نواز اقبال، ضلع وہاڑی (جنوبی پنجاب) کے رہائشی اور سات ایکڑ زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ وہاڑی کپاس کی کاشت اور پیداوار کے لیے مشہور رہا ہے۔ نواز اقبال بھی کچھ سال پہلے تک زیادہ تر کپاس ہی اگاتے تھے لیکن رواں سال انہوں نے چار ایکڑ پر دھان لگایا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے دس پندرہ برسوں میں کپاس کی کاشت میں اتنا زیادہ نقصان ہوا کہ وہ دوسری فصلیں کاشت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انہوں نے پہلے مکئی لگانا شروع کی جس سے حالات کافی بہتر ہوئے لیکن تین چار سال میں ہی مکئی کے دام گر گئے۔
رواں خریف سیزن میں انہوں نے چار ایکڑ چاول (دھان)، ایک ایک ایکڑ چارہ، گنا اور تل کاشت کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں جہاں ہر طرف کپاس ہی کپاس ہوا کرتی تھی اب وہاں چاول اور مکئی کی فصلیں نظر آتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ ان دونوں فصلوں کی ہائبرڈ اقسام بھی ہیں جو 100 من سے زیادہ پیداوار دیتی ہیں اور ان کا دورانیہ بھی کپاس سے نصف ہے۔
پچھلے کچھ برسوں سے پنجاب میں خریف سیزن کے دوران دھان کی دو فصلیں اٹھائی جاتی ہیں۔
پہلی فصل میں موٹے چاول کی کچھ اقسام (ہائبرڈ سمیت) شامل ہیں جو اگیتی یعنی گندم کی کٹائی کے فوری بعد کاشت ہوتی ہیں اور یہ تین ماہ میں تیار ہوجاتی ہیں۔
دھان کے ہائبرڈ بیجوں کی پیداوار 80 سے 100 من فی ایکڑ رہتی ہے جبکہ اسی زمین پر باسمتی یا روایتی اقسام کے چاول کی دوسری فصل جولائی میں کاشت کی جاتی ہے۔
لیاقت چٹھہ، 400 ایکڑ کے زمیندار اور ترقی پسند کاشت کار ہیں جن کا کچھ رقبہ وہاڑی اور کچھ ضلع بہاولنگر میں ہے۔
ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ جنوبی پنجاب میں کپاس کو زوال کے بعد کسان متبادل کے طور پر مکئی، چاول اور گنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پچھلے دو تین سال کے دوران جن لوگوں نے دھان لگایا انہیں فی ایکڑ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن ہوئی جبکہ کپاس اور مکئی والے خسارے میں رہے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ 2013ء اور 2024ء کے درمیان 12 سال میں جنوبی پنجاب سمیت چاول کے غیر روایتی علاقوں میں اس کے زیر کاشت رقبے میں 115 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
یہاں پر 2013ء میں 14 لاکھ 14 ہزار ایکڑ رقبے پر دھان کاشت ہوا تھا جبکہ پچھلے سال اس کی کاشت 30 لاکھ 36 ہزار ایکڑ ہو چکی ہے۔
پاکستان میں چاول کی کاشت کے روایتی علاقوں میں وسطی پنجاب کے ڈویژن لاہور اور گوجرانوالہ شامل ہیں لیکن یہاں 12 سال میں صرف 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
پچھلے سال ملک میں 89 لاکھ 83 ہزار ایکٹر ریکارڈ رقبے پر دھان کاشت ہوا تھا جس میں سے 64 لاکھ 34 ہزار ایکڑ رقبہ پنجاب کا تھا جو دھان کی کل ملکی کاشت کا 70 فیصد سے زائد بنتا ہے۔
پچھلے سال دھان کی صرف ریکارڈ کاشت ہی نہیں تھی بلکہ چاول کی پیداوار اور ایکسپورٹ بھی ریکارڈ سطح پر جا پہنچی۔
پاکستان نے پچھلے مالی سال میں چاول کی برآمد سے 3.9 ارب ڈالر حاصل کیے حالانکہ اس سے پہلے چاول کی برآمد کبھی 2.5 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں رہی۔
پچھلے مالی سال میں پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹس 30.68 ارب ڈالر رہیں جن میں فوڈ گروپ(کھانے پینے کی اشیا) کا حصہ 24 فیصد تھا اور ان میں 53 فیصد چاول تھا۔
زرعی ماہرین اور ایکسپورٹرز کے مطابق پاکستانی چاول کی برآمد میں اضافہ دراصل بھارت کی جانب سے چاول کی بعض اقسام پر برآمدی پابندیاں لگانے کے بعد ہوا جس کا مقصد پارلیمانی انتخابات سے قبل بڑھتی قیمتوں پر قابو پانا تھا۔
بھارتی اقدام کے بعد نہ صرف مشرق وسطیٰ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور افریقی ممالک میں نان باسمتی اقسام کے پاکستانی چاول کی مانگ بڑھی بلکہ اسے روس اور میکسیکو کی منڈیوں تک بھی رسائی ملی۔
تاہم بھارت اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ چاول برآمد کرنے والا ملک ہے جس کا انٹرنیشنل مارکیٹ میں حصہ ایک تہائی یعنی 33 فیصد ہے۔
خوشی کا موقع یا لمحہ فکریہ
امریکی غیر ملکی زرعی سروس کی 27 جون 2024ء کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ رواں مالی سال(25-2024) کے دوران پاکستانی چاول کی ایک کروڑ میٹرک ٹن ریکارڈ پیداوار ہونے کا امکان ہے۔
کراپ رپورٹنگ سروس پنجاب کے چاول کے شعبے کے ڈائریکٹر عباس علی شاہ نشاندہی کرتے ہیں کہ رواں سال پنجاب میں 65 لاکھ ایکڑ پر چاول کی کاشت کا اندازہ لگایا گیا ہے جو پچھلے سال سے 66 ہزار ایکڑ زیادہ ہے۔
" ڈی جی خان ڈویژن میں پچھلے سال سے 18 فیصد، بہاولپور میں 13 فیصد اور ملتان میں 11 فیصد زیادہ رقبے پر دھان کاشت ہو رہا ہے جبکہ روایتی علاقوں لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن میں نسبتاً معمولی کمی آئی ہے۔"
ایوب ایگریکلچرل رائس ریسرچ انسٹیوٹ کے پرنسپل شہبارحسین جن کا ادارہ چاول کی تحقیق پر کام کرتا ہے وہ بھی جنوبی پنجاب میں دھان کی بڑھتی کاشت کو 'قابل فخر' کارنامہ قرار نہیں دیتے۔
ان کا ماننا ہے کہ چاول دریا کے قریبی اور زیادہ بارش والے علاقوں کی فصل ہے۔ ایک کلو چاول اگانے پر تین ہزار سے پانچ ہزار لٹر پانی خرچ ہوتا ہے وہ بھی ان علاقوں میں جہاں زیر زمین پانی زیادہ گہرا نہ ہو یا پھر زمین سخت ہو جہاں پانی زیادہ دیر تک ٹھہر سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی زمینیں ریتلی ہیں اور بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی 300 سے 500 فٹ گہرا ہے جہاں چاول کو پانی کی د گنی مقدار چاہیے۔ جب اتنا نہری پانی دستیاب نہیں تو لامحالہ اس کے لیے ٹیوب ویل سے ہی نکالا جائے گا۔
"بس یوں سمجھ لیں کہ ہم جنوبی پنجاب میں چاول لگا کر گناہِ کبیرہ کر رہے ہیں۔"
معاشی سروے رپورٹ 2023-24 کہتی ہے کہ پاکستان میں چار کروڑ 81 لاکھ ایکڑ زرعی رقبے میں سے 30 فیصد کی آبپاشی ہی نہری پانی اور باقی 70 فیصد رقبہ ٹیوب ویلوں و دیگر ذرائع سے سیراب ہوتا ہے۔
کراپ رپورٹ سروس پنجاب کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار سے بھی واضح ہوتا ہے کہ صوبے میں ٹیوب ویلوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
2015ء میں پورے صوبے میں 10 لاکھ 44 ہزار ٹیوب ویل تھے جو 2021ء تک سوا 12 لاکھ ہو گئے۔
جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان میں سب سے زیادہ ٹیوب ویل لگے جہاں ان سات سالوں میں ان کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔
اس عرصے میں چاول کے روایتی علاقوں لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن میں یہ شرح سات فیصد رہی۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی 2022ء کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ملک تیزی کے ساتھ پانی کی خطرناک حد تک قلت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر پانی کے بے دریغ استعمال کی یہی صورت حال برقرار رہی تو 2025ء تک پاکستان پانی کی انتہائی قلت والے ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔ جس سے ملک کو غذائی تحفظ کے حوالے سے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
چاول اور بڑھتی آلودگی
ورلڈ اکنامک فورم کے رپورٹ کہتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چاول کی کاشت جتنا بحران کا شکار ہے اتنا ہی ان تبدیلیوں میں حصہ بھی ڈال رہی ہے۔
پاکستان چونکہ موسمیاتی تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والےملکوں کی فہرست میں شامل ہے اس لیے ماہرین چاول کی کم بارش والے کپاس کے علاقوں میں بڑھتی کاشت پر فکر مند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟
فیصل آباد میں کپاس کے تحقیقاتی ادارے کے سائنسدان جہانزیب احمد بتاتے ہیں کہ جہاں چاول کی کاشت شروع ہوجائے وہاں کپاس کی فصل کا برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔
"چاول، مکئی اور گنے کے علاقوں میں ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے جو کپاس کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اس سے فصل بیماریوں کی زد میں آجاتی ہے۔"
موسمیاتی تغیرات سے متعلقہ امور کے ماہر نصیر اے میمن بھی اتفاق کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک ترین نتائج سے دو چار پاکستان جیسے ملک میں کپاس کی قربانی دے کر چاول کی کاشت ہرگز دانشمندی نہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ کپاس کی کاشت بھی شاید ماحول دوست نہیں لیکن چاول سے کئی گنا بہتر ہے۔ ٹیکسٹائل ویلیو ایڈیشن (دھاگہ، کپڑا، گارمنٹس وغیرہ کی تیاری) سے جڑے ہزاروں کارخانے لاکھوں مزدوروں کو روزگار فراہم کرتے ہیں اور ایک بڑا زرمبادلہ آتا ہے۔
"چاول کی کاشت میں ہمیں سوائے ایکسپورٹ کے اور کوئی فائدہ نہیں جبکہ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ پانی کی قیمت رکھی جائے تو شاید ایک بھی کسان چاول کاشت نہیں کر سکے گا۔"
ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا مجموعی حصہ 24 فیصد ہے جس میں چاول صرف 0.6 فیصد کا حصہ دار ہے۔
نصیر اے میمن کا کہنا تھا کہ کہ ملک میں چاول کو مزید بڑھاوا دینے میں سولرائزیشن کا اہم کردار ہوگا۔
لیاقت علی چٹھہ اتفاق کرتے ہیں کہ کہ جنوبی پنجاب میں 20 فیصد ٹیوب ویل سولر پر شفٹ ہوچکے ہیں۔ اگر ڈیزل اور بجلی مہنگی نہ ہوتی تو آدھے جنوبی پنجاب میں چاول لگ جاتا۔ اب ہر کسان کی کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سولر سسٹم نصب کرلے اور اب تو حکومت نے بھی سولر کی حوصلہ افزائی شروع کر دی ہے۔
تاریخ اشاعت 26 ستمبر 2024