وہاڑی میں بس ہوسٹس کے ساتھ زیادتی، شواہد ضائع کرنے کی کوشش

postImg

مبشر مجید

postImg

وہاڑی میں بس ہوسٹس کے ساتھ زیادتی، شواہد ضائع کرنے کی کوشش

مبشر مجید

دسمبر 2012ء میں دہلی میں ایک طالبہ کے ساتھ چلتی بس میں ہونے والے ریپ کے واقعے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایسا ہی واقعہ تین فروری کو وہاڑی میں پیش آیا۔بس ہوسٹس کو چلتی بس میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان کا کیس دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔

شاہدہ (فرضی نام) بتاتی ہیں کہ بس میں ساتھ سفر کرنے والا گارڈ شیراز انہیں شروع دن سے ہراساں کر رہا تھا۔  

"مجھے غصہ بھی آتا لیکن اس لیے خاموش رہی کہ گھر بتاتی تو ابو ملازمت چھوڑنے کا کہتے، تو پھر گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوتے؟"

شاہدہ کو تین فروری 2023ء کو رحیم یارخان سے وہاڑی کی بس پر جانے کا کہا گیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ شیراز کی ڈیوٹی بھی اس بس میں ہے تو انہوں نے ڈرائیور آصف سے کہا کہ وہ اس گارڈ کے ساتھ نہیں جانا چاہتیں۔

"میرے خدشات کے باوجود ڈرائیور نے مجھے ڈیوٹی پر چلنے کے لیے اصرار کیا۔ بس ہوسٹس کی ڈیوٹی انچارج عالیہ سے بھی درخواست کی کہ مجھے اس بس پرنہ بھیجیں لیکن انہوں نے بھی میری ڈیوٹی تبدیل نہ کی"۔

بس ساڑھے چھ بجے رحیم یار خان سے روانہ ہوئی اور صبح ساڑھے نو بجے میلسی میں تمام سواریاں اتر گئیں تو بس وہاڑی کی جانب روانہ ہوگئی۔ کچھ دیر بعد گیٹ لاک کردیا گیا اور گارڈ شاہدہ کا موبائل چھین کر پچھلی نشست پر چلاگیا۔

"میں نے ڈرائیور کو شکایت کی تو اس نے کہا کہ جا کر خود موبائل لے لو۔ پھر وہ سب ہوا جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی"۔

شاہدہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے روز شاہدہ کی عمر 17 سال 11 ماہ اور 20 دن تھی۔

شاہدہ رحیم یارخان کے محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔وہ تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ان کے والد رنگ ساز ہیں جنہیں کچھ برس قبل شدید کرنٹ لگا تو ان کا دایاں بازو اور انگلیاں بری طرح متاثر ہوئیں اور وہ کام کے قابل نہ رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کے گھر کے حالات بگڑنا شروع ہوئے۔

شاہدہ نے ٹیوشن پڑھا کر گھر کا کچن چلانے کی کوشش کی لیکن حالات بہتر نہ ہوئے۔ اس وقت وہ میٹرک کی طالبہ تھیں۔

شاہد ہ کے والد کے دوست نے بتایا کہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کو بس ہوسٹس کی ضرورت ہے تو ان کے اہل خانہ آسانی سے مان گئے اور گزشتہ برس نومبر میں انہوں نے رحیم یار خان اور وہاڑی کے بیچ چلنے والی وڑائچ ٹرانسپورٹ بس سروس میں خاتون میزبان کے طور پر کام شروع کردیا۔ اس وقت ان کی عمر 18 سال سے کم تھی۔

جائے وقوعہ کے شواہد ختم کرنے کی کوشش؟

شاہدہ نے سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے وہاڑی پہنچتے ہی ون فائیو پر کال کی جس کے بعد پولیس آ گئی۔

"میرا میڈیکل کروایا گیا اور ملزمان شیراز اور آصف کو  جنسی زیادتی کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے روز دونوں کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ ہوگیا لیکن وقوعہ کے شواہد جمع کرنے کے لیے جب ملتان سے فرانزک ٹیم پہنچی تو اس سے پہلے بس عملے نے شواہد مٹانے کے لیے بس کو دھو دیا "۔

تاہم ڈی پی او وہاڑی عیسٰی خان اس عمل کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پی ایس ایل کی وجہ سے پولیس کی نفری اور افسروں کی ملتان میں ڈیوٹیاں لگی ہوئی تھیں، انہیں اسی بس کے ذریعے ملتان جانا تھا اس لیے بس کو دھلوایا گیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ "لڑکی کا فوری میڈیکل اور ڈی این اے ہوگیا تھا اور ہم نے ملزموں کو گرفتار کر لیا تھا۔اس لیے ثبوت مٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔

<p>بس کمپنیوں کی خواتین میزبانوں کو صرف عملے ہی نہیں مسافروں کی جانب سے بھی ہراسانی کاسامنا کرنا پڑتا ہے<br></p>

بس کمپنیوں کی خواتین میزبانوں کو صرف عملے ہی نہیں مسافروں کی جانب سے بھی ہراسانی کاسامنا کرنا پڑتا ہے

وہاڑی پنجاب کا بڑا ضلع ہے جس کی سرحدیں بہاولنگر، بہاولپور، لودھراں، پاکپتن، خانیوال اور ساہیوال اضلاع سے لگتی ہیں۔ یہاں دور و نزدیک کے لیے روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے ہیں جن کے لیے سیکڑوں بسیں اور کوچز موجود ہیں۔

وہاڑی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری سردار مصور خان بلوچ  کہتے ہیں کہ بس کو دھونے کی کوشش کا مقدمے پر  زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ  متاثرہ لڑکی نے واقعہ کے فوری بعد میڈیکل کروا لیا تھا۔

کیا بس ہوسٹس انچارج ملزموں کے ساتھ ملی ہوئی تھی؟

    شاہدہ کے وکیل عبدالوہاب بلوچ کے مطابق مقدمے میں تین ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا جس میں سکیورٹی گارڈ شیراز، ڈرائیور آصف اور بس ہوسٹس انچارج عالیہ کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے متاثرہ لڑکی کو مبینہ طور پر زبردستی ڈیوٹی پر بھیجا تھا۔"عالیہ نے منع کرنے کے باوجود، جان بوجھ کر شاہدہ کی ڈیوٹی لگائی لیکن پولیس نے اس کو گرفتار نہیں کیا"۔

 ڈی پی او وہاڑی عیسی خان کہتے ہیں کہ پولیس تفتیش کرر ہی ہے۔

"ہوسٹس انچارج کی ڈیوٹی تھی کہ وہ سٹاف کو مقررہ گاڑیوں میں بھجوائے اگر اس کی غلطی ہوئی تو اسے ضرور گرفتار کیا جائے گا دیگر ملزموں کے خلاف دفعہ 376-الف کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کی سزا موت ہے"۔

بس ہوسٹس انچارج عالیہ عبوری ضمانت پر ہے۔

ڈی ایس پی لیگل روبینہ عباس کہتی ہیں کہ بچی کوتحفظ دیا گیا اور فوری طور پر میڈیکل کرایا گیا۔"تمام کام تیزی کے ساتھ مکمل کیے کہ کہیں ملزمان تاخیر کافائدہ نہ اٹھالیں"۔

روبینہ عباس کہتی ہیں انہوں نے اپنی نگرانی میں فرانزک کرایا اور ڈی این اے کے لیے نمونے بھی بروقت بھیج دیے۔

ورائچ بس سروس کا مالک محمد افضال رحیم یار خان کا رہائشی ہے۔

شاہدہ کے وکیل نے جب بس مالک سے بات کی تو مبینہ طور پر اس کا کہنا تھا  کہتے ہیں کہ "ہم سے کوئی رابطہ نہ کرے جس نے جواب طلبی کرنی ہے ہوسٹس انچارج کی کرے"۔

"آخری وقت تک لڑوں گی"

وڑائچ بس سروس میں بیشتر بس ہوسٹس غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ  جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔

"نہ تو ہم ایسے واقعات بارے کسی کو بتانا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہم اپنی زندگی میں کسی نئے دشمن کو افورڈ کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں خواتین کو ہر کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کیا جاتا ہے اور خاص طور پر ٹرانسپورٹ کی فیلڈ میں خواتین کو دیگر شعبہ جات سے زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں"۔

2018ء میں نجی کمپنی کی بس گارڈ عمر دراز نے بس ہوسٹس مہوش کو فیصل آباد میں بس ٹرمینل کی حدود میں گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'مشکلیں اتنی پڑیں': سکیورٹی گارڈ خواتین کو درپیش نامناسب حالاتِ کار کا حل کیسے ممکن ہے۔

پائیدار سماجی ترقی کی تنظیم ( ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022ء میں یکم جنوری سے لے کر 31 اکتوبر 2022ء تک پنجاب بھر میں ریپ اور گینگ ریپ کے تین ہزار 80 کیسز سامنے آئے۔ سب سے زیادہ 446 کیسز  لاہور میں ہوئے۔ ضلع وہاڑی 74 کیسز کے ساتھ پنجاب میں 15 ویں نمبر پر ہے۔

ڈان نیوز کی 20 اکتوبر 2022ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی وزارت نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران خواتین پر تشدد کے 63 ہزار سے زائد مقدمات درج کیے گئے جن میں زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے مقدمات کی تعداد 11 ہزار سے زائد ہے۔

ضلع وہاڑی کی سماجی تنظیم بیداری کی کوارڈینیٹر یاسمین فاطمہ کہتی ہیں کہ مختلف بس کمپنیوں میں ملازمت کرنے والی خواتین میزبانوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات عام ہیں۔ صرف عملے ہی نہیں انہیں مسافروں کی جانب سے بھی ہراسانی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

شاہدہ کہتی ہیں کہ وہ  خاموش رہ کر خود سے زیادتی کے واقعے کو پوشیدہ رکھ سکتی تھیں۔

"لیکن میری خاموشی سے ایسے عناصرکی حوصلہ افزائی ہو تی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو میرے ساتھ ہوا ہے میں اس کے خلاف آخری دم تک لڑوں گی تاکہ ملزمان کو سزا ہو اور دوبارہ ایسے واقعات نہ ہوں"۔

تاریخ اشاعت 21 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مبشر مجید وہاڑی کے رہائشی اور گذشتہ چھ سال سے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔ زراعت، سماجی مسائل اور انسانی حقوق ان کے خاص موضوعات ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.