بلوچستان کے اولو آئل کی عالمی پذیرائی اور صوبے میں دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی ہوئی زیتون کی کاشت کی کہانی
بلوچستان خاموشی سے اپنی زراعت میں ایک نیا باب تحریر کر رہا ہے وہ ہے زیتون کی کاشت۔ اس کا مرکز لورالائی ہے جہاں حکومتی تعاون اور کسانوں کی دلچسپی سے اب تک اٹلی اور سپین کی زیتون کی کئی اقسام کے 10 لاکھ سے زائد درخت لگائے جا چکے ہیں۔
لورالائی کے کاشت کار عبدالجبار کے باغ سے حاصل شدہ زیتون کے تیل نے نیویارک انٹرنیشنل اولو آئل مقابلے میں سلور ایوارڈ حاصل کیا ہے جو ایک اعزاز ہے۔ اس عالمی مقابلے میں دنیا کے 12 سو سے زائد برانڈز نے حصہ لیا تھا۔ عبدالجبار نے اپنے صرف 30 ایکڑ کے باغ سے گزشتہ سال نو ہزار لٹر سے زائد زیتون کا تیل نکالا جو اس علاقے کی غیر معمولی پیداواری صلاحیت کا ثبوت ہے۔
ایوارڈ حاصل کرنے والے برانڈ 'لورالائی اولو' کی مالک کمپنی 'کھیتی ٹیکنالوجیز' نے اس سال ضلع سے دس ٹن تیل حاصل کیا تھا۔ ان کے ایک نمائندے کے مطابق وہ آئندہ برس اسے 25 سے 30 ٹن تک بڑھانے کا ہدف رکھتے ہیں۔
ضلع شیرانی (ژوب ڈویژن) میں ایک لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر جنگلی زیتون کے درخت پہلے سے موجود ہیں جن میں سے 15 ہزار ایکڑ سرکاری اور باقی نجی ملکیت ہیں۔ ان تمام درختوں کی اعلیٰ اقسام سے پیوندکاری کی جا رہی ہے۔ علاقے کے ایک کسان کے مطابق اس پیوند کاری کے بعد ان درختوں سے وہ ایک سال میں تین سے چار ہزار لٹر تیل حاصل کر رہے ہیں جس سے ان کو سالانہ 10 لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔
بلوچستان کے زیتون کا معیار ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے زیتون سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہاں 100 کلوگرام پھل سے 22 سے 28 لٹر تیل نکالا جا رہا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں 10 سے 16 لٹر نکلتا ہے۔
صرف ضلع لورالائی میں رواں سال (2025ء)کی فصل سے 62 ہزار لٹر تیل نکالا گیا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ پیداوار لورالائی، موسیٰ خیل، ژوب، بارکھان، قلعہ سیف اللہ اور پشین میں نظر آ رہی ہے۔ ان نیم پہاڑی علاقوں کا معتدل درجہ حرارت اور مخصوص مٹی زیتون کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں ہے۔

تجربات سے لے کر منظم شعبہ بننے تک کا سفر
بلوچستان کی اس کامیابی کا سہرا محکمہ زراعت بلوچستان اور وفاقی وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے سر جاتا ہے جنہوں نے گذشتہ 20 سالوں میں پانچ مختلف منصوبوں کے تحت زیتوں کی فارمنگ کو ترویج دی۔ انہیں اٹلی کے ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار ایڈوانسڈ میڈیٹرینیئن ایگرونومک اسٹڈیز (CIHEAM-Bari) کی مسلسل معاونت حاصل رہی ہے۔
زراعت ریسرچ لورالائی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حبیب اللہ کاکڑ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ زیتون فارمنگ کے فروغ کے لیے 2007ء سے مختلف منصوبوں پر مرحلہ وار کام کیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے (2007-12) کو تجرباتی کہا جانا چاہیے جس میں مختلف اضلاع بشمول لورالائی، ژوب، اور شیرانی میں محدود پیمانے پر زیتون کے پودے لگائے گئے۔ اس دوران تحقیقی اداروں نے مقامی آب و ہوا، مٹی کی قسم، اور پانی کی دستیابی کا جائزہ لیا تاکہ زیتون فارمنگ کی کامیابی کے امکانات کو جانچا جا سکے۔
مثبت نتائج سامنے آنے کے بعد دوسرے مرحلے (2013-18) میں کاشت کو وسیع کیا گیا۔ حکومت نے زیتون کے پودے ہزاروں کسانوں میں مفت تقسیم کیے، پیوندکاری کی تکنیک متعارف کرائی، اور ابتدائی سطح کے تیل کشی یونٹس نصب کیے گئے۔ اس فیز میں شیرانی کے پہلے سے موجود جنگلی زیتون کے درختوں پر قلم کاری کا آغاز بھی کیا گیا تاکہ ان سے پیداوار حاصل کی جا سکے۔
تیسرا مرحلہ (2019–2024)زیتون فارمنگ کو تجارتی بنیادوں پر منتقل کرنے کا تھا۔ اس دوران لاکھوں پیوندکاری شدہ پودے لگائے گئے، جدید آبپاشی نظام (جیسے ڈرِپ ایریگیشن)، مٹی کی بہتری کے منصوبے، اور کولڈ اسٹوریج سہولیات فراہم کی گئیں۔اس فیز میں تحقیقاتی اداروں نے زیتون کی 17 نئی اقسام بھی متعارف کروائیں۔ لورالائی میں پیدا ہونے والے زیتون کے ایک سو کلو پھل سے 28 کلو تیل نکالا جا رہا ہے جو عالمی معیار کے قریب ہے۔
حبیب اللہ کاکڑ کے مطابق یہ مرحلہ وار پیش رفت بتاتی ہے کہ اب زیتون فارمنگ ایک منظم اور پائیدار شعبہ بننے کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر حکومت موجودہ کامیابیوں کو مزید تقویت دے، کسانوں کو جدید برانڈنگ، پروسیسنگ، اور برآمدات کی سہولیات فراہم کرے تو بلوچستان دنیا بھر میں زیتون پیدا کرنے والا ایک ممتاز خطہ بن سکتا ہے۔

دن دگنی، رات چگنی
محکمہ کراپ رپورٹنگ بلوچستان کے مطابق 2017ء تک صوبے میں صرف دو سو ایکڑ رقبے پر زیتون تھا جس کی پیداوار کسی شمار میں نہیں آتی تھی لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
24-2023ء میں بلوچستان میں زیتون کے باغات کا رقبہ آٹھ ہزار ایکڑ تک جا پہنچا جس سے لگ بھگ ڈھائی ہزار ٹن زیتون کی پیداوار حاصل ہوئی جس کی مالیت دو ارب 16 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔
لورالائی کے زمیندار رفیع اللہ بتاتے ہیں کہ یہاں زیتون کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو پودا پہلے ہی سال پھل دینا شروع کر دیتا ہے جس کا آئل معیاری ہوتا ہے اور پونے تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار روپے لٹر میں فروخت ہوتا ہے۔
محکمہ زراعت لورالائی کے ڈاکٹر یوسف بتاتے ہیں کہ رواں سال ضلعے میں تین لاکھ سے زائد پودے تقسیم کیے گئے ہیں جن کی شرح بقا 80 فیصد ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں اب زیتون کی کاشت تجارتی پیداوار کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
صوبائی سیکرٹری زراعت نور احمد پرکانی بتاتے ہیں کہ گرین ٹریکٹر سکیم کے دوسرے مرحلے میں خاص طور پر زیتون کے کا شت کاروں کو 50 فیصد سبسڈی پر تین ہزار ٹریکٹر فراہم کیے جا رہے ہیں جس کے لیے ساڑھے تین ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
صوبے میں اب تک زیتون کے کل 24 لاکھ 65 ہزار پودے تقسیم کیے جا چکے ہیں اور 17 نئی اقسام متعارف کرائی گئی ہیں۔ محکمہ کراپ رپورٹنگ 15 کروڑ روپے سے ایک سافٹ ویئر بھی تیار کروا رہا ہے جو زیتون کے کسانوں کو ڈیجیٹل معاونت فراہم کرے گا۔
حکومت نے 20 اضلاع میں چھ ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے کولڈ سٹوریجز تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو بعض اضلاع میں مکمل ہو چکے ہیں۔ ان اقدامات سے زیتون سمیت کئی زرعی اجناس کو دیر تک محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی۔

عالمی منڈی میں جگہ بنانا آسان مرحلہ نہیں ہے
پاکستان کی زیتون کی برآمدات گو کہ ابھی بہت معمولی ہیں لیکن ان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق 2020ء میں پاکستان کی زیتون کی برآمدات صرف 15 ٹن تھیں جو اب پانچ سال میں دس گنا اضافے کے ساتھ 160 ٹن ہو گئی ہیں۔
اتھارٹی کے نیشنل پروڈکٹ افسر زین العابدین کا خیال ہے کہ پاکستان کو تھوک میں ایکسپورٹ سے نکل کر اپنی برانڈنگ پر توجہ دینی ہو گی اور آرگینک، آئی ایس او سرٹیفائیڈ اور ایکسٹرا ورجن آئل کی برآمدات کی جانب بڑھنا ہوگا تاہم بین الاقومی منڈی میں اور خاص طور پر یورپ امریکہ میں جگہ بنانے کے لیے بہت سے معیارات پر پورا اترنا اور خاص سرٹیفیکیشن کو حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے۔
بلوچستان کے محکمہ زراعت نے حال ہی میں اٹلی کے ادارے CIHEAM-Bariکے ساتھ زرعی ترقی اور دیہی خوشحالی کے فروغ کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے جس کے تحت اٹلی کا ادارہ، زرعی تحقیقاتی ادارہ سریاب روڈ کوئٹہ میں قائم کی جانے والی فائیٹو سینیٹری لیبارٹری کے لیے تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔
مزید برآں ادارے کی جانب سے بلوچستان کے زرعی سائنسدانوں کو نئی لیبارٹری کے نظام کو چلانے کی تربیت بھی دی جائے گی۔ ایم او یو پر دستخط محکمہ زراعت کے اسپیشل سیکریٹری انیس طارق گرگاج کے دفتر میں اس ماہ کی 3 تاریخ کو کیے گئے۔

محکمہ زراعت کے مطابق یہ بلوچستان کی پہلی فائیٹوسینٹری لیب ہو گی اور یہ زیتون کے درختوں کو ہونے والی ممکنہ بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لیے جدید طبی و تحقیقی سہولت فراہم کرے۔ لیب کا تربیت یافتہ عملہ اور جدید آلات بلوچستان میں زیتون فارمنگ کو محفوظ اور پائیدار بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
فائیٹو سینٹری لیب کی اہمیت صرف بیماریوں سے نمٹنے تک محدود نہیں بلکہ یہ زیتون سے متعلق بین الاقوامی غذائی قوانین اور معیارات پر پورا اترنے اور متعلقہ سرٹیفیکیشن حاصل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔ بلوچستان کے زیتون کے تیل کو ترقی یافتہ ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ISO, HACCP, GMP جیسی سرٹیفیکیشن حاصل کرنا لازمی ہے۔
زراعت ریسرچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر حبیب اللہ کاکڑ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت عالمی برانڈنگ اور ایکسپورٹ کے لیے درکار اقدامات کرے تو زیتون صوبے کی زرعی معیشت میں ایک انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 17 جولائی 2025