عالمی بنک کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے پسماندہ سمجھا جانے والا صوبہ بلوچستان مستقبل کی توانائی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر یہاں کی قدرتی صلاحیتوں یعنی سورج اور ہوا کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ صوبہ ملکی توانائی بحران کا دیرپا اور ماحول دوست حل فراہم کر سکتا ہے۔
'بلوچستان- رینیوبل انرجی ڈویلپمنٹ سٹڈی' رپورٹ بتاتی ہے کہ مغربی اضلاع خصوصاً چاغی اور پنجگور میں ہوا کی رفتار10 میٹر فی سیکنڈ تک ریکارڈ کی گئی ہے جو بجلی بنانے کے لیے عالمی معیار کے مطابق موزوں ترین سطح ہے۔
علاوہ ازیں صوبے میں شمسی توانائی کا پوٹینشل بھی غیر معمولی ہے جہاں سالانہ ڈھائی ہزار کلو واٹ آور فی مربع میٹر سورج کی روشنی دستیاب ہے جو دنیا کے بہترین سولر زونز کے برابر ہے۔
ڈاکٹر طارق بٹ گرین توانائی پر مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتے ہیں۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ بلوچستان کا ونڈ کوریڈور مستقل رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور کم آبادی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کے لیے انتہائی موزوں ہے جس میں چاغی، نوشکی اور پنجگور کے علاقے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
"اگر ہم فیصلہ کن اقدامات کریں تو بلوچستان کچھ ہی عرصے میں ملک کا توانائی ایکسپورٹ حب بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر پہلے کی طرح یہ موقع بھی ضائع ہو جائے گا۔"
وہ کہتے ہیں کہ سندھ میں جھمپیر ونڈ کوریڈور کی مثال سامنے ہے جہاں 1,200 میگاواٹ سے زائد کے پون بجلی قومی گرڈ میں فراہم کی جا رہی ہے۔ یہی ماڈل بلوچستان میں اس سے بہتر انداز میں دہرایا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں زمین کی دستیابی کے ساتھ دھوپ اور ہوا دونوں زیادہ مستحکم اور وسیع ہیں۔

بلوچستان شمسی اور ہوائی توانائی کا قدرتی خزانہ
بلوچستان کا ضلع چاغی نہ صرف معدنی وسائل کا مرکز ہے بلکہ توانائی پالیسی میں بھی کلیدی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہاں ریکوڈک اور سینڈ ک جیسے میگا مائننگ منصوبوں کو مسلسل اور سستی بجلی کی ضرورت ہے۔
عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق اگر مذکورہ منصوبوں کو روایتی فوسل یا ہیوی فیول آئل (HFO) سے پیدا ہونے والی بجلی فراہم کی گئی تو اس کی فی یونٹ لاگت 0.26 ڈالر ہو گی جو ممکنہ طور پر سالانہ 1.3 ملین ٹن کاربن کے اخراج کا باعث بھی بنے گی۔
تاہم اگر یہی منصوبے قابلِ تجدید ذرائع، خصوصاً شمسی و ہوائی بجلی، استعمال کریں تو توانائی کی لاگت میں 50 فیصد تک کمی ممکن ہے، اور کاربن اخراج بھی نہ ہونے کے برابر ہو گا۔
بلوچستان حکومت نے رواں بجٹ کے سالانہ پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں ونڈ انرجی (پون بجلی) سے متعلق منصوبہ بھی شامل کیا ہے۔
فزیبلٹی سٹڈی فار سولر اینڈ ونڈ ہائبرڈ پاور سلوشن فار مائننگ سیکٹر کا تخمینہ پانچ کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ اس منصوبے کو 'چاغی' کا نام دیا گیا ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر ایک کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
ورلڈ بنک کی رپورٹ 'بلوچستان- رینیوبل انرجی ڈویلپمنٹ سٹڈی' میں ایک دلچسپ تجویز شامل ہے جس کے مطابق چاغی یا پنجگور میں ایک گیگاواٹ کے سولر اور 750 میگاواٹ کے ونڈ پلانٹس نصب لگا کر بجلی 500 کلومیٹر دور گوادر منتقل کی جائے۔
وہاں یعنی گوادر میں اضافی بجلی کو گرین ہائیڈروجن میں تبدیل کیا جائے جو بندرگاہ کے ذریعے آرام سے یورپ ایکسپورٹ کی جا سکتی ہے۔
بینک کے ماہرین کے مطابق پانچ لاکھ ٹن گرین امونیا(جو ڈیڑھ لاکھ ٹن ہائیڈروجن کے برابر ہو گی) سالانہ بنانے والے ایک پلانٹ پر لگ بھگ چار ارب امریکی ڈالر لاگت آئے گی۔

ہوا، روشنی مفت، زمین وسیع، پھر رکاوٹ کہاں ہے؟
بلوچستان سے دیگر صوبوں کو بجلی کی منتقلی کے لیے 2.35 گیگاواٹ کی گنجائش موجود ہے جس کے لیے موجودہ نیٹ ورک کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر شمسی و ہوائی توانائی کے منصوبے بروقت مکمل ہو جائیں اور گرڈ سے منسلک کیے جائیں تو دن کے اوقات میں 1.78 گیگاواٹ بجلی سپلائی کی جا سکتی ہے۔
ورلڈ بنک کے مطابق ان اقدام سے نہ صرف پن بجلی پر انحصار کم ہو گا بلکہ ملک کو بجلی کی لاگت میں سالانہ ایک ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ان منصوبوں سے صوبے میں 25 ہزار افراد کے مستقل روزگار کا انتظام ہو جائے گا۔
بلوچستان کے سیکریٹری توانائی داؤد خان بازئی بتاتے ہیں کہ صوبہ اب سنجیدگی سے قابلِ تجدید توانائی پر توجہ دے رہا ہے۔ نئے صوبائی پی ایس ڈی پی میں قابلِ تجدید توانائی کے 15 سے زائد منصوبے شامل کیے گئے ہیں جن میں چھوٹے ہوم سولر سسٹمز، گرڈ سکیمیں اور فزیبیلیٹی سٹڈیز شامل ہیں۔
"ہم چاہتے ہیں کہ صوبے کو اس قابل بنایا جائے کہ مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ قومی گرڈ کو بھی سپورٹ کر سکے۔"
صرف صوبائی حکومت یا بین الاقوامی ادارے ہی نہیں بلکہ نجی شعبہ بھی اب بلوچستان میں متبادل توانائی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں معروف کیمیکل ساز کمپنی ڈائینا پاکستان لمیٹڈ نے صوبے کے واحد صنعتی شہر حب میں 1.1 میگاواٹ کا کیپٹو ونڈ پاور لگانے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان گرین انرجی کا دروازہ ہے جسے زنگ لگنے سے پہلے کھولنا ہو گا
ڈائینا پاکستان لمیٹڈ کمپنی نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو دی گئی اطلاع میں بتایا ہے کہ یہ منصوبہ کمپنی کے طویل مدتی پائیداری اہداف کا حصہ ہے اور اس پر عملدرآمد ریگولیٹری منظوریوں اور معاہدوں سے مشروط ہوگا۔
کمپنی کے مطابق اس منصوبے کا انجینئرنگ، پرکیورمنٹ اینڈ کنسٹرکسن (ای پی سی) معاہدہ حتمی مراحل میں ہے۔
ملک میں پہلے ہی کچھ کمپنیاں اسی رجحان پر کام کر رہی ہیں جیسا کہ ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے سندھ میں 4.8 میگاواٹ کا ونڈ پاور پلانٹ کامیابی سے مکمل کیا ہے۔ اب ڈائینا کا منصوبہ بلوچستان میں صنعتی پیمانے پر پون بجلی پیدا کرنے کی ایک مثبت مثال بن سکتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بلوچستان اس وقت توانائی انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر سیاسی عزم، پالیسی کا تسلسل، نجی شعبے کی شراکت اور انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ ایک ساتھ چلیں تو صوبہ نہ صرف توانائی میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ ملک کا پاور ایکسپورٹ زون بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر طارق بٹ کے بقول اگر آج اس پوٹینشل کو بروئے کار لانے کا فیصلہ نہ کیا گیا تو کل کوئی دوسرا ملک اپنے وسائل استعمال کرکے فائدہ اٹھا جائے گا۔ بلوچستان صرف ایک صوبہ نہیں، یہ پاکستان کے لیے توانائی کا دروازہ ہے جسے زنگ لگنے سے پہلے کھولنا ہو گا۔
تاریخ اشاعت 9 جولائی 2025