پانچ جولائی کو ضلع شانگلہ کے علاقے مارتونگ کی آسیہ بی بی کا سات سالہ بیٹا نعمت اللہ شام کے وقت یہ کہہ کر گھر سے نکلا کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں اور ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے جا رہا ہے۔ کچھ دیر کے بعد آسیہ بی بی نے زور دار دھماکے کی آواز سنی جس کے ساتھ لوگوں کی چیخ و پکار بھی شروع ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں محلے کا ایک لڑکا بوکھلایا ہوا آسیہ بی بی کے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ نعمت اللہ سمیت کئی بچے ریت کے تودے تلے دب گئے ہیں۔
آسیہ بی بی اپنی ساس اور دیگر خواتین کے ساتھ روتی چیختی گھر سے نکلیں تو لوگ ایک زخمی بچے کو ہسپتال لے جا رہے تھے۔ ادھر ادھر پوچھنے پر جب انہیں پتا چلا کہ ملبے تلے دبے بچوں میں نعمت اللہ بھی شامل ہے تو گویا ان کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔
نعمت اللہ کے والد سید کریم بتاتے ہیں کہ جب وہ جائے حادثہ پر پہنچے تو وہاں نہ تو ریسکیو 1122 کا عملہ تھا، نہ سرکاری مشینری اور نہ ہی کوئی اور مدد موجود تھی۔ گاؤں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایک کر کے بچوں کو ملبے سے نکالا جس میں رات کے ساڑھے دس بج گئے۔ چونکہ علاقے میں ایمبولینس گاڑیاں بھی نہیں تھیں اس لیے لوگوں نے بچوں کو رکشوں کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا۔
یہ واقعہ پورے شانگلہ کیلئے نہایت دل شکن تھا، ایک محلے کے آٹھ اور ایک ہی گھر کے چھ بچے ریت تلے دب گئے تھے۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والے آٹھ بچوں میں سیفور کریم نامی شخص کے چھ پوتے بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 5 جولائی سے پہلے کبھی بھی یہ بچے اس جگہ کھیلنے کیلئے نہیں گئے۔ دو دن پہلے اس جگہ ریت مشین کے ذریعے نکالی گئی تھی جس کے باعث پہاڑی گھاٹی کھوکھلی ہو گئی۔ اسی گھاٹی کے نیچے تازہ ریت پڑی تھی۔ جب بچے اس ریت سے کھیل رہے تھے تو کھوکھلی پہاڑی ٹوٹ کر ان پر آ گری۔
وہ بتاتے ہیں کہ مارتونگ گاؤں کے چاروں طرف آبادیوں کے آس پاس ریت نکالنے کے لیے گہرے گڑھے کھودے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پہاڑوں کو نیچے سے کھوکھلا کیا جاتا ہے جو بعد میں کسی بھی وقت ٹوٹ کر گر جاتے ہیں۔
سیفور کریم نے بتایا کہ انہوں نے کئی بار ریت نکالنے والوں کو منع کیا تھا کہ وہ یہ کام نہ کریں۔ تاہم انہوں نے ایک نہ سنی۔
"پوران کے ٹھیکیداروں نے شاید مارتونگ کی ساری زمین خرید لی ہے اور وہ جہاں جی چاہے کھدائی کر دیتے ہیں۔ ہمارے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر انہوں نے پانچ چھ سو فٹ تک گہرے گڑھے کھود رکھے ہیں۔ ان کے ایک جانب گاڑی گزرنے کے لیے بمشکل جگہ بچی ہے جہاں سے کوئی بھی گڑھوں میں گر سکتا ہے اور سکول کے بچوں کو اس سے خاص طور پر خطرہ ہے۔
سیفور کریم آبدیدہ ہو کر کہتے ہیں کہ جہاں ملبہ گرا تھا اُس جگہ سے چند فٹ کے فاصلے پر بچوں کی قبریں بنا دی گئی ہیں۔ بچے تو چلے گئے مگر اب اس مسئلے کا کوئی حل نکلنا چاہیئے۔
مارتونگ کے مقامی مشر شجاعت علی خان کہتے ہیں کہ برسوں سے اس علاقے میں ہر جگہ غیرقانونی طور پر ریت اور بجری نکالی جا رہی ہے مگر آج تک محکمہ معدنیات کے کسی اہلکار کو اس کے خلاف کارروائی کرتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ صدیوں پرانے قبرستان بھی ان سے محفوظ نہیں۔ جہاں حادثہ ہوا اُسی جگہ قبرستان کو نقصان پہنچا کر کھدائی کی گئی اور پھر اگلے روز ہی بچے ریت کے پہاڑ تلے دب گئے۔
خیبر پختونخوا معدنیات آرڈیننس 2017 کے سیکشن 56 کے مطابق غیر قانونی کان کنی پر چھ ماہ سے لیکر پانچ سال تک قید اور 20 لاکھ تک جرمانہ لگ سکتا ہے۔
اس قانون کےسیکشن 78 کے مطابق معدنیات والی زمین کو اس کا مالک بطور جائیداد نجی طور پر عمارات کی تعمیر اور فصل اُگانے کیلئے استعمال کرسکتا ہے۔ مگر اسے تجارتی طور پر استعمال کرنے کے لیے ڈی جی معدنیات سے اجازت لینا ضروری ہے اور ایسی کانوں کو حکومت لیز پر دینے کیلئے ٹینڈر جاری کرتی ہے۔ مائننگ کیلئے مختص جگہ پر کوئی تعمیراتی کام بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سیکشن 35 کے مطابق کسی بھی ایسے لیز کا لائسنس جاری نہیں کیا جائیگا جو آبادی، 132 کے وی ہائی ٹرانسمیشن لائن، ریلوے لائن، آرکیالوجی سائیٹس، سڑک اور عمومی آمدورفت کے قریب ہو۔ اگر کان کنی کا مقام ایسے علاقوں سے 500 میٹر کے فاصلے پر نہ ہو تو ایسی جگہ ہر قسم کی کان کنی پر پابندی ہے۔
کوزکلے کے رہنے والے محنت کش بختیار خان اس حادثے کے بعد اپنے بچوں اور خاندان کیلئے فکرمند ہیں۔ جائے حادثہ پر جہاں کھدائی کی گئی ہے اس کے قریب ان کا گھر بھی خطرے کی زد میں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے بچے سکول جاتے ہیں اور بارش کے دوران سڑک کے اُوپر اور نیچے دونوں اطراف سے پھسلنے کا خطرہ رہتا ہے۔ جب تک اُن کے بچے گھر نہیں پہنچتے خوف دامن گیر رہتا ہے۔
بختیار نے بتایا کہ انہوں نے ریت اور بجری کے لیے کھدائی کرنے والے ٹھیکیداروں کو کئی بار اپنے خدشات سے آگاہ کیا ہے لیکن ان کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرے۔
محمد جان کا گھر بھی جائے حادثہ سے تقریباً پچاس فٹ فاصلے پر واقع ہے۔ بختیار کی طرح انہیں بھی خدشہ ہے کہ اگر نیچے سے مزید کٹائی کی گئی تو اُن کے گھر اور اہلخانہ کو نقصان پہن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سرخ پہاڑی کے دامن میں موت کی کالی پرچھائیں: 'کرک میں یورینیم کی کان کنی سے مقامی آبادی میں کینسر پھیل رہا ہے'۔
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شانگلہ حسن عابد کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جہاں یہ حادثہ پیش آیا وہ زمین نجی ملکیت میں ہے اور اس جگہ کھدائی بھی اس کے مالکان نے کی جن کے پاس انتظامیہ اور محکمہ معدنیات کی طرف سے دیا گیا کوئی اجازت نامہ نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے کسی کو کان کنی کے لیے کسی طرح کا این او سی جاری نہیں کیا۔ ایسے واقعات پر قانونی اور تادیبی کارروائی کرنے کی ذمہ داری شانگلہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر معدنیات کی ہے۔ انہوں ںے کہا کہ اس واقعے کے حوالے سے مزید تحقیقات بھی کی جائیں گی اور معاملے کو تمام زاویوں سے دیکھا جائے گا۔
اس نمائندے نے محکمہ معدنیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے تین روز تک کئی مرتبہ رابطے کی کوششیں کیں لیکن انہوں نے کوئی بات کرنے سے گریز کیا۔
تاریخ اشاعت 12 اگست 2023