محمد عباس کی 70 ایکڑ پر کھڑی تربوز کی فصل فروری 2021 میں ایک زرعی دوا کے چھڑکاؤ سے مکمل طور پر ضائع ہوگئی۔ اس سے، ان کے بقول، "انہیں ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوا"۔
وہ پنجاب کے وسطی ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے رہنے والے ہیں۔ لیکن ضائع شدہ فصل انہوں نے ضلع سرگودھا کے قصبے رتھانہ میں 50 ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ ٹھیکے پر لی ہوئی زمین پر کاشت کر رکھی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال فروری کے دوسرے ہفتے میں انہوں نے تربوز کی پنیری کو کھیتوں میں منتقل کرنے بعد کھیتوں میں موجود گھاس پھونس اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے قریبی قصبے رادھن میں واقع زرعی ادویات کے ایک تاجر، نصر حیات، سے مشورہ کیا جس نے انہیں تجویز دی کہ وہ ایک پاکستانی کمپنی، ایگ فارما (AgPharma)، کی بنائی ہوئی دوا پری ایکٹ استعمال کریں۔
محمد عباس نے ایسا ہی کیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پری ایکٹ کے چھڑکاؤ سے ان کی تمام فصل جھلس گئی۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی استعمال کردہ دوا نہ صرف غیرمعیاری تھی بلکہ زائدالمیعاد بھی تھی۔
جب انہوں نے اپنی فصل کی تباہی کے بارے میں نصر حیات کو بتایا تو پہلے تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ اس کی وجہ پری ایکٹ ہو سکتی ہے۔ لیکن جب کئی دوسرے مقامی کاشت کار بھی اس دوا کے استعمال سے اسی طرح متاثر ہو کر احتجاج کرنے لگے تو اس نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ایگ فارما کو اس کے بارے میں آگاہ کرے گا۔
چند روز بعد کمپنی کے ایک سینئر اہل کار محمد شہباز اختر تباہ شدہ فصلوں کا دورہ کرنے پہنچ گئے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے کاشت کاروں کو یقین دہانی کرائی کہ بہت جلد کمپنی کی ایک ٹیم ان کے نقصان کا جائزہ لے گی جس کے بعد اس کا ازالہ کر دیا جائے گا۔
محمد عباس کہتے ہیں کہ انہوں نے محمد شہباز اختر سے یہ تمام باتیں لکھوا لیں تاکہ ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں یہ تحریر عدالت میں بطور ثبوت پیش کی جا سکے۔ لیکن، ان کے بقول، اس احتیاطی تدبیر کے باوجود ایگ فارما کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ کیا گیا۔
کمپنی کے انتظار سے تھک ہار کر انہوں نے حکومت سے مدد لینے کا سوچا۔ لہٰذا انہوں نے اپنی فصل کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں نہ صرف سرگودھا میں واقع محکمہ زراعت کے دفتر میں ایک شکایت جمع کرائی بلکہ وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل کو بھی اس کی اطلاع دے دی۔
کچھ دن بعد محکمہ زراعت کے ذیلی ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سلیم گل نے ان کی فصل کا دورہ کیا۔ انہوں نے بعدازاں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ کہ 9 مارچ 2021 کو جب انہوں نے محمد عباس کے کھیتوں کا معائنہ کیا تو ان میں جھلسی ہوئی پنیری کی جگہ تربوز کی نئی فصل کاشت کر لی گئی تھی جس کے باعث نہ تو ان کے لیے نقصان کی حد متعین کرنا ممکن تھا اور نہ ہی وہ دوا کے معیار یا اس کی میعادِ استعمال کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکتے تھے۔ البتہ انہوں نے اس بات کی ضرور نشان دہی کی کہ محمد عباس نے پری ایکٹ پنیری کو کھیتوں میں منتقل کرنے کے بعد استعمال کی حالانکہ انہیں ایسا پنیری کی منتقلی سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔
تاہم ان کی رپورٹ کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ انہوں نے پری ایکٹ کو تربوز کی فصل کے لیے بالکل غیر موزوں قرار دے دیا۔ ان کے مطابق یہ دوا صرف کپاس اور گوبھی کی فصل میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں اور گھاس کو ختم کرنے کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔
ان تمام عوامل کی بنیاد پر انہوں نے نتیجہ نکالا کہ محمد عباس کی فصل کی تباہی کا ذمہ دار وہ شخص ہے جس نے انہیں پری ایکٹ کے استعمال کا مشورہ دیا تھا۔
محکمہ زراعت کی ایک ٹیم نے بھی ان کے کھیتوں کا معائنہ کر کے یہی کہا کہ ان کے نقصان کا ذمہ دار نصر حیات ہے جو زرعی ادویات کی تجارت کرنے کے ساتھ ساتھ ایگ فارما میں سیلز آفیسر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔
شکایات سے مقدمات تک
محمد عباس نے مارچ 2021 کے آخر سے سرگودھا میں قائم صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی عدالت (کنزیومر کورٹ) میں ایگ فارما کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اس مقدمے میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں نہ صرف ناقص اور زائدالمیعاد دوا فروخت کی گئی بلکہ کمپنی اور اس کے مقامی نمائندے نے انہیں اس کے استعمال اور ممکنہ فوائدونقصانات کے بارے میں بھی غلط معلومات فراہم کیں۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ پچھلے ایک سال سے کمپنی کے وکلا مختلف حیلے بہانوں سے اس مقدمے کی کارروائی کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے بقول "یہ وکلا کبھی عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتے اور کبھی ضروری دستاویزات کی عدم موجودگی کا بہانہ بنا کر سماعت ملتوی کرا لیتے ہیں"۔
محمد عباس اب عدالتی کارروائی کے روز روز ملتوی ہونے سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، اگر یہ مقدمہ مزید طول کھینچتا ہے تو ان کے لیے اس پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ "فصل کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پہلے ہی میرے اوپر کافی قرض چڑھ گیا ہے۔ اب مقدمے کی وجہ سے اس قرض میں مزید اضافہ ہو رہا ہے"۔
دوسری طرف اس تمام تر خرچے کے باوجود انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں ہو گا۔
جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے رہنے والے غلام رسول نامی کاشت کار کے ساتھ ایسا ہی ہو چکا ہے۔ انہوں نے 26 جولائی 2017 کو بہاولنگر کی کنزیومر کورٹ میں درخواست دائر کی کہ جعفر ایگرو نامی کمپنی کی ناقص زرعی دوا استعمال کرنے وجہ سے ان کی ساڑھے چھ ایکڑ پر کھڑی گنے کی فصل خراب ہو گئی تھی۔ دو سال سے زیادہ عرصہ چلنے والے اس مقدمے کا فیصلہ 29 اگست 2019 کو سامنے آیا جس میں عدالت نے کہا کہ غلام رسول یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اُن کی استعمال کردہ دوا غیرمعیاری تھی۔
اسی طرح کے ایک اور مقدمے میں ضلع گوجرانوالہ کے حفیظ اللہ باجوہ نامی کاشت کار اگرچہ کنزیومر کورٹ میں جیت گئے لیکن اس کے نتیجے میں انہیں ملنے والی زرِتلافی ان کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کی مالیت سے کہیں کم تھی۔ انہوں نے آٹھ اپریل 2010 کو ایک غیرملکی کمپنی کے خلاف دعویٰ دائر کیا تھا کہ اس کی بنائی ہوئی زرعی دوا استعمال کرنے سے ان کی آٹھ ایکڑ گندم خراب ہو گئی تھی جس سے انہیں چار لاکھ دو ہزار پانچ سو روپے کا نقصان ہوا تھا۔
عدالت نے تین مارچ 2011 کو دیے گئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ انہیں فروخت کی گئی دوا واقعی زائدالمعیاد ہو چکی تھی۔ تاہم انہیں محض 90 ہزار پانچ سو 80 روپے ہرجانے کا حق دار قرار دیا گیا۔
ادویات کی جانچ کا معیار
ڈاکٹر شاہد حسین ملتان میں ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز کے دفتر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتیں غیرمعیاری ادویات سے متعلقہ مقدموں کا فیصلہ کرنے میں اس لیے بہت زیادہ وقت لگا دیتی ہیں کہ یہ ادویات بنانے والی کمپنیاں ان لیبارٹریوں کے نتائج کو ہی چیلنج کر دیتی ہیں جو اِن کا معائنہ کرتی ہیں-
ان کے موقف کی تائید 7 فروری 2018 کو لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بنچ کی طرف سے دیے گئے ایک فیصلے سے بھی ہوتی ہے جو زرعی ادویات فروخت کرنے والے ایک مقامی ادارے، اصغر ٹریڈرز، کے خلاف پولیس کی طرف سے دائر کیے گئے تین مقدموں سے متعلق تھا۔ اصغر ٹریڈرز کے مالکان پر الزام تھا کہ انہوں نے کاشت کاروں کو ناقص زرعی ادویات فروخت کی ہیں۔ تاہم انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ الزام ایسی لیبارٹریوں کی رپورٹوں پر مبنی ہے جو ان کی فروخت کردہ ادویات کے نمونوں کا معائنہ کرنے کی اہل ہی نہیں تھیں۔
عدالت نے ان کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ان مقدموں میں ایف آئی آر کا اندراج ایسی لیبارٹری رپورٹوں کی بنیاد پر کیا گیا جو انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار سٹینڈرڈائزیشن (آئی ایس او) سے تصدیق شدہ نہیں تھیں"۔ لہٰذا اس نے اصغر ٹریڈرز کے خلاف درج کیے گئے تمام مقدمے ختم کر دیے۔
اپنے تفصیلی فیصلے میں پنجاب حکومت کی قائم کردہ ایک ٹاسک فورس کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق "زیادہ تر سرکاری لیبارٹریوں کا معیار اچھا نہیں اور ان کے نتائج ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں"۔ اسی مسئلے کے تدارک کے لیے زرعی ادویات کی پیداوار اور خریدوفروخت کے لیے 1973 میں بنائے گئے قواعدوضوابط میں "یہ لازمی قرار دیا گیا تھا کہ زرعی ادویات کا معائنہ کرنے والی تمام لیبارٹریاں آئی ایس او سے تصدیق شدہ ہوں"۔
یہ بھی پڑھیں
ناقص دوائی سے خراب ہونے والی گندم کے کاشتکاروں کا واویلا: جل گیا جب کھیت مینہ برسا کس کام کا۔
عدالت نے اس شرط میں اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ نہ صرف لیبارٹریوں کا آئی ایس او سے تصدیق شدہ ہونا ضروری ہے بلکہ ان کی جاری کردہ ہر رپورٹ میں ان تمام ضوابط اور طریقہ ہائے کار کا اندراج ہونا ضروری ہے جو ان کی طرف سے کیے گئے ہر ٹیسٹ پر لاگو ہوتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا اس سلسلے میں آئی ایس او کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد گیا ہے یا نہیں۔
تاہم ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز کے چند ہفتے پہلے ریٹائر ہونے والے ڈائریکٹر جنرل محمد اسلم کہتے ہیں کہ یہ عدالتی حکم قابلِ عمل ہی نہیں ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ پنجاب میں کام کرنے والی تمام سرکاری لیبارٹریاں آئی ایس او سے تصدیق شدہ ہیں لیکن ان کے لیے ہر ٹیسٹ پر لاگو ہونے والے آئی ایس او کے ضوابط اور طریقہ ہائے کار پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں نو سو کے قریب کیمیائی اجزا کے استعمال سے لگ بھگ 14 ہزار زرعی ادویات بنائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک کی جانچ کے لیے آئی ایس او نے علیحدہ علیحدہ ضوابط اور طریقہ ہائے کار طے کیے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول "ان تمام ضوابط اور طریقہ ہائے کار پر عمل درآمد کے لیے بہت سا وقت اور ڈھیر سارے مالی اور انسانی وسائل چاہئیں جو سرِدست زراعت سے منسلک کسی پاکستانی ادارے کو دستیاب نہیں"۔
محمد اسلم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی بنا پر ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز نے ملتان بنچ کے مذکورہ بالا فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں تین اپیلیں دائر کیں جن میں سے دو تو منظور نہیں ہوسکیں لیکن تیسری کی ابھی تک سماعت نہیں ہوئی۔ انہیں قوی امید ہے کہ اسے نہ صرف جلد ہی سماعت کے لیے منظور کرلیا جائے گا بلکہ اس پر فیصلہ بھی اصغر ٹریڈرز کے حق میں نہیں آئے گا۔
تاریخ اشاعت 28 اپریل 2022