ناقص دوائی سے خراب ہونے والی گندم کے کاشتکاروں کا واویلا: جل گیا جب کھیت مینہ برسا کس کام کا۔

postImg

آصف ریاض

postImg

ناقص دوائی سے خراب ہونے والی گندم کے کاشتکاروں کا واویلا: جل گیا جب کھیت مینہ برسا کس کام کا۔

آصف ریاض

محمد اعجاز نے دسمبر 2021 کے آخری ہفتے میں چھ ایکڑ اراضی پر کھڑی اپنی گندم کی فصل پر ٹوپک (Topak) نامی زہریلی دوائی چھڑکی۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی یہ چھڑکاؤ مکمل ہوا اُن کی فصل مرجھانے لگی۔ اگلے دو دن میں ان کی چار ایکڑ پر لگی گندم مکمل طور پر جھلس گئی جبکہ باقی دو ایکڑ پر لگی گندم کا بھی 95 فیصد حصہ خراب ہو گیا۔ 

ان کا تعلق پنجاب کے شمالی ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان کے گاؤں دولت پور سے ہے۔ وہ خود صرف دو ایکڑ زمین کے مالک ہیں لیکن انہوں نے مزید چار ایکڑ اراضی 25 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے ٹھیکے پر لے رکھی ہے۔ ناقص دوائی کے استعمال سے انہیں کم از کم ساڑھے چار لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ 

ان کے مطابق انہوں نے ٹوپک کی چھ بوتلیں دسمبر کی 27 تاریخ کو قریبی قصبے پنن وال میں واقع عمیر زرعی ٹریڈرز نامی دکان سے خریدیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس کے استعمال سے ہونے والے نقصان کے بارے میں دکان دار کو بتایا تو اس نے ان کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیا۔ 

دولت پور کے قریبی گاؤں چک دانیال کے کاشت کار محمد امین کو بھی یہی شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں جب انہوں نے عمیر زرعی ٹریڈرز کے مالک محمد شبیر کو بتانے کی کوشش کی کہ اس سے خریدی گئی ٹوپک چھڑکنے سے آٹھ ایکڑ پر لگی ان کی گندم خراب ہو گئی ہے تو اس نے ان کی "بات ہی سننے سے انکار کر دیا"۔ 

راجہ احمد ندیم کی فصل بھی ٹوپک کے استعمال سے متاثر ہوئی ہے۔ وہ دولت پور اور چک دانیال سے لگ بھگ سات کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں چٹی کے رہنے والے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں گندم کو پہنچنے والا نقصان اتنا شدید نہیں تھا جتنا کچھ اور قریبی مقامات پر دیکھنے میں آیا۔ تاہم وہ اس سے متاثر ہونے والے کسانوں کی شکایات حکومتی اہلکاروں تک پہنچانے میں پیش پیش رہے ہیں۔

ناقص دوائی کے استعمال سے کسانوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ ناقص دوائی کے استعمال سے کسانوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں حکومتِ پنجاب کے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنڑول آف پیسٹی سائیڈز نامی ادارے کے جہلم میں متعین اسسٹنٹ ڈائریکٹر خضر حیات اور ان کے عملے نے 19 جنوری 2022 کو شام ساڑھے تین بجے عمیر زرعی ٹریڈرز کی دکان پر چھاپہ مارا اور وہاں موجود ٹوپک کی بوتلوں سے تین نمونے حاصل کیے۔ یہ نمونے بعدازاں تین مختلف سرکاری لیبارٹریوں میں تجزیے کے لیے بھیجے گئے۔ ان میں سے فیصل آباد میں قائم لیبارٹری کی تجزیاتی رپورٹ 28 جنوری 2022 کو موصول ہوئی جس میں دوائی کو غیر معیاری قرار دیا گیا تھا۔ 

اس رپورٹ کی بنیاد پر خضر حیات نے یکم فروری 2022 کو عمیر زرعی ٹریڈرز اور ٹوپک بنانے والی کمپنی، سائبان انٹرنیشنل، کے مالکان کے خلاف ایک مقامی تھانے میں ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی۔ پنجاب میں زرعی ادویات کی پیداوار اور تجارت پر لاگو قانون کے تحت غیرمعیاری زرعی ادویات کی فروخت ایک قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے اور اس کی سزا چھ ماہ سے لے کر دو سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ لیکن راجہ احمد ندیم کا کہنا ہے کہ ملزمان نے 12 فروری 2022 کو ایک عدالت سے عبوری ضمانت کرالی جس کے باعث ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ 

لیکن دوسری طرف ایف آئی آر کے اندراج کے بعد عمیر زرعی ٹریڈرز  کے مالک محمد شبیر نے کاشت کاروں کو پیش کش کی کہ وہ ان کی ملاقات سائبان انٹرنیشنل کے اعلیٰ حکام سے کرا دیتے ہیں تاکہ یہ معاملہ عدالت سے باہر ہی طے کر لیا جائے۔ راجہ احمد ندیم کہتے ہیں کہ یہ ملاقات 8 فروری 2022 کو لاہور کے قریب واقع قصبے پھول نگر میں ہوئی۔ 

سائبان انٹرنیشنل کی طرف سے اس ملاقات میں شمشیر حسین شامل ہوئے جو اس کمپنی کے 44 فیصد حصص کے مالک ہیں اور اس میں سیلز اور مارکیٹنگ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کاشت کاروں کو بتایا کہ وہ انہیں 25 ہزار روپے فی ایکڑ ہرجانہ دینے کو تیار ہیں۔ 

راجہ احمد ندیم کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ بات دوسرے کاشت کاروں کو بتائی تو ان میں سے کئی ایک یہ رقم قبول کرنے پر تیار ہوگئے حالانکہ، ان کے مطابق، ان میں سے ہر ایک نے فصل کی کاشت پر کم از کم 50 ہزار روپے فی ایکڑ خرچہ کیا تھا۔ دراصل جن لوگوں نے زمین ٹھیکے پر لے کر گندم کاشت تھی ان کے فی ایکڑ اخراجات کم از کم 75 ہزار روپے تھے۔ 

ان کے بقول کمپنی کی پیش کش میں دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے کاشت کاروں کو صرف 20 لاکھ روپے ادا کرنے کی حامی بھری جو محض 80 ایکڑ پر لگی گندم کا معاوضہ بنتا ہے جبکہ دولت پور، چک دانیال اور چٹی کے زمیندار کہتے ہیں کہ خراب شدہ فصل اس سے کہیں زیادہ اراضی پر لگی ہوئی تھی۔ محمد امین نامی کاشت کار ایک ایسی فہرست دکھاتے ہیں جس میں ایک سو سے زائد کاشت کاروں کے نام موجود ہیں جنہوں نے مجموعی طور پر ایک سو 80 ایکڑ رقبے پر عمیر زرعی ٹریڈرز سے خریدی گئی ٹوپک استعمال کی تھی "جس سے ان کی فصل یا تو مکمل جل گئی تھی یا پھر اسے 70 فیصد نقصان ہوا تھا"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فہرست نامکمل ہے کیوں کہ بہت سے متاثرہ کاشت کاروں نے ابھی تک اپنے نام اس میں درج نہیں کرائے۔

 ٹوپک کے استعمال سے گندم کی فصل مکمل طور پر جھلس گئی۔ ٹوپک کے استعمال سے گندم کی فصل مکمل طور پر جھلس گئی۔

ان کے پاس کاغذ کا ایک اور ٹکڑا بھی ہے جس پر، ان کے مطابق، عمیر زرعی ٹریڈرز کے مالک نے خود فصل کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ اس پر لکھا ہے کہ سائبان انٹرنیشنل نے اسے ٹوپک کی پانچ سو بوتلیں بھیجی تھیں جن میں سے اس نے دو سو 68 مختلف کاشت کاروں کو فروخت کیں۔ چونکہ دوائی کی ایک بوتل ایک ایکڑ میں استعمال کی جاتی ہے  اس لیے اس حساب سے مجموعی طور پر دو سو 68 ایکڑ رقبے پر کھڑی فصل اس کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ 

لیکن اسسٹنٹ ڈائریکٹر خضر حیات کہتے ہیں اس دوائی سے صرف 60 ایکڑ رقبے پر لگی گندم مکمل طور پر تباہ ہوئی جبکہ 60 ایکڑ مزید گندم کو 50 فیصد یا اس سے کچھ زیادہ نقصان پہنچا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پچھلے سال دسمبر میں عمیر زرعی ٹریڈرز کو سائبان انٹرنیشنل کی طرف سے ٹوپک کی بوتلیں تین مختلف دنوں کو موصول ہوئیں۔ ان کے مطابق "پہلی سپلائی میں 80 بوتلیں پہنچائی گئی تھیں جن کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تاہم 60 بوتلوں پر مشتمل دوسری سپلائی نے فصل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جبکہ 60 بوتلوں پر ہی مشتمل تیسری سپلائی نے لگ بھگ 50 فیصد فصل کو متاثر کیا"۔

مقامی کاشت کار اس سرکاری گنتی کو ٹھیک نہیں سمجھتے اور چاہتے ہیں کہ حکومت عمیر زرعی ٹریڈرز سے لیے گئے ٹوپک کے نمونوں کی بنیاد پر ان کے نقصان کا تعین کرنے کے بجائے ان کے جلے ہوئے کھیتوں کا تجزیہ کرے۔ انہیں یقین ہے کہ اس تجزیے کے نتیجے میں ان کے نقصان کی اصل مالیت سامنے آ جائے گی جو ان کی نظر میں کمپنی کی طرف سے دیے گئے پیسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔       

کمپنی امیر تر، کاشتکار غریب تر

راجہ احمد ندیم کہتے ہیں کہ سائبان انٹرنیشنل کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے پہلے مقامی کاشت کار دادرسی کے لیے اپنے علاقے سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن اور وفاقی وزیرِاطلاعات فواد چوہدری کے پاس گئے۔ انہوں نے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں کے مقامی نمائندوں کی منتیں بھی کیں لیکن کسی نے ان کی کوئی بات نہ سنی۔ اسی طرح انہوں نے وزیرِاعظم کے سیٹزن پورٹل پر بھی شکایت درج کرائی لیکن "وہاں سے کچھ دن بعد جواب ملا کہ آپ کا مسئلہ حل ہو چکا ہے حالانکہ ہم سے کسی سرکاری اہلکار نے رابطہ تک نہیں کیا تھا"۔ 

متاثرہ کاشت کار الزام لگاتے ہیں کہ ان کی شکایات پر کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سائبان انٹرنیشنل کے مالک اعظم چیمہ وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی جمشید اقبال چیمہ کے قریبی رشتہ دار ہیں جو اوریگا گروپ آف کمپنیز کے مالکان میں سے ہیں اور جن کا بنیادی کاروبار زرعی ادویات کی درآمد اور فروخت ہی ہے۔

 کسانوں کو کمپنیوں کی جانب سے نقصان کا جائز ازالہ نہیں کیا جا رہا۔ کسانوں کو کمپنیوں کی جانب سے نقصان کا جائز ازالہ نہیں کیا جا رہا۔

پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی لمٹیڈ (PACRA) کی دسمبر 2020 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2005 میں رجسٹرڈ ہونے والی سائبان انٹرنیشنل کمپنی بھی ابتدا میں اوریگا گروپ کا ہی ایک ذیلی ادارہ تھی۔ لیکن اس نے 2015 میں اس گروپ سے الگ ہو کر اپنے طور پر کاروبار کرنا شروع کیا۔ 

اس رپورٹ کے مطابق سائبان انٹرنیشنل کی 71 فیصد آمدن کیڑے مارنے والی ادویات کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے اگرچہ یہ کمپنی کھادوں اور بیجوں کی تجارت سے بھی منسلک ہے۔ اس نے 2020 میں کل دو ارب 12 کروڑ 70 لاکھ روپے کا مال فروخت کیا جو اس سے پچھلے سال، یعنی 2019، کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ تھا۔ اسی عرصے میں اس کی بنی ہوئی کیڑے مار دواؤں کی فروخت میں بھی 36 فیصد اضافہ ہوا۔

اسی رپورٹ کا کہنا ہے کہ سائبان انٹرنیشنل گروپ نے 2020 میں مجوعی طور پر اپنی مصنوعات پر 29 فیصد منافع کمایا جو 60 کروڑ روپے سے زیادہ بنتا ہے۔

دوسری طرف محمد اعجاز، محمد امین اور راجہ احمد ندیم جیسے کاشت کاروں کا حال یہ ہے کہ ٹوپک کے استعمال سے ان کی سال بھر کی واحد فصل ختم ہوگئی ہے اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اگلی فصل کی کاشت کے لیے درکار پیسہ کہاں سے لے کر آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کمپنی نے ان کی فصل کے نقصان کا پوری طرح ازالہ نہ کیا تو ان کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 31 مارچ 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.