گزشتہ برس سیلاب کے باعث ضلع راجن پور میں مویشیوں کی بڑی تعداد پانی میں بہہ گئی اور اس کے بعد انہیں بیماریوں نے گھیر لیا۔ اس سے مقامی آبادی کو بڑے پیمانے پر معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔
اس ضلعے میں مویشیوں کی کثیر تعداد اور مقامی معیشت میں ان کی اہمیت کے باوجود صرف تین سرکاری ویٹرنری ہسپتال ہیں۔ ان میں علاج کے لیے مویشی لانے والوں کو ادویات کی قلت کے باعث اکثر مشکلات اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ضلع میں راجن پور، فاضل پور اور جام پور میں قائم سرکاری وٹرنری ہسپتالوں میں عملے کی تعداد بھی محدود ہے۔ علاقے میں ایک ویٹرنری آفیسر، چار ویٹرنری اسسٹنٹ، ایک ویٹرنری ٹیکنیشن اور ایک چوکیدار تعینات ہے۔ سول ویٹرنری ہسپتال جام پور اور فاضل پور میں ہر ایک میں عملے کی تعداد چھ ہے۔
محکمہ لائیو سٹاک کے مطابق ضلع راجن پور میں میں 66 ہزار سے کچھ زیادہ مویشی ہیں جن میں گائیں، بھینسیں، بھیڑیں اور بکریاں شامل ہیں۔ ان میں سے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں پائی جانے والی نکری بکریاں اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں۔ ان بکریوں کا رنگ سفید اور آنکھیں سرخی مائل ہوتی ہیں۔ جسم مضبوط گٹھا ہوا اور جلد چمک دار ہوتی ہے۔ اس نسل کی بکریوں کی قیمت لاکھوں روپے تک ہوتی ہے۔
فاضل پور کے دیہی علاقے سکھانی والا کے محمد شہباز نے مختلف نسل کی بکریاں پال رکھی ہیں اور ان کی خرید و فروخت کے لیے مختلف شہروں میں جاتے رہتے ہیں۔ نومبر 2022ء میں ان کا انتہائی مہنگا بکرا بیمار ہو کر مر گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ بکرے کو گلہڑ کی بیماری اور بخار ہوا۔ وہ فاضل پور ہسپتال علاج کے لیے گئے مگر وہاں ادویات نہیں تھیں۔ ڈکٹروں کی جانب سے لکھ کر دی گئی دوائیں اتنی مہنگی تھیں کہ وہ انہیں خرید نہ سکے اورعلاج نہ ہونے سے ان کا قیمتی بکرا مر گیا۔
جام پور کے عبدالمالک کے پاس 10 بکریاں اور چار گائیں تھیں۔ اب ان کے پاس چھ بکریاں اور تین گائیں رہ گئی ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے بیمار مویشیوں کا علاج نہ کرا سکے۔ ان کا کہنا ہے "جام پور ہسپتال کے ڈاکٹر نجی میڈیکل سٹور سے خریداری کے لیے دوائیاں لکھ دیتے تھے جو بہت مہنگی ہوتیں اور ان کے لیے یہ دوائیں خریدنا ممکن نہیں تھا۔"
جام پور میں تعینات ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر شفیق نے بتایا کہ سول وٹرنری ہسپتال میں گزشتہ تین برسوں کے دوران علاج کے لیے 51 ہزار 246 جانور لائے گئے جن میں سے بیشتر صحت یاب ہوئے تاہم 11 ہزار 546 جانبر نہ ہو سکے۔
وٹرنری اسسٹنٹ ظہیر کے مطابق ہسپتال میں دوائیں کم ہیں اس لیے لوگوں کو نجی میڈیکل سٹور سے دوائیں لانے کو کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ہر ماہ ادویات کے 400 سے 500 کارٹن آتے تھے لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر 150سے 200 کے درمیان رہ گئی ہے جبکہ ضرورت کے مطابق ویکیسن، پینسلین اور دیگر ادویات کے 800 کارٹن درکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کچھی بولان ، کیاسیلاب سے متاثرہ مویشی پالوں اور گلہ بانوں کے نقصان کا کبھی ازالہ ہو پائے گا؟
راجن پور وٹرنری ہسپتال کے ڈاکٹر فرحت کہتے ہیں کہ گل گھوٹو اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے جو ویکسین اور پینسلین استعمال کی جاتی ہے اس کی قلت ہے۔
"اب دوائیاں کم آتی ہیں۔ یہاں ادویات کے 400 کے بجائے صرف 150 کارٹن آ رہے ہیں۔"
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں بجٹ فنڈ کی صورت میں نہیں ملتا بلکہ 150 کارٹن ادویات اور 300 لیٹر پیٹرول فراہم کیا جاتا ہے۔
ظہیر کے مطابق ان کے پاس صرف ایک موبائل گاڑی ہے جس کے ذریعے دور دراز علاقوں میں بھی علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
محکمے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن مجتبیٰ نے بتایا کہ ایک سال سے ادویات بہت کم آ رہی ہیں۔ اس بارے میں افسران بالا کو لکھ کر بھیجا گیا ہے لیکن تاحال صورتحال جوں کی توں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود ہفتے میں دو مرتبہ ہسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مویشی پالنے والوں کو مشکلات نہ ہوں۔ جانوروں کا علاج کرنے کے لیے موبائل گاڑیوں کے ذریعے ہوم سروس بھی دی جاتی ہے لیکن محدود وسائل کے باعث لوگوں کی شکایات رہتی ہیں تاہم جلد ان پر قابو پا لیا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 23 اکتوبر 2023