گنے کی شرحِ مٹھاس پر تنازعہ: مِل مالکان ہر سال کرشنگ کے آغاز میں تاخیر کیوں چاہتے ہیں؟

postImg

آصف ریاض

postImg

گنے کی شرحِ مٹھاس پر تنازعہ: مِل مالکان ہر سال کرشنگ کے آغاز میں تاخیر کیوں چاہتے ہیں؟

آصف ریاض

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے رواں ماہ مختلف اخبارات میں متعدد اشتہار شائع کیے ہیں جن میں بہت سی اور باتوں کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ پچھلے سال حکومت نے چینی بنانے والی مِلوں کو "وقت سے پہلے" گنے سے رس نکالنے کا عمل (کرشنگ) شروع کرنے پر مجبور کیا تھا جس کے نتیجے میں ملک میں "چینی کی پیداوار میں تین لاکھ ٹن کی کمی ہوئی" اور حکومت کو 200 ملین ڈالر خرچ کر کے دوسرے ملکوں سے چینی منگوانا پڑی۔ ان اشتہارات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن قوتوں نے پچھلے سال یہ فیصلہ کرایا وہی اس سال "دوبارہ میدان میں آکر اسی غلطی کو دوہرانا چاہتی ہیں"۔

دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے اسی مہینے کی پانچ تاریخ کو اٹک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چینی کی قیمت میں ہونے والے حالیہ اضافے کی وجہ صوبہ سندھ میں کرشنگ کے آغاز میں تاخیر تھی۔ ان کے مطابق سندھ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ صوبے میں موجود چینی کی ملوں میں اکتوبر کے مہینے میں کرشنگ شروع کرا دیتی لیکن اس کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں کو چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے اور اس کی قیمت بڑھانے کا موقع مل گیا۔ 

وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر اور وفاقی وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بھی حالیہ دنوں میں ایک سے زیادہ بار صحافیوں کو بتایا ہے کہ سندھ میں گنے کی کرشنگ 15 اکتوبر کو شروع نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں نئی چینی وقت پر نہیں آئی اور نتیجتاً اس کی قلت پیدا ہو گئی۔ 

ان الزامات سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ کرشنگ کا آغاز ہر سال متنازعہ رہتا ہے اگرچہ عام طور پر یہ تنازعہ وفاق اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ چینی بنانے والی ملوں کے مالکان اور گنے کے کاشت کاروں کے درمیان ہوتا ہے۔ مالکان ہمیشہ چاہتے ہیں کہ اس کا آغاز وسطِ نومبر کے بعد ہو جبکہ کسان سمجھتے ہیں کہ اسے اکتوبر کے نصف آخر میں شروع کر دینا چاہیے۔

مثال کے طور پر پچھلے سال سندھ اور پنجاب دونوں میں کرشنگ نومبر کے پہلے دس دن میں شروع ہوئی حالانکہ کسانوں کی نظر میں اس کا آغاز دو ہفتے پہلے کیا جانا چاہیے تھا جبکہ مِل مالکان ابھی تک ناخوش ہیں کہ اس میں مزید دیر کیوں نہیں کی گئی تھی۔ (ان کی یہ ناخوشی ان کے اشتہاروں سے عیاں ہے۔) 

مل والوں کو کتنا میٹھا گنا چاہیے؟

چینی کی ملوں پر لاگو شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں کرشنگ کا مجموعی دورانیہ یکم اکتوبر سے 30 جون تک رکھا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت ہر سال کرشنگ کے آغاز کی تاریخ کا اعلان کرے گی جو 30 نومبر کے بعد نہیں ہو سکتی اور جس کی پابندی کرنا تمام ملوں پر لازم ہے۔ 

اس قانون کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کسان فاؤنڈیشن نامی غیر سرکاری تنظیم کے رکن محمود الحق بخاری کا کہنا ہے کہ کرشنگ اس وقت شروع ہونی چاہیے جب ایک سو کلو گرام گنے سے 8.5 کلوگرام چینی بنائی جا سکے۔ تکنیکی اور قانونی زبان میں اس تناسب کو شرحِ مٹھاس کہتے ہیں۔ ان کے بقول 19 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ میں گنے کے کاشت کاروں کی طرف سے دائر کیے گئے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے بھی کہا کہ ملوں کو اس وقت کرشنگ شروع کر دینی چاہیے جب یہ شرح 8.7 فیصد تک پہنچ جائے۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں کاشت ہونے والے گنے کا 25 فیصد 'مڈھلی' فصل پر مشتمل ہوتا ہے (یعنی وہ پچھلی فصل کی باقیات سے خود بخود پھوٹتا ہے اور اس کے لیے نیا بیج نہیں لگایا جاتا)۔ اس کے علاوہ، ان کے مطابق، لگ بھگ 35 فیصد گنا 'اگیتی' فصل ہوتا ہے یعنی اسے مارچ اور اپریل میں کاشت کرنے کے بجائے جنوری اور فروری کے مہینوں میں لگایا جاتا ہے۔ یوں وہ کہتے ہیں کہ ہر سال گنے کے زیرِ کاشت مجموعی رقبے کے 60 فیصد حصے پر 'مڈھلی' اور اگیتی فصلیں موجود ہوتی ہیں۔ 
چونکہ یہ دونوں فصلیں یکم اکتوبر تک پک کر تیار ہو جاتی ہیں اس لیے ان کا کہنا ہے کہ اس مہینے کے "وسط میں ان کی کرشنگ کا با آسانی آغاز ہو سکتا ہے"۔

اِس سال 14 اکتوبر کو حکومت پنجاب کی جانب سے شرحِ مٹھاس جانچنے کے لیے کرائی گئی ایک لیبارٹری رپورٹ سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ شوگر کین ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد کی تیار کردہ اس رپورٹ کے لیے جنوبی پنجاب کے تین اور وسطی پنجاب کے دو ڈویژنوں سے گنے کے نمونے لیے گئے۔ ان میں سے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں اگیتی فصل کی شرحِ مٹھاس 10.48 فیصد جب کہ جنوری-فروری میں کاشت کیے گئے گنے کی شرحِ مٹھاس 9.26 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح بہاولپور ڈویژن میں اگیتی فصل میں یہ مقدار 9.77 فیصد اور جنوری-فروری کی فصل میں 9.33 فیصد پائی گئی۔ ملتان ڈویژن میں بھی اگیتی فصل میں یہ شرح 8.64 فیصد تھی (اگرچہ یہاں سال کے شروع میں لگائی گئی فصل میں مٹھاس کی شرح قدرے کم یعنی 7.47 فیصد ریکارڈ کی گئی)۔ 

وسطی پنجاب میں کاشت کیے گئے گنے میں مٹھاس کی شرح جنوبی پنجاب کے مقابلے میں عموماً کم ہوتی ہے لیکن اس رپورٹ کے مطابق اوکاڑہ ڈویژن میں اگیتی فصل میں یہ شرح 9.75 فیصد اور فصل آباد ڈویژن کی اگیتی فصل میں 8.79  فیصد تھی۔ 

ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ ان تمام ڈویژنوں میں گنے کی فصل کا ایک بڑا حصہ اکتوبر کے وسط میں کرشنگ کے لیے تیار تھا۔

لیکن مِل مالکان اس طرح کی رپورٹوں کو تسلیم نہیں کرتے اور اصرار کرتے ہیں کہ 15 نومبر سے پہلے گنے میں اتنی مٹھاس نہیں ہوتی کہ اس سے چینی کی منافع بخش پیداوار ہو سکے۔ جیسا کہ اس ماہ کے شروع میں ان کی طرف سے دیے گئے اشتہارات سے ظاہر ہے، وہ اس تاریخ سے پہلے کرشنگ کے آغاز کو ملک میں چینی کی پیداوار میں کمی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ 

کسانوں کا دعویٰ ہے کہ مِل مالکان کا شرحِ مٹھاس کے بارے میں رپورٹوں کو تسلیم نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی پیدا کردہ چینی کی اصلی مقدار کو چھپانا چاہتے ہیں۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے2020  میں بنائی جانے والی چینی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے ان کے اس الزام کی تائید ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مل مالکان سرکاری افسران کے ساتھ مل کر اپنے خریدے گئے گنے کی شرحِ مٹھاس اصل سے کم دکھاتے ہیں تاکہ وہ اپنے ریکارڈ میں صرف اسی کے مطابق پیدا کی گئی چینی دکھا سکیں۔ یوں وہ اپنی بنائی ہوئی چینی کی ایک بڑی مقدار کو خفیہ رکھ کر چوری چھپے بیچ دیتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق اس طرح فروخت کی گئی چینی پر وہ نہ صرف سیلز ٹیکس بچاتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے طلب و رسد اور قیمتوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اصل شرحِ مٹھاس مل مالکان کی طرف سے ظاہر کی گئی شرح سے صرف ایک فیصد زیادہ ہو تو اس کے نتیجے میں چینی کی پیداوار پر آنے والے اصل اخراجات ان کی طرف سے دکھائے گئے اخراجات سے دس فیصد کم ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منافعے میں بھی اسی شرح سے اضافہ ہو جاتا ہے۔ 

لیکن وہ اس اضافی منافعے پر نہ تو کوئی انکم ٹیکس دیتے ہیں اور ہی اس میں کسانوں کو شریک کرتے ہیں حالانکہ شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر شرحِ مٹھاس 8.5 فیصد سے زیادہ ہو تو مِلیں اس کے حساب سے گنے کی اضافی قیمت ادا کریں گی۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ کسی مل نے کبھی یہ اضافی قیمت ادا نہیں کی۔

یہ ادا نا کردہ اضافی قیمت پچھلی دو دہائیوں میں کئی ارب تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی مالیت کا ایک تخمینہ پچھلے سال اس وقت سامنے آیا جب سندھ کے کین کمشنر نے سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے 19 دسمبر 2019 کو جاری کیے گئے ایک حکم کے تحت اس کا حساب کتاب لگایا۔ انگریزی اخبار ڈان میں 7 جنوری 2020 کو شائع ہونے والی ایک خبر میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ 1998 اور 2019 کے درمیان سندھ میں کام کرنے والی چینی کی ملوں کی طرف سے صوبے کے کاشت کاروں کو گنے کی بہتر شرحِ مٹھاس کے عوض 44 ارب روپے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ 

کین کمشنر پنجاب کے دفتر نے بھی پچھلے سال اسی قسم کی جانچ پڑتال کے بعد کہا کہ صرف 18-2017 میں صوبے میں چلنے والی چینی کی ملوں نے بہتر شرحِ مٹھاس کے عوض کاشت کاروں کو چھ ارب 27 کروڑ روپے ادا نہیں کیے۔  

کسانوں کا مقدمہ

لیکن جہاں مل مالکان گنے کی کرشنگ میں اس لیے تاخیر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ شرحِ مٹھاس حاصل کر سکیں وہاں کسانوں کا مفاد یہ ہے کہ اس کا آغاز جلد از جلد ہو کیونکہ، ان کے مطابق، اس کے آغاز میں تاخیر سے انہیں دو طرح کے نقصانات ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہیں گنے کی فصل کو اضافی پانی لگانا پڑتا ہے جس سے ان کے پیداواری اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ زمین دیر سے خالی ہونے کی وجہ سے وہ اگلی فصل بروقت کاشت نہیں کر پاتے۔  

انجمن کاشت کاران پنجاب کے صدر چوہدری محمد یاسین ان نقصانات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گنے کی مڈھلی فصل ستمبر میں پک کر تیار ہوجاتی ہے لیکن ملوں کے دیر سے چلنے کی وجہ سے یہ فصل سوکھنے لگتی ہے اور اس پر مختلف بیماریوں کے حملے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ان مسائل سے بچانے کے لیے کسان اسے نہ صرف اضافی پانی دیتے ہیں بلکہ اس پر کرم کش ادویات بھی چھڑکتے ہیں جس سے ان کے پیداواری اخراجات میں "10 فیصد سے 15 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سگریٹ سازی کی صنعت: تمباکو کی خریداری میں رائج کوٹہ سسٹم کیسے کاشت کاروں کا استحصال کر رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "اگر گنے کی کرشنگ اکتوبر میں شروع ہوجائے تو کھیت جلدی خالی ہونے کی وجہ سے لاکھوں کاشت کار ان میں بروقت گندم کاشت کر سکیں گے" کیونکہ محکمہ زراعت کے مطابق اس کی بوائی کے لیے مناسب ترین وقت یکم نومبر سے 15 نومبر کے درمیان ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد کاشت کی گئی گندم کی نہ صرف فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے کھاد بھی نسبتاً زیادہ درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ 

چوہدری محمد یاسین کے مطابق گندم کی بروقت بوائی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک میں گندم کی فصل اچھی ہو گی اور اسے گندم اور آٹے کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ 18-2017 اور 19-2018 کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دونوں سالوں میں چینی کی ملوں نے کرشنگ کا آغاز 15 نومبر کے بعد کیا جس سے 2019 میں آنے والے آٹے کے بحران کی بنیاد پڑی۔ 

گندم کے زیرِ کاشت رقبے کے بارے میں اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار بھی ظاہر کرتے ہیں کہ 2018 اور 2019 میں اس کاشت پچھلے سالوں کی نسبت کم رقبے پر کی گئی۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق 2017 میں پاکستان میں کل دو کروڑ 22 لاکھ ایکڑ زمین پر گندم کاشت کی گئی لیکن اگلے سال اسے دو کروڑ 17 لاکھ ایکڑ پر لگایا گیا جبکہ 2019 میں اس کے زیرِ کاشت رقبے میں تین لاکھ ایکڑ کی مزید کمی آگئی۔

تاریخ اشاعت 30 نومبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.