صابر عاشق الصبح تین بجے ہی جھاڑو لیے گلی، محلوں اور مارکیٹوں کی صفائی میں جُت جاتے ہیں تاکہ لوگوں کے جاگنے سے پہلے اپنا کام مکمل کر لیں۔ اگر بازار میں چہل پہل شروع ہو جائے تو جہاں انہیں کام میں مشکل پیش آتی ہے وہیں بعض افراد صفائی کرنے والے سے بھی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔
"ہماری ڈیوٹی صبح چھ بجے شروع ہوتی ہے لیکن اگر دن کو صفائی کریں تو گرد و غبار کی وجہ سے لوگوں کی جھڑکیں سننا پڑتی ہیں جس سے بچنے کے لیے ہم جلدی کام ختم کر لیتے ہیں۔ لیکن کمپنی ان اضافی اوقات کار کو ہمارے ڈیوٹی ٹائم میں شمار نہیں کرتی۔"
صابر کہتے ہیں کہ اگر وہ جلدی چھٹی کر لیں تو کمپنی والے مختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں کسی بونس یا اضافی اجرت کے بغیر آٹھ کی بجائے گیارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔"
وہ بتاتے ہیں کہ صوبائی حکومت کی 'صاف ستھرا پنجاب مہم' کے باعث ان پر کام کا دباؤ مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کبھی کبھی رات کو سونے کے لیے بھی تین چار گھنٹے ہی ملتے ہیں۔
تیس سالہ صابر عاشق گیارہ سال سے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کے ملازم ہیں لیکن آج تک یومیہ اجرت (ڈیلی ویجر) پر کام کر رہے ہیں۔
انہیں ہر وقت ملازمت چھن چلے جانے کا خوف لگا رہتا ہے اور وہ اس قدر مشکل حالات میں بھی کام کیے جا رہے ہیں۔
صابر کا خوف بلاجواز بھی نہیں ہے کیوں کہ ان 11 سالوں میں ان کے بقول دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ کمپنی نے ایک نوٹس کے ذریعے سے انہیں برخواست(ڈس انگیج) کر دیا۔
پہلی بار جب وہ پانچ ماہ تک نوکری سے محروم رہے تو انہیں اپنا گھر چلانے کے لیے موٹر سائیکل فروخت پڑی تھی جبکہ دوسری بار وہ 50 ہزار ر وپے کے مقروض ہوگئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ڈس انگیج نوٹس میں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ انہیں کتنے عرصے کے لیے نکالا جا رہا ہے اور ایسا لاہور ویسٹ مینجمنٹ میں کام کرنے والے تقریباً ہر ڈیلی ویجر ملازم کے ساتھ ہو چکا ہے۔ پھر ایک دن اسی طرح ان کی بحالی ہو جاتی ہے۔
"ان گیارہ برسوں میں شاید ہی کوئی دن گزرا ہو جب انہیں نوکری سے فارغ ہونے کے خوف نے نہ ستایا ہو۔ ایسا صرف اس لیے ہے کہ ہم کمپنی کے مستقل ملازم نہیں ہیں۔"
نوکری چھن جانے کے خوف نے صابر کی نفسیات کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ وہ سخت بیماری اور مجبوری کے عالم میں بھی چھٹی نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ دو ماہ پہلے ان کے بہنوئی کا انتقال ہوا تو اس دن بھی وہ ڈیوٹی پر موجود رہے۔
"خوف کی اس بلا کو ٹالنے کے لیے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ میں نے بھی ملازمت مستقل کرانے کے لیے عدالت میں پٹیشن دائر کی تھی لیکن ہمارے کیس کی ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی۔"
صابر عاشق لاہور کے بند روڈ پر واقع بکر منڈی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ماہانہ تقریباً 32 ہزار روپے اجرت میں سے سات ہزار روپے مکان کا کرایہ دیتے ہیں۔ اتنے ہی رقم ان کی موٹر سائیکل کا پٹرول کھا جاتا ہےکیوں کہ ان کی صفائی کی ڈیوٹی شہر میں کسی بھی جگہ لگ سکتی ہے۔ یہ خرچے نکال کر گھر چلانے کے لیے 18 ہزار روپے بچتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ ہے کہ صفائی کے لیے بیشتر اوقات انہیں جھاڑو یا دوسری چیزیں بھی اپنی جیب سے خریدنی پڑ جاتی ہیں کیوں کہ کمپنی انہیں اس کے پیسے بھی نہیں دیتی۔
صابر کام کے دوران حفاظتی اقدام کے طور پر کوئی خاص جوتے(لانگ بوٹ)، ماسک، دستانے نہیں پہنتے اور نہ ہی ان کے پاس سیفٹی کٹ موجود ہے۔ ان کے مطابق یہ چیزیں انہیں کبھی نہیں ملیں اب تو وردی (یونیفارم) بھی نہیں دی جاتی۔ بس صرف ایک جالی دار جیکٹ ملتی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ کمپنی کے ملازم ہیں۔
نامساعد حالات میں کام کرنے والے انہیں ملازمین کے سروں پر اب 'صاف ستھرا پنجاب مہم' کا ایک نیا بوجھ آ بھی گیا ہے جو مسلم لیگ نواز کی نئی حکومت نے شروع کی ہے۔
"ستھرا پنجاب" مہم کی مانیٹرنگ کے لیے ایک ایپ بھی بنائی گئی ہے جس کے فیچرز میں تصویر پر مبنی حاضری، چیک ان/چیک آؤٹ، ایکٹیویٹی ٹریکنگ، ویسٹ کلیکشن، مینوئل سویپنگ، ڈور ٹو ڈور کلیکشن، نالیوں کی صفائی، اوپن ہیپس کلیئرنس وغیرہ شامل ہیں۔
اس ایپ میں ریئل ٹائم مانیٹرنگ، جیو ٹیگڈ ڈیٹا، ٹائم اسٹیمپڈ پکچرز اور یوزر فرینڈلی ڈیش بورڈ کا استعمال سرگرمیوں کی مانیٹرنگ اور احکامات کا مؤثر نفاذ یقینی بناتا ہے۔
صوبائی حکومت نے اس مہم کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے ہیں تاہم عملہ صفائی کے مطابق اس میں ان کے لیے کوئی سہولت نہیں رکھی گئی۔
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ایک مسلم کارکن جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ان کے مطابق "ستھرا پنجاب" منصوبے کی وجہ سے کام تو بڑھ گیا ہے لیکن نیا سٹاف نہیں رکھا گیا اس لیے پہلے سے کام کرنے والے لوگوں کو 12،12 گھنٹے کام کرنا پڑ رہا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ رواں مون سون میں حالت یہ ہے کہ جب تک بارش رک نہیں جاتی اس وقت تک انہیں چھٹی نہیں ملتی۔
"لاہور میں عموماً سینیٹری ورکرز صبح، شام اور رات کی شفٹ میں کام کرتے ہیں لیکن اب یہ پتا نہیں چل رہا کہ کس کی شفٹ کب ختم ہو رہی ہے۔ کیوں کہ بارش زیادہ ہو تو دونوں شفٹوں والے گھنٹوں مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔"
شہر کی صفائی کے امور محکمہ لوکل گورنمنٹ کے تحت دو ادارے واٹر اینڈ سینیٹیش ایجنسی (واسا) اور لاہور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی سرانجام دیتے ہیں۔
واسا شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نظام کی دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ لاہور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی گلی محلوں، ہسپتالوں، صنعتوں، اور سڑکوں سے کوڑا اٹھانے کا کام کرتی ہے۔
سینٹر فار لا اینڈ جسٹس کی 2021ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ واسا میں دو ہزار 240 سینیٹری ورکرز ہیں جن میں سے ایک ہزار 609 کا تعلق مسیحی کمیونٹی سے ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں نو ہزار اہلکار ہیں جن میں سے اکا دکا کے سوا سبھی مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ورکرز(نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے) کا ماننا ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر کے لیے 50 ہزار صفائی والے بھی کم ہیں لیکن یہاں چند ہزار کارکنوں ہی سے کام چلایا جا رہا ہے۔ اس بار 14 اگست کو جب پورا ملک چھٹی منا رہا تھا تو سینٹری ورکرز کسی اضافی اجرت کے بغیر کام کر رہے تھے۔
"عید، شب برات سمیت ہماری ہر سرکاری چھٹی صفائی کرتے گزرتی ہے۔"
شہروں کو صاف ستھرا رکھنے والے ان ملازمین کو کم اجرت، طویل اوقات کار، بیماریوں اور نوکری چھن جانے کے خوف کے ساتھ لوگوں کے نامناسب رویے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
صابر عاشق کا کہنا تھا کہ صفائی عملے کے ارکان کی اکثریت 'مذہبی اقلیت' سے تعلق رکھتی ہے جن کو ڈیوٹی کے دوران مجبوراً مین ہولز پر یا گندی گلیوں میں بیٹھ کر کھانا کھانا پڑتا ہے۔
" کسی ہوٹل سے کچھ خریدیں تو وہ کھانا پلیٹ کی بجائے شاپر میں ڈال کر دیتے ہیں تاکہ ہم وہاں بیٹھ کر نہ کھائیں۔ ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا حالانکہ ہم انہی لوگوں کا گند صاف کر رہے ہوتے ہیں۔"
لاہور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی کے ترجمان عمر چوہدری کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی مذہب، ذات پات سے ہٹ کر لوگوں کو کام کے بلا تفریق مواقع فراہم کرتی ہے۔ تاہم ملک میں عام طور پر صفائی و سینیٹری کا کام زیادہ تر مسیحی کمیونٹی کے لوگ کرتے ہیں۔
انہوں نے ملازمین کی شکایات کو نامناسب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کمپنی ورکرز کو جھاڑو، لانگ بوٹس اور دیگر تمام ضروری اشیاء فراہم کرتی ہے۔ اگر کارکن اس حفاظتی سامان کو استعمال نہیں کرتے تو وہ ان کا ذاتی انتخاب ہے جبکہ کمپنی ان کو ضروری تربیت بھی دیتی ہے۔
لاہور میں واسا ملازمین کے حالات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔
واسا میں کام کرنے والے شفیق مسیح بتاتے ہیں کہ انہیں صبح نو بجے کام کی جگہ پر پہنچنا ہوتا ہے۔ وہاں ان کا سپروائزر تمام ورکرز کو اکٹھا کرتا ہے اور سیوریج سے متعلق شہریوں کی شکایات دور کرنے کا احکامات دیتا ہے۔
"آج بھی ہم چھ ساتھی جوہر ٹاؤن میں ایک گٹر(مین ہول) کی صفائی کرکے آئے ہیں جہاں 20 فٹ گہری سیور لائن میں اترنے کے لیے ہمارے پاس حفاظتی سامان جیسی کوئی سہولت نہیں تھی۔ میں خود رسیوں کی مدد سے نیچے اترا۔"
شفیق مسیح لاہور کے علاقے ملتان روڈ پر واقع ایک خستہ حال گھر میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں اور پچھلے 25 سالوں سے واسا میں بطور سیور مین کا کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ پہلے جوہر ٹاؤن ڈسپوزل کے شعبے میں کام کرتے تھے پھر انہیں سیوریج لائنوں کی صفائی کے شعبے میں بھیج دیا گیا جو بہت خطرناک کام ہے۔
"ہمیں ماسک، دستانے، لانگ بوٹ اور حفاظتی اقدامات کے بغیر مین ہولز اور سیور لائنوں میں اترنا پڑتا ہے جہاں بدبو میں سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے۔ گٹروں میں بعض اوقات سرنجیں، بلیڈز جیسی تیز دھار اشیا اور زہریلی گیسیں ہماری منتظر ہوتی ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
آٹو میٹک مشینوں کے اس جدید دور میں درجنوں سیورمین کیوں مارے جا رہے ہیں ؟
ان کا کہنا تھا کہ زہریلی گیسیں کئی ملازمین کی جان لے چکی ہیں۔ گٹر میں اترنے کا تو پتہ ہوتا ہے لیکن زندہ باہر آنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔
" ہمارے پاس نہ تو کوئی مناسب حفاظتی آلات ہیں اور نہ کبھی ادارے نے مکمل ٹریننگ کرائی ہے۔ اس لیے ہم اپنے تجربے یا دیسی جگاڑ کے ذریعے خطرے کی نوعیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔"
"ہم گٹر کا ڈھکن کھولنے کے بعد کچھ دیر انتظار کرتے ہیں تاکہ تمام زہریلی گیسیں نکل جائیں۔ ایک جگاڑ یہ بھی ہے کہ گٹر میں مٹی ڈالتے ہیں اگر بلبلے بننے لگیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ ابھی گیس موجود ہے نیچے نہیں اترنا۔"
واٹر ایڈ پاکستان نامی ایک اور غیر سرکاری تنظیم کے مطابق ملک بھر میں صفائی کرنے والے عملے کے 80 فیصد کارکن مسیحی ہیں حالانکہ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں مسیحی شہریوں کی تعداد کل آبادی کا صرف دو فیصد ہے۔
غیر سرکاری تنظیم سٹیزن کمیشن فار ایکویلٹی اینڈ ہیومن رائٹس کے مطابق کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً 100 سینٹری ورکر مین ہولز میں حادثات کے دوران جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
"رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں 24 لوگ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں لاہور کے چار ملازمیں بھی شامل ہیں جبکہ فیصل آباد میں گٹر کی زہریلی گیس سے آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی ضلعے میں بعدازاں جولائی کے دوران دو واقعات میں تین مزید ملازمین جاں بحق ہوئے۔
تاہم واسا لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر ابوذر سعید کا دعویٰ ہے کہ ادارہ کارکنوں کو آکسیجن ماسک، حفاطتی لباس، لانگ بوٹ اور دستانے جیسے تمام ضروری آلات فراہم کرتا ہے لیکن کارکن اپنی لاپروائی کی وجہ سے انہیں استعمال نہیں کرتے۔
"ورکرز اپنے کام میں اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ ان کو لگتا ہے وہ بغیر حفاظتی آلات کے بھی آسانی سے کام کر سکتے ہیں۔"
*اس سٹوری کی تیاری میں عروبہ سیف نے بھی مدد کی ہے۔
تاریخ اشاعت 4 ستمبر 2024