لاہور کے جناح ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھی ایک لاش کی آنکھیں ایسے کھلی ہیں جیسے انہیں کسی کا انتظار ہو۔ یہ لاش پولیس کو شہر کے جنوبی علاقے چوہنگ سے 31 جنوری 2022 کو ملی تھی لیکن کئی ہفتے بعد بھی نہ تو اس کے ورثا کا پتہ چل سکا ہے اور نہ اس کی موت کی وجہ کا تعین کیا جا سکا ہے۔ اسی لیے وسطِ مارچ تک اسے دفنایا نہیں جا سکا۔
مردہ خانے کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اسے یہاں چھوڑ کر جانے والے پولیس والوں نے بھی پلٹ کر اس کی خبر نہیں لی۔
اسی طرح 5 فروری 2022 کو یہاں لائی جانے والی ایک اور لاش بھی ہفتوں سے تدفین کی منتظر ہے۔ لاہور کے جنوبی مضافات میں واقع رائے ونڈ تھانے کی حدود میں کسی حادثے کا شکار ہونے والے اس مُردے کو بھی پولیس والے یہاں چھوڑ گئے تھے۔ لیکن مردہ خانے کے عملے کے مطابق جس پولیس اہل کار کے ذمے اس کی شناخت اور تدفین کا انتظام تھا اسے رائے ونڈ تھانے سے کہیں اور تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ان لاشوں کا اتنے لمبے عرصے تک مردہ خانے میں پڑے رہنا اُن حکومتی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی ہے جن کی رُو سے پولیس اہل کار اس بات کے پابند ہیں کہ وہ تین دن کے اندر تمام انتظامی کارروائی مکمل کر کے ہر لاوارث لاش کی تدفین کو یقینی بنائیں۔ تاہم پولیس والے کہتے ہیں کہ ایسی لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ان کی شناخت میں پیش آنے والی رکاوٹیں ہیں۔
ان کے مطابق ایک لاوارث لاش کی شناخت کا عمل اسی تھانے سے شروع ہوتا ہے جہاں سے وہ ملتی ہے۔ وہاں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مرنے والا کسی جرم میں تو ملوث نہیں تھا۔ اگر اس کی شکل و صورت اور دوسرے کوائف تھانے میں موجود مجرموں کے ریکارڈ میں کسی شخص سے مل جائیں تو پھر اس کے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس ریکارڈ سے اس کی شناخت نہ ہو سکے تو اس کی انگلیوں کے نشانات ڈاک کے ذریعے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو بھیجے جاتے ہیں تاکہ انہیں وہاں موجود ریکارڈ سے ملا کر پتہ چلایا جا سکے کہ مرنے والا کا نام کیا تھا اور اس کے اہلِ خانہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی تصویر اخبار میں شائع کر کے اس کا حلیہ اور دیگر متعلقہ تفصیلات شہر کے تمام تھانوں کو بھی ارسال کر دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے ریکارڈ سے اس کی شناخت کا انتظام کر سکیں۔
ان تمام اقدامات کے باوجود بھی اگر 14 دن کے اندر اس کا کوئی وارث سامنے نہ آئے تو اس کا پوسٹ مارٹم کرا کے اسے ایک لاوارث لاش کے طور پر دفن کر دیا جاتا ہے۔
نادرا کے ترجمان فائق علی چاچڑ کہتے ہیں کہ اس عمل میں تاخیر کی ذمہ داری ان کے ادارے پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ، ان کے مطابق، "جیسے ہی ہمیں انگلیوں کے نشانات موصول ہوتے ہیں ہم ان پر کارروائی کا آغاز کر دیتے ہیں"۔ اگر پولیس کو ہنگامی طور پر کسی لاش کی شناخت کرنا ہو تو اس کے اہل کار انگلیوں کے نشانات ڈاک سے بجھوانے کے بجائے انہیں لے کر خود نادرا کے دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں "نادرا فوری طور پر شناخت کا عمل مکمل کر دیتا ہے"۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عام حالات میں شناخت کا عمل پورا ہونے میں کچھ دن ضرور لگ جاتے ہیں کیونکہ "ہمیں ان نشانات کا موازنہ ان کروڑوں نشانات سے کرنا ہوتا ہے جو ہم نے پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈ بنانے کے عمل میں جمع کر رکھے ہیں"۔
بس نام رہے گا الله کا
لاہور کے مرکزی میانی صاحب قبرستان میں ہزاروں قبروں کے بیچ میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں کتبوں پر ناموں کی بجائے ہندسے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ احاطہِ لاوارثاں ہے۔ اس میں شاذ ہی کسی انسان کا گزر ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں کووں، چڑیوں اور دیگر پرندوں کے ساتھ ساتھ کیڑوں مکوڑوں کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں۔ یہاں موجود اکثر قبریں جڑی بوٹیوں سے ڈھکی ہوئی ہیں کیونکہ ان کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں۔ کئی قبروں میں بڑے بڑے سوراخ بھی ہو گئے ہیں جن کے اردگرد نیولے اور دوسرے رینگنے والے جانور دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس احاطے میں کچھ قبریں ایسی بھی ہیں جن کے کتبوں کے پیچھے تو اب بھی ہندسے موجود ہیں لیکن ان کی سامنے کی سطح پر مرنے والے کا نام لکھا ہوا ہے۔ میانی صاحب کے سرکاری مہتتم بشیر احمد کے مطابق ان قبروں کے مکین دفن تو لاوارثوں کے طور پر ہوئے تھے لیکن بعد میں ان کے ورثا نے ان کی شناخت کر لی تھی۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ "ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لاوارث کے طور پر دفنائے گئے کسی شخص کے ورثا قبرستان کے ریکارڈ کی چھان بین کر کے اسے شناخت کر لیں"۔ لاہور کے مختلف تھانوں میں کام کرنے والے پولیس اہل کار بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجرموں کے ریکارڈ، نادرا کی مدد اور قبرستانوں کے رجسٹروں کی چھان بین سے کل ملا کر محض تیس فیصد سے پنتیس فیصد لاوارث لاشوں کی شناخت ہی ہو پاتی ہے۔
عوامی فلاح کی ملک گیر تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے لاہور میں متعین ترجمان یونس بھٹی کا کہنا ہے کہ ان لاشوں کی شناخت میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ان کا ریکارڈ کئی جگہوں پر بکھرا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے پاس ایسی تمام لاوارث لاشوں کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے جو اس نے 1985 سے لے کر 2017 تک خود دفن کی تھیں۔ لیکن، ان کے مطابق، اب یہ کام لاہور پولیس کے سپرد کر دیا گیا ہے جو متعلقہ تھانوں اور قبرستانوں میں تو لاوارث مُردوں کی تصاویر اور دوسری شناختی معلومات محفوظ رکھتی ہے لیکن انہیں شہر میں کسی ایک جگہ پر اکٹھا نہیں کرتی۔
کفن دفن کا نظام
بشیر احمد کا کہنا ہے کہ میانی صاحب میں ایک لاوارث لاش کی تدفین پر کم سے کم تین ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں جن میں بنیادی طور پر گورکن کی اجرت اور قبر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان کی مالیت شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لاش کو غسل دینے، کفن پہنانے اور اسے تھانے یا مردہ خانے سے قبرستان پہنچانے پر بھی اوسطاً سات ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک لاش کی تدفین پر تقریباً 10 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اس حساب سے لاہور میں 2021 میں لاوارث لاشوں کے کفن دفن پر مجموعی طور پر 26 لاکھ 70 ہزار روپے خرچ ہوئے ہوں گے کیونکہ اُس سال شہر کے مختلف حصوں سے دو سو 67 ایسی لاشیں ملی تھیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔ مقامی پولیس اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انہیں ان تمام اخراجات کا انتظام خود کرنا پڑتا ہے۔
اندرون لاہور کے ایک تھانے میں تعینات ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے مطابق "عام طور پر قبرستان کی انتظامیہ اور دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا محکمہ ہمیں لاوارث لاشوں کی تدفین کے لئے پیسے دیتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے"۔
یہ اخراجات پورے کرنے کے لیے پولیس والے اکثر مقامی تاجروں اور کاروباری لوگوں سے مدد لیتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں متعین ایک سینئر پولیس اہل کار کا کہنا ہے کہ "یہ کام مخیر حضرات کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے"۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ "اس کے عوض ہمیں بعض اوقات ان لوگوں کے جائز و ناجائز کام بھی کرنا پڑتے ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
ہزار زخم تھے کس کس جگہ رفو کرتے: مردہ خانوں کے مسیحی عملے کو لاشوں کا پوسٹمارٹم کرتے ہوئے ڈر کیوں نہیں لگتا۔
تاہم ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان یونس بھٹی کا کہنا ہے کہ 2017 تک لاہور پولیس کا لاوارث لاشوں کے کفن دفن میں کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ "ہم ان لاشوں کو مردہ خانوں سے قبرستان منتقل کرنے سے لے کر انہیں غسل دینے، کفن پہنانے اور دفن کرنے کے تمام مراحل خود انجام دیتے تھے"۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ 2017 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے لاہور کے جنوب میں شہر خاموشاں کے نام سے ایک نیا قبرستان بنایا جس میں غسل سے لے کر تدفین تک کی تمام سہولتیں حکومت خود فراہم کرتی تھی۔ چنانچہ، ان کے مطابق، پولیس نے لاوارث لاشوں کو وہیں دفن کرنا شروع کر دیا۔
یہ سلسلہ کچھ عرصہ تو صحیح چلتا رہا لیکن 2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں برسراقتدار آئی تو، یونس بھٹی کے بقول، "اس نے شہر خاموشاں کو رقم کی فراہمی بند کر دی جس سے لاوارث لاشوں کی تدفین کا پورا نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا"۔
تاریخ اشاعت 17 مئی 2022