلوچستان میں بارشوں، سیلاب اور موسم کی تبدیلی میں تاخیر کے باعث فی ایکڑ گندم کی پیدوار 35 من سے کم ہوکر 25 رہ گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں سندھ میں گندم کی پیداوار فی ایکٹر 40 من اور پنجاب میں 30 من ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سال بلوچستان میں گندم کا زیرکاشت رقبہ معمول سے تین لاکھ ایکڑ کم رہا جس سے صوبے میں گندم کی ضرورت کو پورا کرنے میں مزید دشواری ہوسکتی ہے۔
'موسم کی تاخیر سے تبدیلی ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ اس بار گندم کی بوائی کا سیزن دو ماہ کی تاخیر کے بعد دسمبر میں شروع ہوا'۔
بلوچستان اپنی ضرورت کی 75 فیصد گندم خود پورا کرتا ہے جبکہ باقی 25 فیصد دوسرے صوبوں سے درآمد کرتا ہے۔ سرحد پار گندم کی سمگلنگ کے باعث بھی صوبے کی ضرورت پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
حکومت نے بیج کی فراہمی پر سبسڈی دے کر اسے کسانوں کو مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس بیج کو کسانوں تک بروقت نہ پہنچایا جاسکا۔ نتیجتاً بوائی میں تاخیر ہوئی اور اس طرح پیداوار میں کمی آئی۔
ڈاکٹر عصمت نے مزید بتایا کہ بلوچستان میں کھاد بہت مہنگی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے کسان اب اسے استعمال ہی نہیں کرتے۔ اس سے گندم کی پیداوار براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
''صوبے میں گندم کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کھاد پر سبسڈی دینا اور پانی کی وافر فراہمی ناگزیر ہے۔ اگر یہ بنیادی سہولیات فراہم کردی جائیں تو بلوچستان میں گندم کی پیداوار فی ایکٹر 40 من تک بڑھائی جا سکتی ہے۔''
ایک جانب گندم کی پیداوار میں کمی تو دوسری طرف صوبائی حکومت کی کسانوں سے سبسڈی پر گندم کی خریداری سے چھوٹے زمیندار بے حد پریشان ہیں۔
صحبت پور کے محمد اشرف چار ایکڑ پر گندم کاشت کرتے ہیں۔ پہلے تو وہ فصل میں 30 فیصد کمی سے پریشان تھے مگر اب کی سبسڈی پر خریداری کے فیصلے نے ان کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔
''گزشتہ اور رواں سال کی بارشوں سے کسان پہلے ہی بہت نقصان اٹھا رہے ہیں اور اب حکومت چاہتی ہے کہ ہم گندم معمول سے کم ریٹ پر فراہم کریں۔ اس طرح ہمارے لیے فصل کی کاشت پر آئی لاگت پوری کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کسانوں کو سبسڈی دے اور ہمارے نقصان کا ازالہ کیا جائے تاکہ ہم اگلے سیزن کے لیے دوبارہ کاشت کے قابل ہو سکیں۔''
بلوچستان میں سیلاب کے باعث فی ایکڑ گندم کی پیدوار 35 من سے کم ہوکر 25 رہ گئی ہے
وزیراعلی بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے گندم کی زخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے اور محکمہ خوراک گندم کی خریداری مہم میں رکاؤٹ پیدا کرنے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف سیکرٹری کے زیر صدارت گندم کی خریداری کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس میں گندم کے کاشتکاروں نے ذخیرہ اندوزی اور گندم مہنگے داموں بیچے جانے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے اور ناجائز منافع خوری میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کے لئے قانون سازی کرے گی۔
بلوچستان کے سیکرٹری خوراک محمد ایاز مندوخیل نے بتایا کہ محکمہ خوراک نے رواں برس صوبے کے لیے دس لاکھ بوری گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا ہے جو صوبے میں گندم کی پیداوار میں کمی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب اور سندھ میں کھاد کی قلت: کیا ملک میں گندم کا نیا بحران آنے والا ہے؟
گندم کی قلت کو دیکھتے ہوئے روس سے بھی گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت گوادر بندرگاہ کے ذریعے ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
محکمہ خوراک ان دنوں 10 لاکھ بوری گندم کی خریداری میں مصروف ہے، اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت نے نصیر آباد، کچھی، جھل مگسی سمیت کئی اضلاع سے گندم باہر لے جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی پسند خان بلیدی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گندم کی بوریاں لے کر چھ جہاز گوادر پورٹ پر لنگر انداز ہو چکے ہیں جن میں تین لاکھ بوریاں لائی گئی تھیں جبکہ مزید تین جہاز ڈیڑھ لاکھ بوریاں گوادر پہنچائیں گے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر سیف اللہ کھوسو کے مطابق بلوچستان حکومت کی جانب سے گندم کی ایک سے دوسرے ضلعے میں منتقلی پر پابندی کے باعث صوبے میں گندم کی قلت کا بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ گندم کی کمی کے باعث فلور ملز بند ہونے سے عید اور اس کے بعد آٹے کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
تاریخ اشاعت 20 اپریل 2023