پچاس سالہ ممتاز سومرو یونین کونسل کھوکھرا پار کے گاؤں جمعوں سوموں کے رہائشی ہیں جو عمر کوٹ سے 80 کلومیٹر شمال میں پاک بھارت سرحد کے قریب واقع ہے۔ وہ اپنے بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹس لینے کے لیے عمر کوٹ آئے تھے جو نادرا نے فارم 'ب' کے اجراء کے لیے ان سے طلب کیے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی یونین کونسل کا کھوکھراپار میں کوئی دفتر موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اس یوسی کا سیکریٹری و دیگر عملہ ضلعی ہیڈکوارٹر میں قائم دفتر میں ہوتا ہے۔
صرف ممتاز سومرو کو ہی اس تکلیف کا سامنا نہیں بلکہ تحصیل عمرکوٹ کے بیشتر لوگ اسی مشکل سے دوچار ہیں۔
"ہمارے علاقے کے کسی بھی آدمی کو جب یونین کونسل سے برتھ سرٹیفکیٹ یا کوئی اور کاغذ لینا ہو اسے 80 کلومیٹر دور عمر کوٹ آنا پڑتا ہے جس پر ایک پورا دن اور کم از کم ایک ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اگر کبھی افسر یا کلرک چھٹی پر ہو تو پھر چکر لگانے پڑتے ہیں جس پر اضافی خرچہ ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات تو دو یا تین بار بھی آنا پڑتا ہے۔"
عمر کوٹ (یا امر کوٹ) پہلے ضلع میر پور خاص کی تحصیل (تعلقہ) ہوا کرتی تھی لیکن 1993ء میں اسے ضلع بنا دیا گیا جس کی 2012 ء تک 27 یونین کونسلز تھیں۔ تاہم پھر ان کی تعداد بڑھا کر 42 کر دی گئی مگر دس سال قبل تشکیل پانے والی یوسیز کے دفاتر ابھی تک تعمیر نہیں جا سکے۔
گیارہ لاکھ 59 ہزار 831 افراد کی آبادی کا ضلع عمرکوٹ چار تحصیلوں پر مشتمل ہے جن میں سے تحصیل عمرکوٹ کے ساتھ صحرائے تھر کا علاقہ منسلک ہونے کے باعث یہ ضلعے کی سب سے بڑی تحصیل ہے۔ جبکہ اس کی 19 یونین کونسلز میں سے 14 میں دفاتر موجود نہیں ہیں۔
اس حوالے سے سیکریٹری یونین کونسل کھوکھراپار عبدالرزاق سموں بتاتے ہیں کہ اگرچہ نئی یو سیز کے ابھی تک اپنے دفاتر نہیں بنے تاہم عوام کے مسائل مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ دفاتر میونسپل کمیٹی عمرکوٹ کی ایک بلڈنگ میں اکٹھے قائم کیے گئے ہیں جو پوری تحصیل کے سیکرٹریٹ کے طور پر کام آ رہی ہے۔
اجمل میندھرانی یونین کونسل جانھیرو کے رہائشی اور یہاں مقیم اپنی مینگھواڑ برادری کے 'مکھیا' ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا گاؤں جانھیرو جو تحصیل عمرکوٹ میں کنری روڈ پر واقع ہے اس کی یونین کونسل کا مرکز 35 کلو میٹر دور راجاڑی گاؤں کو بنایا گیا ہے جبکہ وہاں بھی یو سی کا اپنا کوئی دفتر نہیں ہے۔
"برتھ سرٹیفکیٹ،رہائشی یا ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے ہماری یونین کونسل کے باسیوں کو 40 کلومیٹر سفر طے کر کے عمرکوٹ آنا پڑتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ہر یونین کونسل کو ہر ماہ پانچ لاکھ روپے گرانٹ دیتی ہے جبکہ ان کی یو سی میں کوئی سیکریٹری یا کلر ک تک تعینات نہیں گیا۔ وہ کوئی بھی کام لے کر جائیں تو ہر بار اس کا چارج کسی اور کے پاس ہوتا ہے جبکہ اس یوسی کا کوئی ریٹائرڈ ملازم بھی نہیں ہے جس کو پینشن دینا پڑتی ہو۔
انہوں نے شکوہ کیا " جب یو سی کا کوئی خرچ ہی نہیں ہے تو پھر ماہانہ گرانٹ کے یہ پانچ لاکھ روپے آخر کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ ہمیں اس کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں۔"
سابق کونسلر کھیت سنگھ ٹھاکر بھی اجمل میندھرانی سے اتفاق کرتے ہیں کہتے ہیں کہ انہیں ان یوسیز سے عوام کو کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس ضلعے میں 42 یونین کونسلیں ہونے کے باوجود دیہات اور قصبات میں صفائی کا کوئی انتظام ہے نہ ڈرینیج یا سیوریج کا کوئی خاطر خواہ سسٹم ہے جبکہ پینے کے صاف پانی کے حصول میں بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
سماجی کارکن دلبر حسین سومرو یونین کونسل نیوچھور کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نیو چھور شہر کی گلیاں کچرا کنڈی بنی ہوئی ہیں جہاں یوسی انتظامیہ کے پاس صفائی کے لیے ایک بھی ملازم نہیں ہے۔
"ہر دو تین ماہ کے بعد جب ہمارے شہر میں بدبو اور تعفن پھیلنے لگتا ہے تو میونسپل کمیٹی عمرکوٹ سے مدد مانگی جاتی ہے جہاں عملے کے کچھ لوگ آتے ہیں اور صفائی کر کے چلے جاتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کا آخری مرحلہ مکمل ہونے کے بعد گزشتہ سال جولائی میں پونین کونسلز کا چارج نئے چئرمینوں اور منتخب اراکین کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اب تک پانچ لاکھ روپے ماہانہ کے حساب سے یونین کونسل نیوچھور گرانٹ کی مد میں 45 لاکھ روپے وصول کر چکی ہے۔
"ان نو ماہ میں ہمارے جو ادارے عوام کو برتھ، ڈیتھ اور رہائشی سرٹیفکیٹس کی سہولت بھی ٹھیک سے نہیں دے پا رہے وہ کیا خاک ترقی لائیں گے۔"
عبدالجبار سومرو یونین کونسل کھوکھرا پار کے منتخب چیئرمین ہیں جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یونین کونسلز موجود گرانٹ (پانچ لاکھ روپے) میں لوگوں کو صرف برتھ،ڈیتھ اور رہائشی سرٹیفکیٹس کی سہولت ہی دے سکتی ہیں۔
"ہم زیادہ سے زیادہ کہیں کوئی سولر لائٹ لگوا سکتے ہیں یا کہیں کوئی چھوٹی موٹی سولنگ بنوا دیتے ہیں۔ کسی بیوہ عورت یا یتیم بچی کو سلائی مشین تک کی مدد کر دیتے ہیں تاہم اس رقم میں اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے۔ ہاں! اگر حکومت ماہانہ گرانٹ دگنا یعنی دس لاکھ روپے کر دے تو دیہات میں کچھ ترقیاتی کام بھی ہو جائیں گے۔ "
یہ بھی پڑھیں
عمر کوٹ میں جسمانی معذور بچے تعلیمی سہولیات میں میٹرک تک توسیع کے منتظر
محمد میاں گاہو، ضلع عمرکوٹ میں ایڈیشنل ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ یونین کونسلز شیخڑو، مہیندرے جو پار، کھوکھراپار، کچولی، حاجی میاں شاہ، کھاروڑو چارن، کونجیلی، میاں جان محمد، جانہیرو، صوفی فقیر اور کچھ دیگر یوسیز کے دفاتر نہ ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ تاہم اسے صرف صوبائی حکومت ہی حل کر سکتی ہے جس کے لیے وہ صوبائی حکام کو پہلے ہی مطلع کر چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ محکمے میں نئی بھرتیاں نہ ہونے سے سندھ بھر میں یو سی سیکریٹریز کی سیکڑوں اسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ عمرکوٹ تحصیل کی 19 یو سیز میں صرف آٹھ سیکرٹریز مقرر کیے گیے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں نئے سیکریٹری بھی تعینات ہو جائیں گے جس سے کام میں بہتری آئے گی۔
"جب ایک ایک سیکریٹری کے پاس تین سے چار یوسیز کا چارج ہے تو پھر کام بھی اسی رفتار اور معیار کے مطابق ہی ہوں گے۔"
ایڈیشنل ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ کی مجبوریاں اور وضاحتیں اپنی جگہ لیکن ممتاز سومرو کہتے ہیں کہ تحصیل عمرکوٹ میں ایسی 19 یونین کونسلیں بنانے کا کیا فائدہ جہاں ایک غریب آدمی کو رہائشی یا برتھ سرٹیفکیٹ لینے کے لیے بھی 80 کلومیٹر مسافت طے کرنی پڑے۔
تاریخ اشاعت 25 اپریل 2024