گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

postImg

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

رباب احمد نے کھانا بنانے کے لیے کچن میں جونہی چولہے کی دیا سلائی جلائی سب کچھ شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔کونے میں پڑا گیس سلنڈر پھٹ گیا۔ وہ فرش پر گر گئیں، چہرہ، بازو اور گردن سے کندھے تک کا حصہ بری طرح جھلس گیا۔

یہ دو سال پہلے کا حادثہ ہے جس نے صرف ان کی جلد کو ہی نہیں جلایا بلکہ ان کے بقول شناخت اور خود اعتمادی بھی چھین لی۔

ستائیس سالہ رباب احمد، لاہور کے گنجان علاقے سمن آباد کی رہائشی اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ اب وہ اس حادثے کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی ہیں، "ہر روز مرنے سے بہتر تھا میں اسی روز مر جاتی"۔

یہ پہلا یا آخری حادثہ نہیں ہے بلکہ ہر سال سلنڈر پھٹنے اور گیس لیکج کے درجنوں واقعات ہوتے ہیں جن میں رباب جیسی کئی خواتین اور خاندانوں کی زندگیاں متاثر ہوجاتی ہیں۔

دھرم پورہ لاہور کے رہائشی عمرخیام کا ماننا ہے کہ لیکویفائڈ پٹرولیم گیس (ایل پی جی) سلنڈر ہو یا پائپ لائن والی قدرتی گیس دونوں ہی کا استعمال ایک جیسا خطرناک ہے۔
"میرے خیال میں جب تک ہم ری نیوایبل انرجی پر منتقل نہیں ہوتے گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ توانائی کے متبادل ذرائع ہی اس مسئلے کا بہترین حل ہیں۔"

پانچ سال میں 54 حادثات اور 115 اموات ہوئیں

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز،کراچی کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پانچ سال (جولائی 2020ء تا جون 2024ء)کے دوران پاکستان میں گھریلو و کمرشل سلنڈرز پھٹنے اور گیس لیکج کے کم از کم 54 بڑے حادثات پیش آئے ہیں جن میں 115 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 378 افراد ہسپتالوں میں منتقل کیے گئے۔

یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مذکورہ واقعات میں سے سب سے زیادہ یعنی 27.8 فیصد حادثے کراچی سے رپورٹ ہوئے۔ اس کے بعد لاہور، پشاور اور راولپنڈی میں یہ تناسب 9 فیصد سے 10 فیصد کے درمیان ہے۔

اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے حادثات زیادہ گنجان آباد علاقوں میں رونما ہورہے ہیں۔

یہ تو بڑے حادثات کی تفصیل ہے میڈیا رپورٹس کہتی ہیں کہ پنجاب میں دو سال (2022ءاور 2023ء) کے دوران گیس کے چھوٹے اور بڑے کم از کم 328 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں17 افراد ہلاک اور 133 سے زائد جھلسے یا زخمی ہوئے۔ ریسکیو 1122 کے مطابق پچھلے ایک سال میں پنجاب میں 60 واقعات میں ایک ہلاکت سمیت 106 افراد متاثر ہوئے۔

لاہور میں ڈھائی ماہ قبل راوی روڈ پر ایک خوف ناک حادثے میں تین منزلہ عمارت زمین بوس ہو گئی تھی جس میں چھ افراد جاں بحق اور دس زخمی ہوئے۔ ایک ہی روز بعد اسی علاقے میں ایک اور گیس لیکج کے حادثے میں پانچ لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔

صوبائی دارالحکومت میں مذکورہ حادثات کے علاوہ رواں سال 30 جون تک صوبے میں ایسے 20 واقعات رپورٹ ہو چکے جن میں خواتین سمیت 39 افراد بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔

فائر سیفٹی ماہرین ان حادثات کی بنیادی وجہ غیر معیاری اور زائدالمیعاد سلنڈروں کا استعمال، غیر قانونی ری فلنگ، گیس پائیوں، اپلائنسز کی ناقص دیکھ بھال اور عوام میں حفاظتی شعور کی کمی بتاتے ہیں۔ 

گیس سے چھٹکارا  اور گرین انرجی پر منتقلی ہی حل ہے

المیہ یہ ہے کہ سرکاری حکام ہوں یا اس شعبے سے وابستہ کاروباری لوگ سب ہی ایک زبان ہوکر کر حادثات کا ذمہ دار ناقص سلنڈر اور احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کو قرار دیتے ہیں۔ گیس کا استعمال کس قدر خطرناک ہے یا پھر توانائی کے تجدیدی ذرائع(سولر، بائیو گیس) پر منتقلی کی کوئی بات نہیں کرتا۔

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 ڈاکٹر رضوان نصیر سے جب پوچھا گیا تو ان کا بھی یہی جواب تھا کہ سلنڈر پھٹنے یا گیس لیکج سے آگ لگنے کے واقعات اور نقصان سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر ناگزیر ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

"سلنڈر ہوادار جگہ پر رکھیں، غیر معیاری یا ری فلڈ سلنڈر سے گریز کریں اور ربڑ پائپ کی حالت باقاعدگی سے چیک کریں۔ گیس لیکج کا شک ہو تو بجلی کے آلات بند کر دیں، آگ نہ جلائیں، کھڑکیاں دروازے فوری کھول دیں وغیرہ وغیرہ۔"

حالانکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ایسی ایسی گلیوں میں ری فلنگ کی دکانیں قائم ہیں جہاں ہنگامی صورت میں امداد بھی پہنچنا ممکن نہیں۔ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق کہتے ہیں کہ بیشتر ری فلنگ شاپس کہیں رجسٹرڈ ہیں نہ ہی ان کے عملے کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت حاصل ہے۔

دوسری طرف گیس کے کاروبار سے وابستہ لوگ ذمہ دار صارفین کو قرار دیتے ہیں جو ان کے خیال میں ناقص سلنڈر خریدتے یا استعمال کرتے ہیں۔

گلبرگ لاہورکی پٹھان کالونی میں کاروبار کرنے والے ابراہیم کا بھی یہی دعوی ہے کہ بیشتر دکاندار تو اپنی طرف سے تمام حفاظتی اقدامات کرتے ہیں۔ لیکج زیادہ تر تب ہوتی ہے جب صارف منع کرنے کے باوجود پرانے یا زنگ آلود سلنڈر بھرواتے ہیں۔

ایک اور حادثے تک طویل خاموشی

ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عرفان کھوکھر بھی اوگرا اور دیگر متعلقہ اداروں سے ناقص سلنڈرز کی تیاری، ترسیل اور فروخت میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ صرف ناقص سلنڈرز اور گیس لیکج سے ہی حادثات نہیں ہوتے، ٹینکرز میں ترسیل کے دوران حادثات زیادہ نقصان کا سبب بنتے ہیں۔

رواں سال 28 جنوری کو ملتان  کے علاقے حامد پور کنورہ میں مظفرگڑھ روڈ پر ٹنوں گیس سے بھرا باؤزر (ٹینکر) آگ لگنے سے پھٹ گیا۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ دو درجن گھر متاثر اور چھ افراد زندہ جل گئے۔ مجموعی طور پر 10 ہلاکتیں  اور 35 سے زائد افراد زخمی ہو ئے۔

دوسری طرف آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے ترجمان عمران غزنوی بتاتے ہیں کہ ان کے ادارے نے سلنڈرز، ٹینکس اور باؤزرز بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں جن میں ضلعی انتظامیہ، ایکسپلوسوز ڈیپارٹمنٹ، سول ڈیفنس اور تھرڈ پارٹی انسپکٹرز بھی شامل تھے۔

لاہور ، شیخوپورہ اور کراچی میں متعدد فیکٹریاں، سلنڈرز کے گودام سیل کیے گئے اور ایک مینوفیکچرنگ یونٹ کے مالک کو گرفتار کیا گیا۔ 14 ناقص باؤزرز اور ٹینکس ضبط کیے جبکہ کراچی اور ملتان میں مینوفیکچررز کو تنبیہہ نوٹس جاری ہوئے۔ دو کمپنیوں کو دو لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

تاہم یہ کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں، جب بھی ملک میں ملتان جیسا کوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے سرکاری ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ پھر ایک اور حادثے تک طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔

سولر اور بائیو گیس زیادہ محفوظ اور سستا ذریعہ 

عالمی ادارہ صحت  بتاتا ہے کہ ایندھن (لکڑی، کوئلہ، مٹی کاتیل)  سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے باعث ہر سال دنیا میں 32 لاکھ افراد قبل از وقت ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قدرتی گیس سے پیدا ہونے والی آلودگی انٹرنیشنل انرجی ایجنسی  کی رپورٹ مطابق موسمیاتی تغیرات کی30 فیصد ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔

عرفان کھوکھر الزام عائد کرتے ہیں کہ بعض گیس کمپنیاں ایل پی جی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے مہلک اجزا کی ملاوٹ کر کے انسانی جانوں اور ماحول کو خطرے سے دو چار کرتی ہیں۔

ترجمان اوگرا کہتے ہیں کہ گیس میں مضر مواد ملانے پر دس سال قید، ایک کروڑ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے اور قانون کی پاسداری کے لیے کمپنیوں کو سخت وارننگ دی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی رپورٹ نہیں ہوئی۔

قابل تجدید توانانی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ انسانی جانوں کا ضیاع اور موسمیاتی تغیرات کو روکنے کا پائیدار اور محفوظ ترین حل صرف قابل تجدید توانائی پر منتقلی ہی ہے۔

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کی پروفیسر جویریہ قیس کا ماننا ہے کہ فوری طور پر قدرتی گیس کو ترک کرنا ممکن نظر نہیں آتا لیکن آہستہ آہستہ اس پر انحصار میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

"ہمارے پاس سولر انرجی جیسا سستا اور گھریلو آلودگی سے پاک متبادل موجود ہے جو کسی بھی ایندھن کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔ ہم دن کو سولر ککرز اور سولر اوونز کے ذریعے آرام سے کھانا پکا سکتے ہیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ الیکٹرک چولہے خاص طور جن کا شعلہ نہیں ہوتا ان میں خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح دیہات میں بائیو گیس بھی مؤثر انداز میں استعمال ہو سکتی ہے۔

ری نیو ایبل انرجی کے ماہر ڈاکٹر سلمان طارق سمجھتے ہیں کہ حکومت اگر بایو گیس یونٹس اور سولر سٹوو کی تنصیب پر سبسڈی دے تو ایل پی جی پر انحصار کم کرنا آسان ہو گا اور لوگ جلد از جلد اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

تاریخ اشاعت 24 جولائی 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.