صحبت پور میں سیلاب کے بعد جلدی بیماریاں پھوٹ پڑیں، علاج اور دواؤں سے محروم لوگ زخموں پر مٹی مل رہے ہیں

postImg

تنویر احمد

postImg

صحبت پور میں سیلاب کے بعد جلدی بیماریاں پھوٹ پڑیں، علاج اور دواؤں سے محروم لوگ زخموں پر مٹی مل رہے ہیں

تنویر احمد

بائیس سالہ محمد حسین سونے کے لئے نیند کی گولی کھاتے ہیں کیونکہ ان کے جسم پر پھوڑوں کی وجہ سے ہر وقت خارش اور بے چینی رہتی ہے جس کے باعث وہ پرسکون نیند نہیں لے سکتے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع صحبت پور کے قصبے گوٹھ مراد علی سے ہے۔ انہیں یہ بیماری سیلابی پانی سے لاحق ہوئی ہے۔ بچپن میں پولیو کے باعث وہ ایک ٹانگ اور ہاتھ سے معذور ہو گئے تھے جبکہ حالیہ بیماری نے انہیں گویا چارپائی پر ڈال دیا ہے۔

محمد حسین گوٹھ مراد علی میں اپنے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں۔ سیلاب سے پہلے دونوں بھائی کرایے پر زمین لے کر کاشتکاری کرتے تھے لیکن اب ان کی زمینوں پر پانی کھڑا ہے جس کے جلد اترنے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ روزگار ختم ہو جانے کے باعث ان کے پاس اپنا علاج کرانے کے وسائل بھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میری زندگی پہلے ہی بہت مشکل تھی جسے سیلاب نے مزید مشکل بنا دیا ہے۔''

سیلاب کے بعد اس قصبے میں جلدی بیماری عام ہے۔ محمد حسین کی عمر کے ایک اور نوجوان قمیض اٹھا کر اپنا جسم دکھاتے ہیں جس پر پھوڑے نکلے ہیں اور جلد سوکھ کر پھٹنے لگی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں یہ بیماری گندے پانی سے لاحق ہوئی ہے اور علاقے میں بہت سے لوگ خصوصاً بچے ایسی بیماریوں کا آسان ہدف ہیں۔

صحبت پور کے اس گاؤں کی بیشتر آبای کاشت کاری سے منسلک ہے لیکن اگست میں آنے والے سیلاب کے بعد تاحال ان لوگوں کی زمینوں میں پانی کھڑا ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے بتیس سالہ امام بخش کو شکوہ ہے کہ سیلاب کے دوران اور اس کے بعد کسی حکومتی ادارے نے ان کی مدد نہیں کی۔ اگر کوئی امدادی ادارہ اس علاقے کا رخ کر بھی لے تو بااثر لوگ اس کے نمائندوں کو ساتھ لے جاتے ہیں اور ساری امداد خود وصول کر لیتے ہیں۔

امام بخش اپنی والدہ، اہلیہ اور تین بیٹیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ سیلاب سے پہلے وہ بتیس جرھے (سولہ ایکڑ) زمین پر بزگر (مزارعے) کے طور پر کھیتی باڑی کرتے تھے جہاں انہوں نے باسمتی چاول کاشت کر رکھے تھے لیکن سیلاب ان کی فصل کو بہا لے گیا ہے۔ سیلاب کے بعد ان کے کندھے کے قریب زیرجلد سوزش کے نتیجے میں زخم بھی ہو گیا ہے جو بڑھتا جا رہا ہے۔

اس علاقے میں نہ تو حکومت نے کوئی طبی کیمپ لگایا ہے اور نہ ہی کسی امدادی ادارے نے یہ سہولت فراہم کی ہے۔ امام بخش کے پاس علاج تو درکنار زخم پر پٹی لگوانے کے وسائل بھی نہیں ہیں اس لیے وہ کندھے پر چکنی مٹی کا لیپ کرتے رہتے ہیں۔

امام بخش طبی امدا نہ ہونے کے باعث اپنے زخم پر چکنی مٹی کا لیپ کرتے ہیںامام بخش طبی امدا نہ ہونے کے باعث اپنے زخم پر چکنی مٹی کا لیپ کرتے ہیں

اس گاؤں میں امام بخش کی طرح اور بہت سے لوگوں کی جلد پر بھی سرخ رنگ کے پھوڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس کی وجہ کیا ہے، یہ کتنے نقصان دہ ہیں اور ان کا علاج کیا ہے۔ ابھی تک کسی نے اس بیماری کا کوئی ٹیسٹ نہیں کروایا اور دیسی طریقوں سے اس کا علاج کر رہے ہیں۔

صوبائی محکمہ صحت کی جانب سےصحبت پور میں تعینات ڈاکٹر شہزاد کامران کہتے ہیں کہ سیلاب کا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے جلدی الرجی اور جراثیمی انفیکشن کے کیس ضرور سامنے آئے ہیں البتہ پھپھوندی (فنگس ) تاحال نہیں پھیلی۔ وہ تسلیم کرتے ہیں نہ صرف گوٹھ مراد علی بلکہ پورے صحبت پور سے زیر جلد سوزش کے بہت سے مریض سامنے آئے ہیں اور یہ مریض ان علاقوں میں زیادہ ہیں جہاں ابھی تک سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔

صحبت پور میں پی پی ایچ آئی کے ضلعی مینیجر سپورٹ شاہ جہاں کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت اپنی پوری کوشش کر رہا ہے کہ سیلاب متاثرین کو زیادہ سے زیادہ طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس ضمن میں سیلاب کے بعد بنیادی مراکز صحت کے لیے ادویات کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ بیماریوں پر جلد قابو پایا جا سکے۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے بھی صحت کے شعبے میں تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

بلوچستان کے ضلع لورالائی میں صوبائی محکمہ صحت کے سابق ترجمان ڈاکٹر منیر اقبال کا کہنا ہے کہ زیر جلد سوزش جراثیمی انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کا فوری علاج کرانا ضروری ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ علاج میسر نہ ہونے کے باعث جلدی سوزش یا زخموں پر مٹی لگاتے ہیں جس سے بیماری بڑھنے اور فنگس لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کھانے کے باوجود وہ صحت یاب نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

دوا اور غذا کی قلت: بلوچستان کے سیلاب متاثرین میں حاملہ خواتین کی صحت و زندگی خطرے میں پڑ گئی

ڈاکٹر منیر کے مطابق جب لوگ اپنے طور پر سوجن میں سے ریشہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو باہر نکلنے کا راستہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ریشہ زیرجلد پھیل جاتا ہے جس سے سوجن بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ان بیماریوں کو سنگین صورت اختیار کرنے سے روکنے کے لیے اینٹی فنگس ادویات دی جانا ضروری ہیں۔

امام بخش سے جب امداد یا سہولیات کی فراہمی کے امکان پر کوئی بات کی جائے تو وہ طنزاً ہنس دیتے ہیں۔ انہیں اپنی بیماری سے زیادہ یہ فکر لاحق ہے کہ انہوں نے کاشت کاری کے لیے جو قرض لیا تھا اسے واپس کرنا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سیلاب میں نقصان اٹھانے کے بعد اصولی طور پر ان کا قرض معاف ہو جانا چاہیے تو وہ کہتے ہیں کہ ''وڈیرے کب قرض معاف کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے قرض ادا نہ کیا تو وہ انہیں گرفتار کروا دیں گے۔''

تاریخ اشاعت 23 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تنویر احمد شہری امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے او کالج لاہور سے ماس کمیونیکیشن اور اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.