خاران: بجلی بحران میں شمسی توانائی کیا رنگ دکھا رہی ہے؟

postImg

امتیاز بلوچ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خاران: بجلی بحران میں شمسی توانائی کیا رنگ دکھا رہی ہے؟

امتیاز بلوچ

loop

انگریزی میں پڑھیں

بلوچستان میں طویل عرصے سے بجلی کا سنگین بحران چلا آ رہا ہے جس نے یہاں کی زراعت، صحت، تعلیم سمیت تمام شعبوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ کچھ سال سے تو صورت حال یہ ہو گئی تھی کہ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث کئی علاقوں میں موبائل نیٹ ورکس بھی کام چھوڑ دیتے تھے۔

بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کو جواز بنا کر بلوچستان کے زیادہ تر اضلاع میں بمشکل دو سے تین گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے جس کا اعتراف سرکاری ادارے بھی کرتے ہیں۔

تاہم سولر ٹیکنالوجی عام ہونے سے صوبے کے زرعی سیکٹر سمیت کئی شعبوں میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

بلوچستان کے تین لاکھ 47 ہزار 190 مربع کلومیٹر  رقبے پر بکھری ڈیڑھ کروڑ کے قریب آبادی کو دشوار گزار علاقوں میں ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن لائنوں کے ذریعے بجلی پہنچانا ویسے ہی آسان نہیں ہے، اوپر سے بجلی چوری، امن و امان اور ریکوری کے مسائل نے یہاں کے مکینوں کے لیے مشکلات بڑھا رکھی تھیں۔

کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے ترجمان محمد افضل بلوچ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں خضدار کے علاقوں کو دادو، لورالائی کو ڈیرہ غازی خان، اوچ اور سبی کو گدو گرڈ اور حب  کو کراچی سے بجلی دی جا رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مکران ڈویژن کے علاقوں جیکور، مند اور جیونی وغیرہ کو ایران سے بجلی ملتی ہیں جبکہ بلوچستان کے دیگر اضلاع کو کیسکو سپلائی دے ہی ہے۔

"اس وقت ہمیں (کیسکو کو) 600 سے 800 میگاواٹ بجلی ملتی ہے جو بلوچستان کے ضروریات کے لیے کافی ہے لیکن ریکوری نہ ہونے کی وجہ سے ہم پوری سپلائی نہیں دے رہے۔"

بجلی مہنگی ہونے کے بعد کاشتکاروں کے لیے زرعی ٹیوب ویلز کا استعمال تو جیسے ناممکن ہی ہو کر رہ گیا اور جو زمیندار بجلی کے اخراجات برداشت کر سکتے تھے انہیں لوڈشیڈنگ نے بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔

محکمہ زراعت بلوچستان کی 2022ء میں تیار کی جانے والی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ صوبے میں قابل کاشت اراضی تقریباً 71 لاکھ ایکڑ ( کل رقبے کا 16 فیصد) ہے جس میں سے مجموعی طور پر صرف 30 لاکھ ایکڑ کے قریب رقبہ (قابل کاشت زمین کا41 فیصد) ہی کاشت ہو پاتا ہے۔

یوں صوبے کی 59 فیصد قابل کاشت اراضی خالی رہ جاتی تھی جس کی سب سے بڑی وجہ پانی کی عدم دستیابی بتائی جاتی ہے۔

بلوچستان کے دور افتادہ ضلع خاران میں بھی کچھ سال پہلے تک وسیع زرعی زمینیں بنجر پڑی ہوئی تھیں لیکن اب یہاں سولر سسٹم کی بدولت لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آبپاشی کا یہ دیرینہ مسئلہ حل کر رہے ہیں۔

طویل لوڈ شیڈنگ، بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے جہاں عام کاشت کاروں کو شمسی توانائی کی طرف مائل کیا ہے وہاں حکومت نے بھی سولر پینلز پر ٹیکس کم کیے ہیں۔

عالمی ادارے پہلے ہی پاکستان کو موسمیاتی تبدیلوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے کی تجاویز دے رہے تھے۔

خاران کے زمیندار احسان بلوچ بتاتے ہیں کہ ان کے ضلع میں بجلی ناپید تھی اور آبپاشی کے لیے پانی نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں کاشت نہیں کی جا سکتی تھیں لیکن اب شمسی توانائی کے سبب زمینیں آباد ہو رہی ہیں۔

خاران کے زمیندار احسان بلوچ بتاتے ہیں کہ ان کے ضلع میں بجلی ناپید تھی اور آبپاشی کے لیے پانی نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں کاشت نہیں کی جا سکتی تھیں لیکن اب شمسی توانائی کے سبب زمینیں آباد ہو رہی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بجلی، ڈیزل انجن اور ٹریکٹر کے ذریعے ٹیوب ویل یا بور چلانے کے اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں۔ کسانوں کے لیے اس کی دیکھ بھال اور مرمت کا بوجھ اضافی عذاب تھا جبکہ سولر لگانے پر ایک ہی بار خرچ کرنے کے بعد تمام مسائل سے جان چھوٹ جاتی ہے۔

"ہمیں (کاشت کار کو) بجلی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ نے بہت نقصان پہنچایا اب زیادہ تر لوگ سولر سسٹم پر انحصار بڑھا رہے ہیں جس سے فصل سوکھنے کا کوئی خطرہ نہیں اور زندگی بھی آسان ہو گئی ہے۔"

سولر توانائی سے بلوچستان کا صرف زرعی سیکٹر ہی فائدہ نہیں اٹھا رہا بلکہ یہاں سکولوں اور ہسپتالوں میں بھی سولر بجلی مہیا کی جا رہی ہے۔

محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع خاران میں اس وقت 266 سرکاری سکول کام کر رہے ہیں جن میں سے صرف 65 میں بجلی کی سہولت میسر ہے۔

"گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کے دوران تمام سکولوں میں بچوں کا برا حال ہوتا ہے لیکن اب معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔"

خاران میں محکمہ تعلیم کے افسر صفی شفی بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ادارے 'یونیسف' کی مدد سے خاران کے  پانچ ہائی سکولوں میں سولر پلیٹ، بیٹریاں اور پنکھے نصب کیے جا چکے ہیں جس سے طلبہ کی مشکلات میں کچھ کمی آئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یونین کونسل مسکان قلات اور نوروز قلات کے ایک ایک سکول میں بھی سولر سسٹم نصب کئے گئے ہیں جہاں طلبا کے لیے کمپیوٹر لیب اور پروجیکٹر بھی لگائے جا رہے ہیں۔

سعید احمد، گورنمنٹ قلعہ ہائی سکول خاران کے پرنسپل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شمسی توانائی اور کمپیوٹر لیب ملنے سے طلباء کو بے پناہ خوشی اور پڑھنے کا بہتر موقع میسر آیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ خاران جیسے پسماندہ علاقے میں بجلی نہ ہونے کے باوجود طلباء و طالبات کی سولر کے ذریعے ٹیکنالوجی تک مسلسل رسائی ممکن ہو گی۔ انٹرایکٹو ڈیجیٹل مواد بوریت کو کم کرنے اور سیکھنے کے عمل کو پرلطف بنا دیتا ہے۔

 "سولر پر چلنے والی کمپوٹر لیب کے ذریعے ڈیجیٹل وسائل تک رسائی سے ہمارے بچوں میں تعلیم سے دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ اس اقدام سے ان میں تخلیقی صلاحیتیں فروغ پائیں گی۔"

قلعہ ہائی سکول میں زیر تعلیم دسویں کے طالب علم سمیر احمد اپنے سکول میں سولر کی تنصیب اور کمپیوٹر لیب ملنے پر بہت خوش ہیں۔ کہتے ہیں کہ گرمی میں کلاس رومز میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا تھا اب اچھا لگتا ہے۔ دوسرے بجلی میسر آنے سے کمپوٹر کی اب روزانہ کلاس ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سولر پینل سستا کر دیں: راجن پور میں شمسی توانائی پر منتقلی کے خواہش مند کسانوں کا واحد مطالبہ

خاران میں سکولوں کے ساتھ ہسپتالوں میں بھی سولر سسٹم نصب کیے جا رہے ہیں جس میں یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کرنے والا ادارہ پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشیٹو (پی پی ایچ آئی) اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

ڈسٹرکٹ سپورٹ مینجر پی پی ایچ آئی سہیل بلوچ بتاتے ہیں کہ ضلع بھر میں اس وقت 22 کے قریب بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یو) کام کر رہے ہیں ہیں جن میں ان کے ادارے کی طرف سے سولر سسٹم کی سہولت دی جا چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یونین کونسل مسکان قلات، نوروز قلات، ڈنو اور سراوان سمیت چار صحت مراکز کے لیبر رومز بھی شمسی توانائی پر منتقل کیے گئے ہیں۔ جبکہ دیگر بی ایچ یوز میں پنکھے اور لائٹ کی سہولت دی گئی ہے جس سے عوام کو کچھ حد تک آسانی میسر آئے گی۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر خاران شیر احمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ محکمہ صحت نے ڈپٹی کمشنر کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال خاران کے ڈائلیسز سنٹر کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی تجویز بھیجی تھی۔ امید ہے اس پر جلد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔

علاوہ ازیں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے تحت بلوچستان میں اس سال فروری میں ایک منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا جس سے بلوچستان کے 12 تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں جدید سولر سسٹم لگائے جائیں گے۔

اب صرف خاران ہی نہی سولر ٹیکنالوجی کے باعث بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں فصلیں لہلہاتی نظر آتی ہیں۔ سکول آباد ہونے لگے ہیں اور موبائل فون و انٹرنیٹ کے سگنل بھی کم ہی جاتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 15 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.