آج - 3 فروری 2023 - سپیشل جج اینٹی کرپشن بہاولپور کی عدالت میں عباسیہ سیم نالے کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت ہو گی۔
رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کا یہ سیم نالہ گذشتہ 14 برس سے مختلف محکموں اور عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ آج جس مقدمے کی سماعت ہے وہ بہاولپور کے شہری غلام رسول نے دائر کیا ہے۔ وہ اس بات سے نالاں ہیں کہ اس سیم نالہ کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ذمہ دار افراد کے خلاف نہ صرف کارروائی نہیں کی گئی بلکہ الٹا انہیں ترقی دے دی گئی ہے۔
تھری آر ڈرین نامی اس نالہ کا مقصد لیاقت پور کے ایک سو دیہات کو سیم سے پہنچنے والے نقصان سے بچانا تھا۔ ان دیہات پر مشتمل علاقے کو عباسیہ کہا جاتا ہے اور یہاں سیم کا مسئلہ ضیاالحق کی حکومت میں بنائی گئی عباسیہ لنک کینال کی تعمیر کے بعد پیدا ہوا۔ یہ بڑی لنک کینال، پرانی عباسیہ کینال کے بائیں کنارے کے متوازی بنائی گئی تا کہ چولستان میں 'خاص لوگوں' کو الاٹ کی گئی ہزاروں ایکڑ زمینوں کو سیراب کیا جاسکے۔ اس نئی نہر میں جب پانی چھوڑا گیا تو ان لوگوں کی زمینیں تو سیراب ہو گئیں لیکن عباسیہ میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گئی اور مناسب نکاس نہ ہونے کے باعث یہ سیم اور تھور کی نذر ہو گئیں۔
شاہ محمد بھٹہ ان دیہات میں سے ایک – چک 148 – کے چھوٹے زمیندار تھے۔ سیم نے نہ صرف ان کی تین ایکڑ زمین کو ناقابل کاشت بنا دیا بلکہ ان کے مکان کو بھی نقصان پہنچایا۔ اب وہ بے زمین افراد کی مانند شہر جا کر مزدوری کرتے ہیں۔
ان سو چکوک پر مشتمل علاقے کی لگ بھگ ڈھائی لاکھ آبادی کا روزگار کاشتکاری سے ہی منسلک ہے۔
2007 میں اس علاقے سے رکن صوبائی اسمبلی چوہدری محمود احمد نے سیم نالے کی تعمیر کا منصوبہ منظور کروایا تاکہ عباسیہ کی زمینوں سے سیم کے اثرات کا خاتمہ ہو سکے۔ صوبائی حکومت نے اس نالے کے لیے محکمہ انہار کو 35 کروڑ روپے کے فنڈ دیے۔
اس نالہ نے چنی گوٹھ سے شروع ہو کر موضع دین محمد جیٹھہ بھٹہ کے مقام پر شاہی روڈ کے متوازی بہنے والے سکارپ 6 سیم نالے میں شامل ہو جانا ہے۔ 40 کلومیٹر طویل یہ نالہ 46 دیہات سے گزر کر عباسیہ کے 100 دیہات کی زمینیں کو دوبارہ قابل کاشت بنا سکتا تھا۔
سوکھا نالہ اور کرپشن کی بہتی گنگا
اس منصوبے پر کام کا آغاز ستمبر 2008 میں ہوا اور اسے ڈیڑھ سال میں مکمل ہونا تھا لیکن محکمہ انہار کے بابو شاید کسی اور ہی مار پہ تھے۔
نالے کا مجوزہ راستہ بار بار تبدیل کیا جاتا رہا اور اس کا بجٹ بھی بڑھتے بڑھتے ایک ارب روپے تک جا پہنچا لیکن نالہ کی تعمیر مکمل نہ ہوئی۔
جاوید مشتاق غلہ منڈی لیاقت پور کے آڑھتی ہیں اور انہی چکوک میں سے ایک - چک نمبر 149 ڈی این بی - میں 50 ایکڑ کے زمیندار بھی ہیں۔ ان کا تحصیل بھر کے کسانوں سے ہمہ وقت رابطہ رہتا ہے۔ علاقہ عباسیہ کے کسانوں کی بربادی کا ان کے کاروبار پر بھی منفی اثر پڑا۔ انہوں نے 2011 کے اواخر میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ایک درخواست دی جس میں سیم نالے کی عدم تکمیل سے ہونے والے نقصان اور اس منصوبے میں خامیوں اور مبینہ بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی تھی۔
ان کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے اس وقت کے سیکرٹری انہار نے انجینئرنگ اکیڈمی لاہور کے پرنسپل احمد شیر ڈوگر کو تحقیقات پر مامور کیا جنہوں نے منصوبے میں کئی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی درستی اور ذمہ دار افسروں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی سفارشات دیں۔
ان سفارشات کی روشنی میں محکمہ انہار نے چیف انجینئر بہاولپور کو لاپروائی اور بدعنوانی کے ذمہ دار ایکسیئن، ایس ڈی او اور سب انجینئروں کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے کہا لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔
جولائی 2013 میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے معائنہ ٹیم بھجوائی جس نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور پیشہ ورانہ نااہلیوں کی نشاندہی کی۔ تاہم اس ٹیم کی رپورٹ پر بھی کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
غلام رسول خان بہاولپور کے سماجی کارکن ہیں اور گزشتہ کئی سال سے پاکستان عوامی احتساب پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بہاولپور ڈویژن کے سرکاری اداروں کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کی درخواستوں پر کئی سرکاری افسران کے خلاف تادیبی کارروائیاں ہو چکی ہیں۔
غلام رسول نے اس سیم نالہ منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے محکمہ اینٹی کرپشن کو درخواست دی جس نے 24 جون 2021ء کو سابق ایکسیئن عبدالستار نیازی، محمد نعیم، عبدالرشید، میاں مسعود احمد اور موجودہ ایس ای تونسہ شریف ساجد محمود، سب انجینئر رانا عبدالرزاق، رانا سعید عامر، سرکاری ٹھیکیدار ملک اطہر اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔
تاہم یہ مقدمہ چند روز بعد ہی خارج ہو گیا۔
اس مقدمے مں نامزد بعض ملزم ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ ایک کا انتقال ہو چکا ہے۔
'فائل صاحب کی ٹیبل پر پڑی ہے'
غلام رسول الزام عائد کرتے ہیں کہ سابق وزیراعلی عثمان بزدار نے اپنے دور حکومت میں اس مقدمے کے اہم ملزم رانا ساجد محمود کو ایگزیکٹیو انجینئر کے عہدے سے ترقی دے کر اپنے آبائی حلقے تونسہ شریف میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر تعینات کر دیا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاخیر کا شکار اس منصوبے میں ٹھیکیدار کو سازوسامان کی قیمتوں میں اضافے کی مد میں کروڑوں روپے ادا کیے جا چکے ہیں لیکن منصوبہ وہیں کا وہیں ہے۔
گذشتہ سال ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن نے اس منصوبے کی دوبارہ انکوائری کروائی اور لاپروائی و بدعنوانی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا لیکن بہاولپور کے سابق ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے انکوائری چیف انجینئر انہار بہاولپور کو محکمانہ کاروائی کے لیے بھجوادی جنہوں ںے تمام ملزموں کو "بری" کردیا۔
علاقے کی لگ بھگ ڈھائی لاکھ آبادی کا روزگار کاشتکاری سے منسلک ہے
غلام رسول بتاتے ہیں کہ ٹھیکیدار نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ناقص میٹریل استعمال کیا اور کام نامکمل چھوڑ دیا۔ بہت سی جگہوں پر پلیوں کے جائنٹ نامکمل ہیں اور ان کی شٹرنگ بھی نہیں کی گئی۔ کئی جگہ کھدائی نہ ہونے کی وجہ سے سیم کے پانی کا بہاؤ بھی نہیں ہو پا رہا۔بارش ہو جائے تو نالے کا پانی اوور فلو ہو کر لوگوں کی فصلوں اور گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔
اور تو اور سیم نالے کی زد میں آنے والی زمینوں کے تمام مالکان کو تاحال ادائیگی بھی نہیں کی گئی۔ 2008 میں صوبائی حکومت نے اس کے لیے اسسٹنٹ کمشنر لیاقت پور کے اکاؤنٹ میں 13 کروڑ روپے ٹرانسفر کیے تھے تاہم اس منصوبے کی منظوری لینے والے سابق ایم پی اے چوہدری محمود احمد کے بھائی اور موجودہ ایم پی اے چوہدری مسعود احمد کا کہنا ہے کہ متاثرین میں اب تک 40 لاکھ روپے ہی تقسیم کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
چکوال میں قائم سیمنٹ فیکٹری کے اثرات: 'ہمارا جنگل کٹ گیا ہے، پہاڑ کھائی بن گیا ہے اور پانی خشک ہو گیا ہے'۔
محکمہ زراعت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اصغر شہباز بتاتے ہیں کہ علاقے میں سیم و تھور کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں مجموعی طور پر 15 سے 20 فیصد تک کمی ہوئی ہے جبکہ آم اور کینو کے باغات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سیم کی وجہ کپاس کی کاشت میں 50 فیصد کمی آچکی ہے اور اس کی اوسط پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سیم نالہ جن 46 دیہات کی حدود سے گزر رہا ہے ان میں زرعی نقصان بہت زیادہ ہے۔
منصوبے پر کام کی تازہ ترین صورتحال جاننے کے لیے محکمہ انہار سب ڈویژن لیاقت پور کے ایس ڈی او سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے چند ماہ قبل ہی چارج لیا ہے اور وہ اس بارے کوئی معلومات نہیں رکھتے۔ تاہم ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ "منصوبے کو چالو کرنے کے لیے مزید رقم درکار ہے۔ اس کے نئے تخمینے میں 50 ٹیوب ویل نصب کیے جانا ہیں اور تبدیل شدہ بجٹ کی فائل چیف انجینئر محکمہ انہار بہاول پور کی ٹیبل پر پڑی ہے"۔
تاریخ اشاعت 3 فروری 2023