سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

postImg

عبداللہ چیمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

عبداللہ چیمہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

کیا پالیسیوں کا ڈیم، لیتھیم بیٹریوں کے سیلاب کو قابو کر پائے گا؟

آئے روز نیٹ میٹرنگ میں تبدیلیوں کی تجاویز سے خائف صارفین سسٹم کو خدا حافظ کہنا چاہتے ہیں
 

پاکستان کا انرجی سیکٹر ابھی پچھلے دو سالوں میں لگنے والے لا تعداد سولر سسٹمز کے اثرات سے نبردآزما ہو ہی رہا تھا کہ اسے ایک اور چیلنج نہ آ لیا ہے۔ وہ ہے لیتھیم بیٹری۔

ایک 5.6 کلو واٹ کی لیتھیم بیٹری اور چھ کلو واٹ کے سولر پینلز سے نہ صرف گھر یا دفتر کی بجلی پوری کی جا سکتی ہے بلکہ ہیوی لوڈ کے بغیر سات سے آٹھ گھنٹے بیک اپ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہیوی لوڈ (ڈیڑھ ٹن اے سی) شامل کرنے سے بیک اپ ٹائم کم ہو کر تین سے چار گھنٹے پر آ جاتا ہے۔

سولر پینلز اور نیٹ میٹرنگ کا نظام صارف کو آن گرڈ رکھتا ہے یعنی وہ اپنا بجلی کا بل کم کرنے کے باوجود بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے قومی نظام سے جڑا رہتا ہے لیکن سولر پینل اور لیتھیم بیٹری کا امتزاج اسے سسٹم سے مکمل طور پر آزاد کر دیتا ہے یا پھر سسٹم پر اس کا انحصار جزوی (ہائبرڈ سسٹم) رہ جاتا ہے۔ 

سولر انجینئر اخلاق احمد بیٹری کو بطور بیک اپ استعمال کر رہے ہیں اور بڑے مطمئن نظر آتے ہیں۔"میں نے دو ماہ قبل لیتھیم بیٹری لگوائی، ہائبرڈ انورٹر پہلے ہی لگایا ہوا تھا جس سے بجلی نہ صرف ذخیرہ کرتا ہوں بلکہ گرڈ کو بھی بھیجتا ہوں۔ میں مکمل سولر پر منتقل ہو چکا ہوں واپڈا کا بل نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اس مہینے تو منفی 23 ہزار روپے آیا ہے۔"

عبدالرزاق لاہور میں سولر سسٹمز اور بیٹریوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے لیتھیم بیٹری صرف موبائل وغیرہ میں استعمال ہوتی تھی اور بہت مہنگی تھی لیکن اب ہر جگہ موجود ہے۔

"پہلے میں صرف پینل بیچتا تھا اب روزانہ 50 سے زیادہ بیٹریاں بھی بک جاتی ہیں۔ جلد ہی سو یونٹ ماہانہ کا ہدف حاصل کر لوں گا۔"

سٹیٹ بینک کے مطابق 2023ء میں چین سے الیکٹریکل سٹوریج بیٹریوں کی درآمدات کی کل مالیت پانچ کروڑ 16 لاکھ ڈالر تھی جو 2024ء میں بڑھ کر ساڑھے چھ کروڑ ڈالر ہو گئی تھی۔ 2025ء کے پہلے پانچ ماہ میں ہی یہ درآمدات چھ کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔

مجاہد حسین چھ سال سے چین سے بیٹریاں امپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے وہ ایک کنٹینر منگواتے تھے لیکن اب چار سے پانچ منگواتے ہیں۔
تمام شواہد ایک ہی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ جس طرح پچھلے دو سالوں میں صارفین نے دھڑا دھڑ سولر پینل لگائے تھے اب اسی تیز رفتاری سے وہ اپنے پینلز کے سات لیتھیم بیٹریوں کا اضافہ کر رہے ہیں۔ 

نیٹ میٹرنگ پالیسی میں حکومتی تذبذب صارفین میں ہیجان پیدا کر رہا ہے

بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چھوٹے کاروبار میں سولر اور بیٹری کی مقبولیت میں اضافے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ صارفین کو خدشہ ہے کہ حکومت نیٹ میٹرنگ پالیسی کو تبدیل کر دے گی۔

سید قمر مہدی کئی سال سے سولر سسٹمز کی تنصیب کا کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چین میں لیتھیم آئن بیٹریاں پرانا ماڈل ہو گئی ہیں۔ وہاں لوگ اب لیتھیم آئرن فاسفیٹ اور سوڈیم آئن بیٹریوں پر جا رہے ہیں اور پرانی بیٹریاں سستی ہو گئی ہیں جو پاکستان میں بڑی تعداد میں درآمد ہو رہی ہیں۔

دوسرا اہم عنصر رواں سال مارچ میں نیٹ میٹرنگ ریٹ میں کمی کی حکومتی تجویز ہے، جس کے تحت نیٹ میٹرنگ ریٹ کو 22 اور 27 روپے یونٹ سے کم کر کے صرف 10 روپے کر دیا گیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں گرڈ سے صارفین کو بجلی 35 سے 40 روپے فی یونٹ میں فروخت ہورہی ہے۔

اخلاق احمد کہتے ہیں کہ مذکورہ اقدام نے صارفین کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا جس کی وجہ سے لوگوں نے خود کفیل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
جبکہ عبدالرزاق کے بقول پہلے لوگ آن گرڈ انورٹرز استعمال کرتے تھے لیکن اب اپنی پیدا کردہ بجلی ذخیرہ کرنے کے لیے لیتھیم بیٹری کو ترجیح دے رہے ہیں۔

تاہم ڈسکوز کے افسر کے مطابق ریٹ میں تبدیلی توانائی پالیسی کو پائیدار بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے تاکہ پورے نظام کا مالی توازن برقرار رکھا جا سکے۔

چین سے بیٹریوں کے پارٹس منگوا کر ان کی مقامی اسمبلنگ نے انہیں سستا کر دیا ہے

جہانزیب خان انورٹرز اور بیٹریوں کی درآمد سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک لیتھیم بیٹری کی طاقت چار ٹیوبلر بیٹریوں کے برابر ہے جو کم از کم پندرہ سال چلتی ہے۔ پہلے 60 فیصد سسٹمز آن گرڈ اور 40 فیصد ہائبرڈ تھے لیکن اب معاملہ الٹ ہو چکا ہے یعنی 80 فیصد سسٹمز ہائبرڈ اور صرف 20 فیصد آن گرڈ رہ گئے ہیں

آن گریڈ ایسا انورٹر جو بجلی کو ذخیرہ تو نہیں کرتا لیکن اضافی بجلی گرڈ میں واپس بھیج دیتا ہے جبکہ ہائبرڈ انورٹر گریڈ کو بجلی بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ بیٹریز میں انرجی ذخیرہ بھی کرلیتا ہے جو رات کے وقت استعمال ہوسکتی ہے۔

ایک عام 5 کلو واٹ لیتھیم بیٹری کی قیمت ڈھائی سے تین لاکھ روپے ہے جبکہ کمرشل سسٹمز 15 کلو واٹ تک جا رہے ہیں۔

عبدالرزاق نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے ماہ ایک ہسپتال میں 14 کلو واٹ کا سسٹم لگایا ہے جو رات کو مکمل طور پر لیتھیم بیٹریوں پر چلتا ہے۔

سولر انجنیئر اخلاق احمد کے مطابق بڑے کمرشل ادارے 50 کلو واٹ کے ہائی پاور سٹوریج بینک تیار کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے زیادہ صارف گھریلو اور چھوٹے کاروباری ادارے ہیں تاہم اس میں ای وی (الیکٹرک وہیکل: بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں) سیکٹر کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔

ای وی کمپنی چلانے والی عطیہ نایاب بتاتی ہیں کہ پہلے گاڑیوں کی بیٹری جلد خراب ہو جاتی تھی لیکن لیتھیم بیٹری نے یہ مسئلہ ختم کر دیا ہے۔ اس کی قیمت بھی 50 فیصد کم ہو چکی ہے جس میں مزید کمی مقامی اسمبلنگ کی وجہ سے آئی ہے۔

سید قمر مہدی بتاتے ہیں کہ چین سے صرف سیلز منگوا کر بیٹریاں پاکستان میں اسمبل کی جا رہی ہیں جو مکمل درآمدی بیٹریوں سے سستی پڑتی ہیں۔

البتہ اوسط سولر سیٹ اپ (بیٹری سمیت) پر تقریباً سات لاکھ روپے لاگت آتی ہے جو صرف خوشحال طبقہ برداشت کر سکتا ہے۔ غریب صارفین اب بھی گرڈ کے رحم و کرم پر ہیں اور بالواسطہ طور پر ان صارفین کا بوجھ بھی اٹھا رہے ہیں جو سولر پر منتقل ہو چکے ہیں۔

صارفین کی دن بدن گرڈ سے علیحدگی سے بجلی کے مرکزی نظام پر اثر پڑ رہا ہے

ڈسکوز کے ایک افسر کا ماننا ہے کہ جونہی چھوٹے کاروباری ادارے اور گھریلو صارفین گرڈ سے علیحدہ ہوتے ہیں تو سسٹم میں بجلی کی طلب کم ہو جاتی ہے، خاص طور پر دن میں جب سولر بجلی کی پیداوار عروج پر ہوتی ہے۔

اس صورتحال سے نہ صرف بجلی پیدا کرنے کی موجود صلاحیت کو کم استعمال کرنا پڑتا ہے بلکہ ڈسکوز کی آمدنی بھی متاثر ہوتی ہے۔ آخر انہیں (ڈسکوز) بھی انہی صارفین سے آنے والے ریونیو سے گرڈ کی دیکھ بھال اور اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں۔

ان کے بقول یہ رحجان آسٹریلیا اور امریکا کی بعض ریاستوں میں بھی دیکھا گیا جہاں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں نئے کاروباری ماڈل پر مجبور ہوئیں۔

متبادل توانائی کے ماہر محمد سعید کہتے ہیں کہ جرمنی نے بھی شروع میں اس صورتحال کو خطرہ سمجھا تھا مگر پھر اسے 'موقع' میں بدل لیا۔

جرمنی میں توانائی کی خرید و فروخت سٹاک مارکیٹ کی طرح ہوتی ہے یعنی کوئی بھی کسی وقت بجلی خرید یا بیچ سکتا ہے اور کنٹریکٹ کر سکتا ہے۔ یوں معاملات میں شفافیت سے صارف، پروڈیوسر اور حکومت سمیت تمام فریق فائدہ اٹھاتے ہیں۔

"لیکن ہمارا انرجی انفراسٹرکچر ایسی جدت یا تبدیلی کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔"

وہ تجویز دیتے ہیں کہ 40 فیصد فیڈرز کو سولرائز کرنا ہوگا، دوسرے گرڈ میں استحکام لانا ضروری ہے جس کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے سمارٹ انورٹرز اور فورکاسٹنگ سٹیشنز متعارف کرانا ہوں گے۔

ڈسکوز کے افسر بھی محمد سعید سے متفق دکھائی دیتے ہیں

"ہمارا بجلی کا نظام سرکاری کنٹرول میں ہے اور تبدیلی کی رفتار بہت سست ہے۔ بدلاؤ کے لیے ہمیں جلد سمارٹ گرڈ، ڈیجیٹل ڈھانچے اور ریئل ٹائم ڈیٹا سسٹمز میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ ساتھ ہی ٹیرف میں بھی اصلاحات ضروری ہوں گی تاکہ نظام میں مالی استحکام آئے اور غریب طبقہ متاثر نہ ہو۔"

وہ بتاتے ہیں کہ ایک مثبت پیشرفت یہ ہے کہ کےالیکٹرک کی ذیلی کمپنی 'کے سولر' نے ہواوے سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت  بیٹری سٹوریج، ای وی چارجنگ انفراسٹرکچر اور مائیکرو گرڈز لگائے جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 11 جولائی 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبداللہ سیاست، اقلیتوں کے حقوق اور گورننس کے مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب میں گریجوایشن کررکھی ہے اور تحریری رپورٹس کے ساتھ ساتھ پوڈکاسٹ اورڈاکومنٹریز بھی تیار کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

پیاز کی ریکارڈ پیداوار لیکن کسان کے ہاتھ کچھ نہ آیا

thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

تھرپاکر میں پانی ملا تو سولر نے زندگی آسان بنادی

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.