رواں برس وسطِ مارچ کی ایک رات 31 سالہ محسن اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ اپنے گھر لوٹے تو وہاں سبطین نامی ان کا 28 سالہ دوست پستول لیے کھڑا تھا۔ اُس نے انہیں دیکھتے ہی ان پر گولیاں برسا دیں۔ تھوڑی دیر بعد جب مقامی پولیس موقعہِ واردات پر پہنچی تو وہ فرار ہو چکا تھا اور محسن اور اس کے ساتھی زخمی پڑے تھے۔
خیبرپختونخوا کے شمال مشرقی شہر مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے یہ پانچوں افراد مقامی ٹرانس جینڈر برادری کے رکن تھے۔ ان میں سے 30 سالہ عظیم اور 31 سالہ نتاشا کو معمولی زخم آئے تھے اس لیے انہیں مانسہرہ کے کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال میں ہی مرہم پٹی کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ لیکن محسن کی ٹانگ میں لگنے والی گولی کی وجہ سے ان کی زندگی خطرے میں تھی اس لیے مقامی ڈاکٹروں نے انہیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد مزید علاج کے لیے ایبٹ آباد میں واقع ایک بڑے سرکاری ہسپتال، ایوب میڈیکل کمپلیکس، میں بھیج دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں بھی ان کا ٹھیک علاج نہ ہو سکا چنانچہ انہیں گولی نکلوانے کے لیے ایک نجی ہسپتال سے رجوع کرنا پڑا۔
ان کے 32 سالہ ساتھی بلال کو پیٹ میں گولیاں لگی تھیں اس لیے انہیں بہتر علاج کی غرض سے لاہور منتقل کرنا پڑا۔ پانچویں زخمی عمیر بغیر علاج کرائے اپنے گھر منتقل ہو گئے تھے لیکن کچھ روز بعد ان کی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ انہیں ہسپتال میں داخل ہونا ہی پڑا۔ تاہم ان کا علاج کامیاب نہ ہو سکا اور جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔
اپنی موت سے پہلے عمیر کا کہنا تھا کہ وہ اور ان جیسے دیگر ٹرانس جینڈر افراد بھیک مانگ کر یا ناچ گا کر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا پیٹ پالتے ہیں لہٰذا انہیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ان کی صحت ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں ان کے گھر والوں کا کیا بنے گا۔ انہوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان پر فائرنگ کرنے والے شخص کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
محسن اس پورے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی سبطین سےکوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ ان کا قریبی دوست تھا اور اکثر رات کو انہی کے گھر میں سو جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے کچھ دیر پہلے ان کی اس سے فون پر مختصر بات بھی ہوئی تھی جس میں اس نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
سبطین نے بھی اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کو بتایا کہ اس کی محسن کے ساتھ دوستی تھی لیکن اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کچھ اختلاف ہو گیا تھا جس کے باعث ان کی آپس میں تلخ کلامی بھی ہو چکی تھی۔ اس کے مطابق اسی تلخ کلامی کی وجہ سے اس نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
اگرچہ پولیس نے سبطین پر اقدام قتل کا پرچہ درج کر کے اس کے خلاف مقدمہ عدالت کو بھیج دیا ہے لیکن محسن اسے سزا ملنے کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مانسہرہ میں پہلے بھی ٹرانس جینڈر افراد پر تشدد کے متعدد ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں ملوث لوگوں کو پولیس نے فوری طور پر حراست میں تو لے لیا لیکن موثر قانونی اور عدالتی کارروائی نہ ہونے کے باعث وہ سزا سے بچ نکلے۔
'مرے قاتل، مرے دل دار'
خیبرپختونخوا پولیس کی مرتب کردہ رپورٹوں کے مطابق صوبے کے مختلف حصوں میں 2015 سے اب تک 91 ٹرانس جینڈر افراد کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ اسی عرصہ میں انہیں تشدد کا نشانہ بنانے اور زخمی کرنے کے دو ہزار سے زیادہ واقعات پیش آ چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ٹرانس جینڈر لوگ پشاور میں قتل ہوئے ہیں جبکہ اس ضمن میں دوسرا نمبر ضلع سوات کا ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے دو اضلاع، مانسہرہ اور ایبٹ آباد، اس فہرست میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔
اس ڈویژن میں کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم، ہزارہ ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن، کی سربراہ نادرہ خان کا کہنا ہے کہ پولیس کی یہ رپورٹیں اس برادری کے افراد کو درپیش تشدد کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق "درحقیقت مختلف سماجی وجوہات کی بنا پر اس طرح کے بہت سے واقعات کی نہ تو پولیس میں رپورٹ درج کرائی جاتی ہے اور نہ ہی نیوز میڈیا میں ان کی خبر لگائی جاتی ہے"۔
مانسہرہ میں تعینات اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس جمیل اختر ان واقعات کی ذمہ داری بڑی حد تک ٹرانس جینڈر لوگوں پر ہی ڈالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس برادری کے ارکان کو متعدد بار ہدایت کی ہے کہ "وہ اپنی رہائش گاہوں (جنہیں عموماً ڈیرہ کہا جاتا ہے) پر کلوزسرکٹ ٹی وی کیمرے نصب کرائیں، رات نو بجے کے بعد کسی اجنبی کو اپنے ڈیرے پر نہ آنے دیں، عوامی مقامات پر نامناسب لباس نہ پہنیں، کسی تقریب میں شرکت کی صورت میں میزبان کے شناختی کارڈ کی نقل اپنے پاس رکھیں اور سفر کرتے وقت غیرمتعلقہ افراد کو اپنے ساتھ گاڑی میں مت بٹھائیں"۔ لیکن، ان کے مطابق، ٹرانس جینڈر افراد ان ہدایات پر کبھی عمل نہیں کرتے۔
ان افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم، بلیو وینز، کے نیشنل کوآرڈینیٹر قمر نسیم ان سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق یہ احتیاطی تدابیر صرف اجنبی حملہ آوروں کے خلاف موثر ہو سکتی ہیں جبکہ "خیبرپختونخوا میں پچھلے سات سال میں قتل ہونے والے ٹرانس جینڈر افراد میں سے 72 کے قاتل ان کے دوست اور جاننے والے لوگ تھے"۔
مثال کے طور پر 17 مارچ 2022 کو صوبے کے وسطی ضلع مردان میں چاند نامی ٹرانس جینڈر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ اس حملے میں ان کے ایک ٹرانس جینڈر ساتھی، ہنی، بھی زخمی ہو گئے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور دراصل ہنی کا دوست تھا جس نے ان کی مبینہ بے وفائی پر مشتعل ہو کر ان پر فائرنگ کر دی تھی۔
اس واقعے کے صرف ایک روز بعد پشاور کے علاقے محلہ جنگی میں ثنااللہ نامی شخص نے مانو نامی ٹرانس جینڈر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ خیبرپختونخوا ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن نامی تنظیم کی صدر آرزو خان کے مطابق مقتول نے قاتل کو کاروبار کے لیے آٹھ لاکھ روپے ادھار دے رکھے تھے جسے واپس مانگنے پر اس نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
تحفظ کا فقدان
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے وکیل تنویر احمد تشدد کے متاثرین کو مفت قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک سال پہلے خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی جس کا کام تشدد کا شکار ہونے والی خواتین، بچوں اور ٹرانس جینڈر افراد کے کیس سننا اور اس میں ملوث لوگوں کو سزا دینا تھا۔ ان کے مطابق ضلع مانسہرہ کی اِس عدالت میں دو سو مقدمات زیرسماعت ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی ملزموں کو سزا نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھیں
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے خلاف عدالتی درخواستیں: 'ناقدین اس قانون سے واقف ہی نہیں'۔
ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق مقدمات میں ملزموں کو سزا نہ ملنے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان میں متاثرہ فریق چند عدالتی پیشیوں کے بعد دوسرے فریق سے صلح کر لیتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اِس برادری کے ارکان جگ ہنسائی کے خوف اور مالی مشکلات کی وجہ سے "تھانوں اور عدالتوں کا رخ کرنے سے گریز کرتے ہیں"۔
جمیل اختر اس مسئلے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد خود ہی اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے مقدمات میں پولیس سے تعاون نہیں کرتے اور عدالت میں ان کی پیروی میں بھی دلچسپی نہیں لیتے جس کے باعث ان پر تشدد کرنے والے لوگوں کو سزا نہیں ملتی۔
تاہم قمر نسیم کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال کی ایک اہم وجہ ٹرانس جینڈر برادری کے تحفظ کے لیے بنائی گئی صوبائی پالیسی کا غیرفعال ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ صوبائی کابینہ نے اس برادری کے ارکان کو تحفظ دینے کے لیے ایک مسودہِ قانون کی منظوری دے رکھی ہے لیکن صوبائی اسمبلی نے اسے ابھی تک منظور نہیں کیا۔ ان کے مطابق "اگر اس مسودے کو اسمبلی کی منظوری مل جاتی تو ایسے واقعات پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا"۔
تاریخ اشاعت 8 جولائی 2022