ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی (میپکو) کے کچھ اہل کاروں نے 10 جون 2021 کو محمد ارشاد کے تین زرعی ٹیوب ویلوں پر نصب بجلی کے میٹر اتارے اور ان کی جگہ نئے میٹر لگا دیے۔
محمد ارشاد کے مطابق جس دن سے نئے میٹر لگے ہیں ان کے ٹیوب ویلوں کا کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل کر میپکو کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جس کے افسران جب چاہتے ہیں انہیں چلا دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں بند کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "سہ پہر دو بجے سے شام چھ بجے تک تو ان ٹیوب ویلوں کو ایک منٹ کے لیے بھی نہیں چلنے دیا جا رہا"۔
اس بندش کی وجہ سے وہ پانچ ایکڑ پر کھڑی اپنی اروی کی فصل کو وقت پر اور مناسب مقدار میں پانی نہیں دے سکے جس کے نتیجے میں یہ فصل جزوی طور پر جھلس گئی ہے اور اس کی کاشت پر خرچ ہونے والے چار لاکھ روپے ضائع ہو گئے ہیں۔
محمد ارشاد کا تعلق ضلع پاکپتن کے گاؤں 26 ایس پی سے ہے جہاں وہ 80 ایکڑ اراضی پر مختلف فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ ان کے قریبی گاؤں 36 ایس پی گِلاں والے میں محمد بلال نامی کسان کو بھی شکایت ہے کہ ان کے ٹیوب ویل پر نئے میٹر کی تنصیب کے بعد وہ 20 ایکڑ پر لگی اپنی دھان کی فصل کو درکار پانی فراہم نہیں کر سکے جس سے یہ فصل شدید متاثر ہوئی ہے اور انہیں لگ بھگ آٹھ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ان کے علاقے کے بہت سے دیگر کاشت کاروں کی دھان کی فصل بھی اسی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ اسی طرح کئی کاشت کاروں نے اس فصل کے لئے زمین تیار کر رکھی ہے اور اس کی پنیری بھی خرید چکے ہیں لیکن پانی کی غیر یقینی فراہمی کی وجہ سے وہ پنیری کو کھیتوں میں منتقل نہیں کر پا رہے۔
زرعی امور کے ماہر اور ضلع پاکپتن کے ترقی پسند کاشت کار عامر حیات بھنڈارہ اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ان دنوں چاول اور مکئی کی کاشت کا موسم ہے جن کی بہتر پیداوار کا انحصار بر وقت پانی ملنے پر ہے۔ اگر ان فصلوں کو پانی دینے میں ایک دن کی بھی تاخیر ہو جائے توان کی پیداوار متاثر ہو جاتی ہے"۔
ان کے بقول اگر اس ماہ کے اختتام پر کاشت کی جانے والی دھان کی برآمدی قسم باسمتی کو بھی اسی طرح پانی کی کمی کا سامنا رہا تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کی برآمدات اور معیشت پر پڑ سکتا ہے۔
پاکپتن اور ساہیوال کے کاشت کاروں کی نظر میں میپکو اس صورتِ حال کی براہِ راست ذمہ دار ہے کیونکہ وہ نہ صرف نئے میٹروں کی مدد سے ٹیوب ویلوں کو ہر روز چار گھنٹے کے لیے بند کر دیتی ہے بلکہ چھ سے آٹھ گھنٹے روزانہ معمول کی لوڈشیڈنگ بھی کر رہی ہے۔
بند ہو جا سِم سِم
بجلی کے نئے میٹر در اصل سمارٹ میٹر ہیں جو کئی ملکوں میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان میں موبائل فون کی طرح ایک سِم لگائی جاتی ہے جس کی مدد سے بِجلی تقسیم کرنے والی کمپنی کے اہل کار اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا بجلی استعمال ہو رہی ہے یا نہیں۔ ان میٹروں کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ ان میں لگی سِم کے ذریعے سِگنل بھیج کر بجلی کمپنی کے اہل کار جب چاہیں بجلی کی ترسیل روک دیں۔
یہ سمارٹ میٹر پاکستان میں 2012 میں متعارف کرائے گئے۔ ابتدا میں وفاقی وزارتِ توانائی نے امریکی امدادی ادارے، یو ایس ایڈ، کی مالی اور تکنیکی مدد سے انہیں کچھ جگہوں پر صرف آزمائشی بنیادوں پر لگایا۔ان کی تکنیکی نگرانی وزارتِ توانائی کے زیر اثر کام کرنے والی پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کے ذمے تھی جس کے ایک اہل کار کے مطابق ان سمارٹ میٹروں کی زرعی ٹیوب ویلوں پر باقاعدہ تنصیب کا آغاز 2015 اور 2016 میں ان علاقوں میں ہوا جہاں میپکو بِجلی فراہم کرتی ہے۔
اِس وقت بِجلی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیاں اپنے اپنے علاقوں میں یہی سمارٹ میٹر نصب کررہی ہیں۔ ساہیوال اور پاکپتن کے اضلاع میں ان کی تنصیب جون 2021 میں شروع ہوئی۔
میپکو کے ساہیوال سرکل کے سپرنٹنڈنٹ انجینئر سرور مغل کے مطابق ان کے زیرِ انتظام علاقے میں لگ بھگ 18 ہزار زرعی ٹیوب ویل بجلی سے چلتے ہیں جن میں سے 75 فیصد پر سمارٹ میٹر نصب کیے جا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سمارٹ میٹر سے نہ صرف بجلی چوری روکی جا سکے گی بلکہ اس سے کاشت کاروں کی یہ شکایت بھی دور ہو جائے گی کہ انہیں بجلی کی کھپت سے زیادہ بِل موصول ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کی سمارٹ میٹروں کی وجہ سے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو درکار افرادی قوت میں بھی کمی آ جائے گی کیونکہ سِم کی موجودگی میں میٹر کی ریڈنگ لینے کے لئے کِسی میٹر ریڈر کو کئی میل کا سفر طے کر کے ٹیوب ویلوں تک نہیں جانا پڑے گا۔
اسی طرح وقت پر بِل ادا نہ کرنے والے صارفین کی بجلی کمپنی کے دفتر سے ہی منقطع کی جا سکے گی اور بِل کی ادائیگی کی صورت میں اس کی بحالی کے لئے بھی کسی لائن مین کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ یہ عمل بھی خود کار طریقے سے ہو جائے گا۔
سمارٹ میٹر: بجلی کی کمی کا متبادل؟
ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا میں بیشتر زرعی ٹیوب ویلوں کو 2015 اور 2016 میں سمارٹ میٹروں پر منتقل کردیا گیا تھا لیکن حالیہ ہفتوں میں وہاں کے کاشت کار ٹیوب ویلوں کی بے وقت بندش کی وجہ سے بہت پریشان رہے ہیں۔ان میں سے کئی ایک نے تو اس کے خلاف احتجاج کا ارادہ بھی کر رکھا ہے۔
احتجاج پر آمادہ ان کاشت کاروں میں شامل ملک ذوالفقار اعوان کہتے ہیں کہ تین ہفتے قبل ان کے علاقے کے بعض کاشت کاروں کے ٹیوب ویل اچانک بند کر دیے گئے تھے حالانکہ انہوں نے اپنے تمام بِل بروقت ادا کیے ہوئے تھے۔ ان کے مطابق "ان ٹیوب ویلوں کی بجلی ابھی تک بحال نہیں کی گئی"۔
ان کاشت کاروں کا الزام ہے کہ ملک میں جب بھی بجلی کی ترسیل اور طلب میں فرق بڑھتا ہے تو بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں سب سے پہلے سمارٹ میٹروں کی مدد سے زرعی ٹیوب ویلوں کو ہی بند کرتی ہیں۔ عامر حیات بھنڈارہ کے مطابق "پچھلے دنوں گھریلو صارفین اور صنعتی اداروں کو تو مسلسل بجلی مِل رہی تھی لیکن زرعی ٹیوب ویلوں کو اس کی فراہمی معطل تھی"۔
سرور مغل تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہوا ہے لیکن ان کے بقول یہ بندش عارضی تھی اور تربیلا ڈیم پر لگے بجلی بنانے والے پلانٹ میں خرابی کا نتیجہ تھی جس کی وجہ سے بجلی کی طلب اور ترسیل میں فرق آ گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "اب جب کہ بجلی کی ترسیل معمول پر آ گئی تو زرعی ٹیوب ویل بند کرنے کا سلسلہ بھی کم ہو چکا ہے"۔
ان کے بقول میپکو نے گھریلو صارفین اور صنعتی اداروں کے بجائے ٹیوب ویلوں کی بجلی اس لئے بند کی کہ ان سے بجلی کی قیمت صرف آٹھ روپے فی یونٹ کے حساب سے وصول کی جاتی ہے جبکہ گھروں اور فیکٹریوں کو دی جانے والی بجلی کی قیمت 22 روپے سے 25 روپے فی یونٹ ہے۔ ان کی نظر میں زیادہ قیمت دینے والے صارفین کو نظر انداز کر کے کم قیمت دینے والے صارفین کو بِجلی فراہم کرنا کوئی دانِشمندانہ فیصلہ نہ ہوتا۔
ٹیوب ویلوں کی بندش کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ وہ گھریلو صارفین کی نسبت کہیں زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک گھریلو دیہاتی میٹر روزانہ اوسطاً آٹھ سے 10 ایمپئر بجلی استعمال کرتا ہے جبکہ ایک ٹیوب ویل میں روزانہ 70 سے 90 ایمپئر بجلی استعمال ہوتی ہے۔ یوں ایک زرعی ٹیوب ویل کی بجلی بند کر کے دس کے قریب گھروں کو اس کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں اگر ساہیوال اور پاکپتن کے بجلی سے چلنے والے تمام 18 ہزار ٹیوب ویل بند کر دیے جائیں تو اس کے نتیجے میں بچنے والی بجلی ایک لاکھ 80 ہزار دیہاتی گھرانوں کو دی جا سکتی ہے۔ اس حساب سے بجلی کی طلب اور رسد میں 25 فیصد فرق کی صورت میں ان دونوں ضلعوں میں لگے ہوئے بجلی کے ٹیوب ویل بند کر کے یہاں کے تمام سات لاکھ گھرانوں کو بجلی کی بِلا تعطل فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹیوب ویلوں کی مسلسل بندش کے زرعی معیشت پر شدید منفی اثرات ہوں گے کیونکہ اس معیشت کا بجلی پر انحصار روز بروز بڑھ رہا ہے۔
مثال کے طور پر سترہ سال پہلے کیے گئے پاکستان ایگری کلچر مشینری سینسس کے مطابق پنجاب میں آٹھ لاکھ 37 ہزار نو سو چار ٹیوب ویل تھے جن میں سے صرف 63 ہزار نو سو 54 بجلی سے چلائے جاتے تھے۔ تاہم حکومتِ پنجاب کے ایک ذیلی ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کی 2018-19 کی رپورٹ کے مطابق اس صوبے میں زرعی ٹیوب ویلوں کی تعداد 11 لاکھ 25 ہزار دو سو 25 ہوگئی جن میں سے ایک لاکھ 62 ہزار سات سو 23 بجلی سے چلتے ہیں۔یعنی 2004 اور 2018 کے درمیان بجلی سےچلنے والے ٹیوب ویلوں کی تعداد میں 154 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کپاس کی فصل کو درپیش موسمیاتی خطرات:حکومت کو نئے ایٹمی بیج سے معجزوں کی توقع۔
عامر حیات بھنڈارہ کے مطابق اس اضافے کی وجہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ہر سال ڈیزل سے چلنے والے ہزاروں ٹیوب ویل بجلی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ لیکن اس تبدیلی کے نتیجے میں پنجاب کی زرعی معیشت میں ہونے والی ترقی بہت حد تک بجلی کی مرہونِ منت ہو گئی ہے۔ اسی لئے وہ سمجھتے ہیں کہ "سمارٹ میٹروں کے ذریعے ٹیوب ویلوں کی بندش جیسے اقدامات زرعی معیشت کو تباہ کر دیں گے"۔
تصادم کے خدشات
پاکپتن میں حکومت کی طرف سے قائم کی گئی ایک زرعی مشاورتی کمیٹی نے ٹیوب ویلوں کی بے وقت بندش کے مسئلے کے حل کے لیے 30 جون 2021 کو ایک اجلاس بلایا جس میں میپکو کے ایگزیکٹو انجینئر کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس کمیٹی کے رکن نعیم ممتاز وٹو کے مطابق ایگزیکٹو انجینئر نے اجلاس کے شرکا کو یقین دلایا کہ یہ مسئلہ جلد حل کر لیا جائے گا۔
اس اجلاس کے بعد ٹیوب ویلوں کی بندش کا سِلسِلہ کم تو ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا جس کی وجہ سے کاشت کاروں میں پریشانی اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے خاتمے کے لئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے۔ تاہم کمیٹی کا خیال ہے ابھی میپکو کو کچھ مزید وقت دیا جائے۔ نعیم ممتاز وٹو کے بقول "کمیٹی چاہتی ہے کہ اس معاملے کو افہام و تفہیم سے طے کیا جائے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کسانوں کے احتجاج کو روکنا مشکل ہوجائے گا"۔
میپکو حکام بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ سرور مغل کہتے ہیں کہ ٹیوب ویلوں کی بجلی بند کرتے وقت انہوں نے حکومت کو خبردار کر دیا تھا کہ اس کی وجہ سے کاشت کار سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق "اگر ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی اکثر و بیشتر معطل رکھی جائے گی تو کچھ کسان تنظیمیں کاشت کاروں کو بل ادا نہ کرنے پر بھی اکسا سکتی ہیں"۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ایسی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے کاشت کاروں کے ذمے پہلے ہی اربوں روپے واجب الادا ہیں۔ میپکو کے ایگزیکٹو انجینئر شاہد نذیر اس دعوے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بورے والا تحصیل میں پچھلے کچھ سالوں سے بجلی کے بِلوں کی مد میں کاشت کاروں کے ذمے 67 ارب روپے واجب الادا ہیں لیکن وہ ان کی ادائیگی کے لئے تیار نہیں۔
عامر حیات بھنڈارہ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اگر حکومت بِلوں کی بر وقت ادائیگی کو ممکن بنانے کے لیے ٹیوب ویل بند کر رہی ہے تو اس کا نفاذ صرف نادہندہ کاشت کاروں پر کیا جانا چاہیے" کیونکہ سبھی کاشت کاروں پر اسے لاگو کرنے کے نتائج منفی بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول "اگر ٹیوب ویلوں کی بلا امتیاز بندش جاری رہی تو اس کا سارا غصہ میپکو کے مقامی عملے اور دفاتر پر کسانوں کے حملوں کی صورت میں نکلے گا"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 20 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 18 مئی 2022