کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

postImg

عمر باچا

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

عمر باچا

loop

انگریزی میں پڑھیں

ضلع شانگلہ میں زیر تعمیر کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی ٹنل کی آزمائش کے لیے پچھلے ماہ پہاڑی نالے (کانا خوڑ) کا پانی موڑا گیا تو پورے علاقے کی بجلی بند ہوگئی۔ شدید گرمی سے تنگ مقامی لوگوں نے احتجاجاً سوات روڈ بلاک کر دی اور پراجیکٹ پر کام بھی رکوا دیا۔

کوز کانا نامی اس علاقے کی ہزاروں افرد پر مشتمل آبادی کانا خوڑ پر قائم چھوٹے نجی پن بجلی گھروں سے بجلی لیتی ہے۔ پانی جونہی ٹنل میں منتقل کیا گیا، نالے کی سطح کم ہوئی اور تمام نجی ٹربائنز کی پیداوار رک گئی۔

 جو لوگ پہلے ہی اس منصوبے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھے انہیں بجلی کی گھنٹوں بندش نے مزید فکر مند کردیا۔

خیبر پختونخوا حکومت 11.8 میگاواٹ کا یہ ہائیڈرو پاور بشام شہر(قراقرم ہائی وے) سے تقریباً 16 کلومیٹر شمال میں تعمیر کر رہی ہے جو سوات روڈ سے کچھ فاصلے پر کروڑہ سیرئی گاؤں کے قریب ہے۔

 یہ پاور پراجیکٹ پہاڑی نالے 'کانا خوڑ' پر بنایا جا رہا ہے جس کا پانی مخصوص راستوں سے دریائے سندھ کی معاون ندی خان خوڑ میں گرتا ہے۔ 
اس بجلی منصوبے کا ڈیم کوز کانا گاؤں میں ہے تو پاور سٹیشن سوا پانچ کلومیٹر نیچے مارین کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔

ڈیم سے پانی تقریباً تین کلومیٹر طویل زیرزمین ٹنل (سرنگ) کے ذریعے سینڈ ٹریپ تک لایا جائے گا جو پاور ہاؤس کے ٹربائن جنریٹرز میں پہنچےگا۔ یعنی اب پانی ڈیم سے ٹنل اور پاور سٹیشن کے راستے براہ راست خان خوڑ ندی میں گرے گا۔ یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی 132 کلو واٹ ڈبل سرکٹ ٹرانسمشن لائن کے ذریعے بشام قلعہ سے قومی گرڈ میں شامل کی جائے گی۔

14 چھوٹے نجی بجلی گھر اور 12 پن چکیاں ناکارہ ہوجائیں گی

صوبائی محکمے پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) نے کروڑہ ہائیڈرو پاور کی تعمیر کا آغاز 2014ء میں کیا جو 2018ء میں مکمل ہونا تھا۔ لیکن یہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا تاہم اب اس پر تقریباً 97 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

اس پراجیکٹ کی فزییبلیٹی رپورٹ  پیڈو ہی نے 2011ء میں تیار کی تھی جس میں لاگت کا تخمینہ دو ارب 26 کروڑ سے زائد بتایا گیا تھا۔ تاہم نظرثانی شدہ پی سی ون  میں ٹرانسمشن لائن سمیت ممکنہ لاگت چار ارب 62 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔

کانا خوڑ ندی کا پانی جہاں خان خوڑ دریا میں گرتا ہے وہاں سے ایک کلومیٹر نیچے رانیال میں پہلے ہی خان خوڑ ہائیڈرو پاور (صلاحیت 72 میگاواٹ ) کا ڈیم بنایا جا چکا ہے۔ اس کے لیے دریا کے پانی کو بھی ٹنل میں موڑ دیا گیا تھا۔

محکمہ ریونیو شانگلہ کے مطابق کانا ندی کو ٹنل میں ڈالنے سے 14 چھوٹے نجی بجلی گھر اور 12 پن چکیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔

کروڑہ پراجیکٹ متاثرین کی کمیٹی کے سربراہ تاج بر بتاتے ہیں کہ کوز کانا چیلئی سے سیرئی تک دونوں اطراف زرعی زمینیں، آبپاشی چینلز سے محروم ہو جائیں گی بلکہ پینے اور گھریلو استعمال کے پانی کی دستیابی بھی مشکل ہو جائے گی۔

یہاں مکئی گندم جیسی فصلوں کے ساتھ 72 کنال جاپانی پھل اور ناشپاتی کے باغات بھی ختم ہو جائیں گے۔

60 ہزار آبادی بجلی سے محروم ہوجائے گی

اس کے علاوہ مقامی لوگ اپنے روزگار کے حوالے سے بھی فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔

کانا کوز  کے عبدالرحمن 20 سال سے کانا ندی پر دو پن بجلی گھر اور دو پن چکیاں چلا رہے ہیں۔ انہوں نے پہاڑی چوٹیوں پر واقع ڈھائی سو سے زائد گھروں کو بجلی دے رکھی ہے اور فی گھر 400 سے 700 روپے کے عوض بلا تعطل سپلائی دے رہے ہیں۔

وہ اب پریشان ہیں کہ چند ماہ بعد جب کانا خوڑ سوکھ جائے گا تو ان کے خاندان کے گزارے اور روزگار کا کیا بنے گا۔

"کروڑہ پراجیکٹ کے سروے کے وقت پیڈو حکام نے ہمیں بڑے سبز باغ دیکھائے تھے مگر اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔ لیکن کیا کر سکتے ہیں اب جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا۔"

متاثرین کمیٹی کے سربراہ تاج بر کے بھی دو بجلی گھروں پر 390 کنکشنز ہیں اور وہ بھی فی گھر 400 سے 700 روپے وصول کرتے ہیں۔ دو پن چکیوں کی آمدنی ملا کر وہ چار لاکھ ماہانہ کماتے ہیں۔

"واپڈا یہاں کے مکینوں کو کبھی بلاتعطل اتنی سستی بجلی نہیں دے سکتا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ قریبی علاقوں میں شدید گرمی کے دوران لوڈشیڈنگ سے واپڈا صارفین بے حال ہو رہے ہیں۔"

عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ 2010ءکے سیلاب کے دوران کانا سب تحصیل میں واپڈا کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا تھا۔ تب سے یہاں کی دو لاکھ آبادی کا انحصار مقامی نجی بجلی گھروں پر ہے۔

"اب کروڑہ پراجیکٹ سے تین یونین کونسل رانیال، کوز کانا اور اوپل کی 60 ہزار آبادی بجلی کے ساتھ پن چکیوں کی سہولت بھی محروم ہوجائے گی۔ اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ کچھ نہیں۔"

16 چشمے ختم ہو گئے، حکومت نے واٹر سپلائی سکیم تک کا وعدہ پورا نہیں کیا 

کوز کانا بورشٹ گاؤں کے رہائشی میاں سہراب کو خدشہ ہے کہ مذکورہ تین یونین کونسلز کے لوگوں نے پینے کے پانی کے لیے دریا میں موٹریں لگا رکھی ہیں جہاں سے ٹینکیوں میں گھروں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس پراجیکٹ کی وجہ سے یہ سپلائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

نثار احمد 30 ہزار آبادی کے گاؤں دونئی میں رہتے ہیں جو ٹنل کے اوپر پہاڑی پر واقع ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2015ء میں ٹنل پر کام شروع ہوا تو اس وقت گاؤں کے ارد گرد 16 چشمے تھے مگر اب یہ پوری آبادی پانی کو ترس رہی ہے۔

"ان چشموں میں سے کچھ خشک ہو چکے ہیں اور باقیوں کا پانی ڈیم میں جا رہا ہے۔ ہم سب گاؤں والے پینے کا پانی دور دراز سے گاڑیوں اور گدھوں پر لاتے ہیں جبکہ پراجیکٹ والوں نے واٹر سپلائی سکیم تک کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔"

دراصل 25 فروری 2015ء کو پیڈو کے ڈائریکٹر محمد شفیع اور حاجی تاج بر کی زیر قیادت مقامی لوگوں کی چھ رکنی کمیٹی کے درمیان ایک تحریری معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے میں معاوضے کی ادائیگی کے علاوہ دریا میں مناسب پانی چھوڑنے، یو سی رانیال، اوپل اور کوز کانا کے لیے رعایتی بجلی کی فراہمی، واٹر سپلائی سکیم کا فوری اجراء اور بچ جانے والی زرعی اراضی کے تحفظ کے لیے پشتے کی تعمیر جیسے کئی نکات شامل تھے۔

تاہم متاثرین کے بقول حکومت نے متاثرہ گھروں و مائیکرو بجلی گھروں وغیرہ کے معاوضے کی ادائیگی کے سوا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔

 متاثرین کمیٹی کے ممبر کے مطابق ٹنل کی آزمائش سمیت پراجیکٹ اب تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔

صوبائی حکومت کا متاثرین سے ایک اور معاہدہ

یہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے پانچ جولائی کو شانگلہ سے ممبر قومی اسمبلی امیر مقام سے مل چکے ہیں لیکن  ان کے بقول امیر مقام نے بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں کی۔

گل محمد بتاتے ہیں کہ 2015ء کے معاہدے کی شق نمبر3 کے مطابق متاثرہ تین یونین کونسلوں کو کوہستان طرز کے میکانزم کے تحت جنریشن ریٹ پر بجلی مہیا کی جائے گی جس کا حتمی فیصلہ ڈپٹی کمشنر کریں گے۔

واضح رہےکہ حکومت کوہستان کے تین اضلاع (اپر، لوئر کوہستان اور کولئی پالس) میں پاور پراجیکٹس متاثرین کو پہلے ہی رعایتی بجلی دینے کا معاہدہ کر چکی ہے۔

کروڑہ پرجیکٹ کا تنازع اب چونکہ بڑھتا ہی جارہا ہے تو متاثرین نے گزشتہ ہفتے 'شانگلہ قومی جرگہ' بلالیا،  جرگے میں صوبائی وزیر توانائی طارق سدوزئی، ڈپٹی کمشنر فواد خان، چیف ایگزیکٹو پیڈو عرفان وزیر و دیگر بھی شریک ہوئے۔

جرگے میں مذاکرات کے بعد متاثرین اور صوبائی حکومت کے درمیان ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت حکومت نے تین متاثرہ یونین کونسلوں میں نئے سکول، بنیادی ڈھانچے اور واٹر سپلائی سکیموں کے فوری اجراء کی یقین دہانی کرائی ہے۔

متاثرہ یونین کونسلوں میں نئے مائیکرو اور منی ہائیڈل پراجیکٹس لگانے کی بھی منظوری دی گئی۔ مزید براں مقامی آبادی کو کم نرخوں پر بجلی دینے اور پیسکو کی ٹرانسمشن لائنیں بچھانے پر اتفاق ہوا۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر کی زیرسرپرستی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔

تاہم ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کہ پیڈو حکام نے انہیں بتایا کہ سبسڈی والی بجلی دینا ممکن نہیں کیونکہ صوبائی حکومت کے پاس نہ تو اپنا ٹرانسمیشن نیٹ ورک ہے اور نہ ہی نرخ کم کرنے کا اختیار ہے۔

تاریخ اشاعت 18 جولائی 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

پیاز کی ریکارڈ پیداوار لیکن کسان کے ہاتھ کچھ نہ آیا

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.