محمد قیصر ایک ٹھنڈا مشروب ایک گلاس سے دوسرے گلاس میں اس طرح انڈیل رہے ہیں کہ دونوں میں فاصلہ موجود رہے۔ دوسرا گلاس گومند ناتھ نامی ایک شیڈولڈ کاسٹ ہندو نے پکڑ رکھا ہے۔
محمد قیصر کی عمر 17 سال ہے اور وہ جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے 22 کلومیٹر جنوب مشرق میں شیخ زید پیلس کے پاس واقع اڈا پل نامی جگہ پر ٹھیلا لگا کر بادام اور خشخاش سے بنا مشروب بیچتے ہیں۔ 19 اپریل 2022 کی شدید گرم دوپہر کو ان کا ٹھیلا قناتوں سے ڈھکا ہوا ہے کیونکہ مسلم آبادی کے روزوں کے احترام میں قانون انہیں سرِعام اشیائے خوردونوش فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
گومند ناتھ کی عمر 37 سال ہے اور وہ موٹر سائیکل پر مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ اس روز جب وہ اپنی موٹر سائیکل قناتوں کے باہر کھڑی کر کے ان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور مشروب کا آرڈر دیتے ہیں تو دوسرے گاہکوں کے برعکس وہ خود ہی ٹھیلے کے ساتھ پڑی ایک میز کے نیچے سے مٹی سے اٹا ایک گلاس اٹھاتے ہیں اور قریب پڑی ہوئی پانی کی ایک بالٹی کے پاس جاکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ محمد قیصر ایک صاف ستھرے شیشے کے گلاس سے کچھ پانی اس گندے گلاس میں انڈیلتے ہیں تاکہ گومند ناتھ اسے دھو سکیں۔ لیکن پانی انڈیلتے ہوئے وہ اپنی شلوار اور قمیض ایسے سمیٹ لیتے ہیں جیسے وہ انہیں گندے گلاس سے اڑنے والے پانی کے چھینٹوں سے بچا رہے ہوں۔
گلاس دھونے کے بعد گومند ناتھ اس میں مشروب ڈلواتے ہیں اور ایک ٹوٹی پھوٹی بنچ پر بیٹھ کر اسے پینے لگتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ہی بہتر حالت کی کرسیاں اور چارپائیاں بھی پڑی ہوئی ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو وہ چونک جاتے ہیں اور کچھ دیر سوچنے کے بعد سرگوشی کے انداز میں جواب دیتے ہیں کہ "ایسا تو صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ ہماری ذات اور ہمارے مذہب کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ کھا پی نہیں سکتے"۔
'اچھوت' لوگوں کا 'ناپاک' سایہ
سکھ دیو بھیل ضلع رحیم یار خان میں سرکاری سرپرستی میں قائم کی گئی بین المذاہب امن کمیٹی کے رکن اور مقامی شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادری کے مذہبی رہنما ہیں۔ وہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک کے متعدد شہروں میں مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے ہونے والے بحث مباحثوں اور تقریبات میں شرکت کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِن جگہوں پر انہیں شاذو نادر ہی کسی امتیازی سلوک یا چھوت چھات جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن، ان کے مطابق، ان کے اپنے ضلعے میں انہیں روزانہ غیر مناسب سماجی رویے جھیلنا پڑتے ہیں۔
ان رویوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہندو غلطی یا ناسمجھی سے کسی مسلمان کی چارپائی پر ہی بیٹھ جائے تو "یہ لوگ اسے دھتکار دیتے ہیں اور بعض اوقات تو اس کو مارتے پیٹتے بھی ہیں"۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی ہندوؤں نے "اس تذلیل کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے"۔ اس لیے انہوں نے اس پر نالاں ہونے کے بجائے "اس کی پرواہ کرنا ہی چھوڑ دی ہے"۔
سکھ دیو رحیم یار خان شہر کے نواح میں واقع یوسف کالونی نامی بستی میں رہتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کے 60 فیصد باسی مسلمان ہیں اور 40 فیصد ہندو۔ اس کے گھروں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان میں سے کون سے مسلمانوں کے ہیں اور کون سے ہندوؤں کے کیونکہ مسلمانوں کے گھر پکی اینٹوں سے بنے ہیں، ان کے لوہے کے بنے ہوئے رنگین دروازے ہیں اور ان کی دیواریں پلستر شدہ ہیں۔ دوسری طرف ہندوؤں کے گھر زیادہ تر کچی اینٹوں سے بنے ہیں اور خاصے خستہ حال ہیں۔
سکھ دیو کا گھر بھی ٹوٹا پھوٹا ہے۔ اس میں دو کمرے ہیں جو بنے تو پکی اینٹوں سے ہیں لیکن ان کا فرش سطح زمین سے تین فٹ نیچے ہے۔ ان کے گھر میں ایک ہی غسل خانہ ہے جس کا ٹین کا دروازہ ہلکی سے ہوا چلنے پر بھی لرزنے لگتا ہے۔
ان کے بالکل پڑوس میں محمد اقبال نامی مسلمان کا پختہ گھر واقع ہے۔ اس کے لوہے کے بڑے سے مرکزی دروازے کے ساتھ ایک بڑی سی بیٹھک اور ایک دکان ہے جن کے سامنے ایک بڑا سا چبوترا ہے جس پر ٹین کی چھت ڈال کر چھاؤں کا انتظام کیا گیا ہے۔
محمد اقبال کا کہنا ہے کہ سکھ دیو 40 سال سے ان کے پڑوسی ہیں لیکن انہوں نے آج تک نہ تو ان کے گھر سے کوئی چیز لے کر کھائی ہے اور نہ ہی کبھی اپنے برتنوں میں انہیں کوئی چیز دی ہے۔ ان کے مطابق "اِن ہندوؤں کے ساتھ جو شخص بھی کھاتا پیتا ہے یا تو اسے ان کے مذہب کے بارے میں پتا نہیں ہوتا یا پھر اس نے اپنا ایمان بیچ دیا ہوتا ہے (کیونکہ) یہ لوگ کلمہ گو نہیں"۔
محمد اقبال کے دن کا زیادہ تر حصہ اپنی دکان پر روزمرہ گھریلو استعمال کی چیزیں فروخت کرنے میں صرف ہوتا ہے تاہم وہ 10 ایکڑ اراضی پر کاشت کاری بھی کرتے ہیں جس کے لیے انہوں نے شیڈولڈ کاسٹ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ ان ملازموں کو کھانا دینے کے لیے انہوں نے برتن مختص کیے ہوئے ہیں جنہیں ان کے گھر میں استعمال ہونے والے دوسرے برتنوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔
ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ملازمہ بھی ہندو ہے۔ اس کے ذمے جھاڑو پونچھا لگانا، غسل خانہ صاف کرنا اور مویشیوں کا گوبر اٹھانا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس ملازمہ کو ان کے "گھر میں کسی بھی ایسی جگہ جانے کی اجازت نہیں ہے جہاں کھانے پینے کا سامان یا برتن موجود ہوں"۔
'نام بھی بدلا لیکن مسائل نہیں بدلے'
رحیم یار خان شہر سے لگ بھگ 15 کلو میٹر جنوب میں پتن مناره نامی قصبے کے قریب واقع بستی ڈھانگرا سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ عالم جی بھیل اپنی برادری کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شامل ہیں۔ اگرچہ ان کے بقول انہوں نے کمپیوٹر انجینئرنگ میں ایم ایس سی کر رکھی ہے لیکن اس شعبے سے متعلق کوئی کام کرنے کے بجائے وہ ایک مقامی سکول میں پڑھاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک الیکٹریشن کی دکان پر کام کرتے ہیں۔
اپریل 2022 کے وسط میں ایک دن اِس دکان پر کام کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ چند ماہ پہلے وہ ایک مسلمان ٹیچر کے گھر ڈش اینٹنا لگانے گئے تو وہاں انہیں چائے کی پیش کش کی گئی جو انہوں نے اس توقع کے ساتھ قبول کر لی کہ ایک پڑھے لکھے شخص کے گھر میں ان سے وہ برتاؤ نہیں ہو گا جو عموماً ان پڑھ لوگ ان سے روا رکھتے ہیں۔ لیکن وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے برعکس انہیں "اسی پیالی میں چائے دی گئی جس میں ٹیچر کا ہندو ملازم چائے پیتا ہے"۔ ان کے بقول ان کے سامنے لائے جانے سے پہلے یہ "ٹوٹی پھوٹی اور گندی پیالی صحن میں ایک ایسی جگہ رکھی ہوئی تھی جہاں ایک بلی گھوم رہی تھی"۔
عالم جی کہتے ہیں کہ انہیں اس سلوک پر غصہ تو بہت آیا لیکن غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے اور سماجی طور پر کمزور ہونے کے باعث وہ اپنے میزبان کو صرف یہ کہہ سکے کہ "میں تو آپ کو ایک پڑھا لکھا انسان سمجھ کر توقع کر رہا تھا کہ آپ مجھ سے اچھا سلوک کریں گے لیکن آپ نے بھی میرے ساتھ گنواروں والا رویہ ہی اپنایا ہے"۔
یہ واقعہ سناتے ہوئے عالم جی کے چہرے کے تاثرات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ایک لمبی آہ بھر کر پاس ہی پڑے ہوئے واٹر کولر سے پانی پینے لگتے ہیں۔ لیکن ایک ہی گھونٹ بھرنے کے بعد وہ اونچی آواز میں کہتے ہیں کہ "اگر ہمارے گھر مٹی کے بنے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم مٹی کھاتے ہیں۔ یقیناً ہم ہر مہینے نئے برتن نہیں خرید سکتے لیکن ہم اپنے گھروں میں موجود برتنوں کو اچھی طرح دھو کر ہی استعمال کرتے ہیں"۔
یہ کہتے ہوئے ان کا چہرہ اور آنکھیں لال ہو جاتی ہیں اور وہ غصے اور بے بسی کی کیفیت میں شکایت کرتے ہیں کہ "رحیم یار خان میں رہنے والے ہندوؤں اور خاص طور پر بھیل ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو انسانیت کے آخری درجے سے بھی نیچے رکھا جاتا ہے۔ جس نے دنیا میں جہنم دیکھنی ہو وہ یہاں آکر اِن لوگوں کی زندگی دیکھ لے"۔
عالم جی کی اونچی آواز سن کر مقامی مسلمانوں سمیت کچھ لوگ ان کی دکان کے سامنے جمع ہو جاتے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی وہ اپنی آواز نیچی کرلیتے ہیں اور ان کا لہجہ بھی نرم پڑ جاتا ہے۔ لیکن اس مجمع سے اچانک ایک آواز ابھرتی ہے کہ "ہم نے نام، شکل اور کپڑے سب کچھ بدل کر دیکھ لیا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے رویے نہیں بدلے"۔
یہ آواز ساجد جی بھیل کی ہے۔ کلف لگی سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے وہ لگ بھگ 30 سال کے جوان آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے بقول ان کا خاندان بھیل برادری کے دوسرے مقامی خاندانوں کی نسبت معاشی طور پر خاصا مستحکم ہے کیونکہ ان کا ایک چھوٹا بھائی دبئی میں ملازمت کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے ان کا نام ساجن رکھا تھا لیکن جب وہ پانچویں جماعت میں پڑھ رہے تھے تو ان کے استاد نے اس خیال کے تحت ان کا نام بدل کر ساجد کر دیا کہ مسلمانوں جیسا نام رکھنے سے انہیں درپیش معاشرتی رویے شاید کچھ بہتر ہو جائیں۔ لیکن، ان کے مطابق، اس کے باوجود بھی انہیں اچھوت ہی سمجھا جاتا ہے۔
ساجد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پڑھائی میں کافی اچھے تھے اس لیے پڑھ لکھ کر ڈسپنسر بننا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب انہوں نے رحیم یار خان کے ایک سرکاری کالج میں پڑھائے جانے والے ڈسپنسر کورس میں داخلے کے لیے درخواست دی تو وہ نامنظور ہوگئی۔ انہیں شبہ ہے کہ ان کا داخلہ صرف اس لیے نہیں ہوپایا کہ ان کا تعلق شیڈولڈ کاسٹ سے ہے۔
کم ترین درجے کے شہری
تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ضلع رحیم یار خان میں ایک لاکھ 50 ہزار 93 ہندو آباد ہیں جبکہ اس کے ملحقہ ضلع بہاولپور میں 41 ہزار ہندو رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر صوبہ پنجاب کی کل ہندو آبادی (جو دو لاکھ 11 ہزار چھ سو 41 نفوس پر مشتمل ہے) کا 90 فیصد ان دونوں اضلاع میں رہتا ہے۔
رحیم یار خان اور بہاولپور میں رہنے والے ہندوؤں کی اکثریت کا تعلق بھیل اور مینگھواڑ برادریوں سے ہے جنہیں 30 دیگر ہندو برادریوں سمیت نومبر 1957 میں جاری کیے گئے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت 'شیڈولڈ کاسٹ' قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں برادریوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ان دونوں اضلاع کے مشرقی حصوں پر مشتمل صحرائے چولستان میں ریت کے ٹیلوں پر قائم چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتی ہے۔
سماجی کارکن پریتم داس امان گڑھ نامی ایک ایسی ہی بستی میں رہتے ہیں جو پتن منارہ سے چند کلومیٹر دور واقع ہے۔ ان کی عمر 50 سال ہے اور ان کا تعلق مینگھواڑ برادری سے ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اِس خطے کے حقیقی اور قدیمی باشندے بھیل اور مینگھواڑ ہی ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے مطابق، ان کے پاس اپنے گھر بھی نہیں ہیں۔
ذات پات کی بنا پر ہونے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی تنظیم دلت سولیڈیریٹی نیٹ ورک ان کی بات کی تائید کرتی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں رہنے والے 83.6 فیصد شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کے پاس اپنی کوئی زمین یا جائیداد نہیں۔ اس لیے وہ اکثر بہت قلیل اجرتوں پر جبری مشقت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیڈولڈ کاسٹ ہندو باقی آبادیوں سے الگ تھلگ ایسے پسماندہ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔
کچھ سال پہلے دلت سولیڈیریٹی نیٹ ورک کی طرف سے پاکستان میں رہنے والے شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں کو روزانہ پیش آنے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے رحیم یار خان، بہاولپور اور صوبہ سندھ کے دو اضلاع میں ایک سروے کرایا گیا۔ اس میں سات سو 50 گھرانوں سے رائے لی گئی تھی جن میں سے 77 فیصد کا کہنا تھا کہ مقامی حجام ان کے بال تک نہیں کاٹتے۔
اکثر رائے دہندگان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں بسوں میں خالی سیٹوں پر بھی نہیں بیٹھنے دیا جاتا اور ہوٹلوں اور ریستورانوں میں ان کے لیے مخصوص کیے گئے برتن دوسرے برتنوں سے علیحدہ رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے علاقے کے مسلمانوں یا اپنے مذہب کی اونچی ذات والے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کا سماجی میل ملاپ نہیں رکھ سکتے۔ حتیٰ کہ ہسپتالوں میں متعین عملہ بھی ان کا علاج نہیں کرنا چاہتا۔
اس سروے کے مطابق تعلیمی اداروں میں بھی شیڈولڈ کاسٹ ہندو طلبا کو اساتذہ اور ہم جماعتوں کی جانب سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے ان کی اس قدر حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ وہ سکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ، دلت سولیڈیریٹی نیٹ ورک کے مطابق، پاکستان میں رہنے والے 74 فیصد شیڈولڈ کاسٹ ہندو ان پڑھ ہیں۔
تاریخ اشاعت 13 جون 2022