گنے کے واجبات کی مسلسل عدم ادائیگی: کسانوں کو شکر گنج شوگر مِل پر اعتبار نہیں رہا۔

postImg

آصف ریاض

postImg

گنے کے واجبات کی مسلسل عدم ادائیگی: کسانوں کو شکر گنج شوگر مِل پر اعتبار نہیں رہا۔

آصف ریاض

جھنگ سے چودہ کلومیٹر جنوب کی طرف بھکر روڈ پر ایک چھوٹا سا بس اڈا ہے جہاں درجن بھر دکانیں ہیں۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں یہاں غیر معمولی چہل پہل نظر آ رہی ہے۔ بہت سے مزدور قریب ہی نصب ایک کنڈے پر گنا تول رہے ہیں اور پھر اسے چھوٹی ٹرالیوں سے اتار کر بڑے ٹرالروں میں لاد رہے ہیں۔ کچھ کسان کنڈے کے مالک کے گرد جمع ہیں اور اس سے بھاؤ تاؤ میں مصروف ہیں۔

محمد رمضان سیال نامی پچپن سالہ کسان خاکی کھیس اوڑھے اس سرگرمی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ کنڈے سے کچھ دور سڑک کنارے پڑی ایک چار پائی پر بیٹھ جاتے ہیں اور بے چینی کے عالم میں کبھی اپنی سفید داڑھی کھجاتے ہیں اور کبھی چارپائی کے پائے کے اوپر والے سرے پر ہاتھ پھیرنے لگتے ہیں۔

جب بھی کوئی کسان کنڈے کے مالک سے اپنی فصل کی قیمت طے کر کے سڑک کی طرف آتا ہے تو وہ بھاگ کر اس کے پاس جاتے ہیں اور اس سے مختصر سی بات کر کے دوبارہ چارپائی پر آ بیٹھتے ہیں۔

بیٹھے بیٹھے وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے ہیں 'ڈاڈھے مالک نے پتا نئیں سانوں کیہڑے گناہاں دی سزا دے چھڈی ہا' (معلوم نہیں خدائے عِز و جل نے مجھے کن گناہوں کی سزا دی ہے)۔ 

محمد رمضان سیال دو ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں اور اڈے کے قریب ہی ایک بستی میں اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا گھر اور زمین دریائے چناب اور جھنگ شہر کو دریا میں آنے والے سیلاب سے بچانے کے لئے بنائے گئے بند کے درمیانی علاقے میں واقع ہے (جسے مقامی زبان میں ہِٹھاڑ یا نیچی زمین کہتے ہیں)۔ ہر سال گرمیوں میں جب چناب میں سیلاب آتا ہے تو اس زمین پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ گنا واحد فصل ہے جس پر اس پانی کا منفی اثر نہیں ہوتا کیونکہ ایک طرف تو اس کی لمبائی اسے پانی میں ڈوبنے سے بچاتی ہے اور دوسری طرف اس کو ویسے ہی زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس سال بھی ہِٹھاڑ میں ہر طرف گنے کے کھیت نظر آتے ہیں جن میں سے ایک ایکڑ کا ایک کھیت محمد رمضان سیال کا ہے۔

پچھلے سال بھی انہوں نے اتنا ہی گنا کاشت کیا تھا جسے انہوں نے جھنگ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے والی سڑک پر واقع گنج شکر شوگر مل کو فروخت کیا تھا۔ یہ مِل کریسنٹ گروپ آف کمپنیز کی ملکیت ہے جس کے سربراہ سلیم الطاف جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں نِج کاری کے وفاقی وزیررہ چکے ہیں۔

محمد رمضان سیال کے پاس گنے کی فروخت کی رسید (جسے سی پی آر کہا جاتا ہے جو در حقیقت کین پرچیز رسیپٹ کا مخفف ہے) موجود ہے۔ اس کے مطابق ان کے فروخت کردہ گنے کی قیمت ایک لاکھ 30 ہزار روپے بنی تھی۔

لیکن جب وہ سی پی آر لے کر بینک سے پیسے لینے کے لیے گئے تو انہیں ادائیگی نہیں کی گئی۔
اس بات کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔  اس دوران انھوں نے پیسے لینے کے لیے مقامی سیاستدانوں کے ڈیروں اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کے لا تعداد چکر لگائے ہیں لیکن کہیں بھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔

ان کے بقول رقم کی عدم ادائیگی نے میری اور میرے خاندان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب میں سکون کی نیند سویا ہوں'۔
شکر گنج شوگر مل نے مشینری میں خرابی کا کہہ کر کرشنگ تاخیر سے شروع کی۔

ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ جو گنا انہوں نے مل کو بیچا اس کو اگانے کے لئے انہوں نے کھاد اور کیڑے مار ادویات ادھار خریدیں۔ حتیٰ کہ جس ٹرالی کے ذریعے انہوں نے گنا کھیت سے مِل منتقل کیا اس کا کرایہ بھی کسی سے قرض لیا۔ ان کا کہنا ہے 'یہ سارے قرض خواہ جب میرے دروازے پر اپنا پیسہ واپس مانگنے آتے ہیں تو میں ایسے خوفزدہ ہو جاتا ہوں جیسے میں نے کوئی جرم کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پولیس مجھے پکڑنے آ گئی ہے'۔

اس خوف نے انہیں دل کا مریض بنا دیا ہے۔

پچھلے ایک سال میں انہیں دو بار دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ چار مہینے پہلے جب انہیں دوسرا دورہ پڑا تو انہیں علاج کے لئے فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں آٹھ دن کے لئے داخل ہونا پڑا جس کی وجہ سے ان پر چالیس ہزار روپے مزید قرض چڑھ گیا۔

کچھ فوری نوعیت کے قرضے اتارنے کے لئے انہیں اپنی ایک گائے سستے داموں فروخت کرنا پڑی۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس جو دو بھینسیں بچی ہیں ان کا دودھ بیچ کر اور روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ میرا تو کوئی بیٹا بھی نہیں ہے جو شہر جا کر مزدوری کر لے جس سے ہمارا گھر چل سکے'۔

جب پنجاب حکومت نے اعلان کیا کہ صوبے میں موجود شوگر ملیں اس سال 15 نومبر سے گنے کی کرشنگ (crushing) شروع کریں گی تو محمد رمضان سیال گنج شکر شوگر مل کی انتظامیہ سے ملے جس نے انہیں بتایا کہ مِل کی مشینری میں کچھ مسئلہ ہے جس کے باعث اسے حکومت کی اعلان کردہ تاریخ کو نہیں چلایا جا سکتا۔ تاہم انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ مسئلہ جلد ٹھیک کر لیا جائے گا اور دس پندرہ دن کے اندر مِل چل جائے گی لہذا وہ اس سال بھی اپنا گنا یہیں لا کر بیچیں۔

لیکن اس بات کو 25 دن گزرنے کے بعد بھِی مِل نہ چل سکی۔ وہ کہتے ہیں: 'جیسے جیسے مل چلنے میں تاخیر ہو رہی تھی میری بے چینی بڑھ رہی تھی'۔

اگرچہ ان کے علاقے میں کئی تاجر کنڈے لگا کر مقامی کسانوں سے دوسری ملوں کے لئے گنا خرید رہے ہیں لیکن محمد رمضان سیال کو ڈر ہے کہ اگر انہوں نے اپنا گنا کسی دوسری مِل کو بیچا تو وہ گنج شکر شوگر مل سے اپنے پیسے کبھی واپس نہیں لے پائیں گے۔   

ان کی بیٹی ان سے کہتی ہے کہ وہ مِل میں پھنسے ہوئے پیسوں کو بھول جائیں اور اس کے بجائے موجودہ فصل کو اچھی قیمت پر بیچنے کی کوشش کریں۔ اسی لئے وہ کنڈے پر آ کر گنے کی قیمت کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ اس صورت میں انہیں کیا نفع کیا نقصان ہو سکتا ہے۔

ابھی تک وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پائے۔ 'کبھی میں سوچتا ہوں پچھلے پیسوں کو بھول کر یہیں پر اپنا گنا بیچ دوں لیکن جن لوگوں سے میں نے قرض لیا ہے وہ بار بار مجھے ان پیسوں کی یاد دلاتے ہیں'۔ 

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

جھنگ-فیصل آباد روڈ پر واقع 450 ج ب نامی گاؤں کے رہنے والے شبیر احمد ایک بڑے زمیندار ہیں جو ہر سال 70 سے 80 ایکڑ زمین پر گنا اگاتے ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے بھی گنج شکر شوگر مل کو گنا بیچا تھا جس کی کل قیمت میں سے ابتدائی طور پر مِل نے انہیں 50 لاکھ روپے کی ادائیگی نہیں کی تھی۔

بعد ازاں انہوں نے 45 لاکھ روپے واپس لے لئے لیکن اس کے لیے انہیں جھنگ کے بڑے سیاستدانوں سے مدد لینا پڑی-

مِل کی انتظامیہ کسانوں کے واجبات اور کرشنگ میں تاخیر پر بات کرنے سے کتراتی ہے۔ متعدد رابطوں کے باوجود اس کے کسی اعلیٰ عہدے دار نے سجاگ سے بات نہیں کی۔
تاہم اس کے ایک درمیانے درجے کے ملازم محمد وصی اصغر کا کہنا ہے کہ  پیر 14 دسمبر سے مِل کے ذمے کسانوں کی واجب الادا رقموں کی ادائیگی شروع ہو جائے گی-

لیکن کسانوں کو یہ ادائیگی اسی صورت میں ہو سکے گی اگر مِل فوری طور پر گنے کی کرشنگ کا آغاز کرے اور اگلے تین ماہ تک مسلسل چلتی رہے۔

محمد وصی اصغر دعویٰ کرتے ہیں کہ مِل تو 15 نومبر سے ہی چل رہی ہے حالانکہ حقیقت میں یہ دس دسمبر تک بھی نہیں چلی تھی۔ سجاگ کی طرف سے اس امر کی نشان دہی کرنے پر محمد وصی اصغر کہتے ہیں کہ '15 نومبر کو دراصل ایک افتتاحیہ تقریب منعقد کی گئی تھی لیکن چونکہ مِل کی مشینری مِل میں گنے کی آمد کے بعد ہی چلائی جا سکتی ہے اس لئے اس میں کچھ دیر ہو گئی ہے'۔

مِل نے اگرچہ بالآخر جمعہ گیارہ دسمبر کو گنے کی کرشنگ کا آغاز کر دیا لیکن اب کسان اسے گنا بیچنے میں ہچکچا رہے ہیں۔

شبیر احمد  کے بقول، مل والوں نے پچھلے سال کسانوں کو اتنا پریشان کیا تھا کہ اس بار کوئی کسان انہیں گنا بیچنے کو تیار نہیں ہے حالانکہ، ان کے مطابق، اب مِل ملازمین کاشت کاروں کی منتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں: 'میرے پاس بھی چار دن پہلے مل کا ایک ملازم آیا تھا جس   کے شدید اصرار پر میں نے تین ٹرالیاں گنا گنج شکر شوگر مل کو بھیجا ہے جبکہ باقی گنا میں ایک اور مل کو بیچ رہا ہوں'۔

ان کے مطابق اس سال زیادہ تر وہی کسان اس مِل کو اپنا گنا بییچیں گے جن کے پیسے اس کے ذمے واجب الادا ہیں۔ ان کسانوں کا خیال ہے کہ اس طرح شاید وہ اپنی پچھلی رقم کی ادائیگی بھی یقینی بنا سکیں۔

کاشت کاروں کی ایک تنظیم، پاکستان کسان بورڈ، کے جھنگ کے ضلعی صدر حاکم علی سیال اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر کہتے ہیں کہ اگرچہ کچھ کسان مِل میں گنا لے کر آ رہے ہیں لیکن ان کی تعداد پچھلے سالوں کی نسبت بہت کم ہے۔ ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسانوں کو مِل انتظامیہ پر اعتبار نہیں رہا۔

کوئی مِل گنا خریدنے کے پندرہ دن بعد کسانوں کو پیسے ادا نہ کرے تو اسے اصل قیمت کے ساتھ گیارہ فیصد اضافی رقم دینا ہوتی ہے لیکن شکر گنج مل سے کسانوں کو ان کی اصل رقم بھی نہیں ملی۔

حاکم علی سیال کو مِل ملازمین کے وعدوں پر اب بھی یقین نہیں۔ ان کے بقول 'پچھلے ایک سال سے جب بھی مِل کے کسی ملازم سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ بس تھوڑے ہی دنوں میں پیسے دے دیں گے یہاں تک کہ اسسٹنٹ کمشنر جھنگ کے ساتھ بھی ایسے ہی وعدے کیے جاتے رہے'۔

جھنگ کے اسسٹنٹ کمشنر قاسم گل بھی کہتے ہیں کہ مِل نے پچھلی بار کسانوں کو پیسے دینے میں جو تاخیری حربے استعمال کیے ان کی وجہ سے کسان دوبارہ اسے گنا بیچنے کو تیار نہیں۔ مزید برآں 'اس بار گنے کی فصل پچھلے سالوں کی نسبت کم بھی ہے اور جھنگ میں واقع دوسری شوگر مِلیں کسانوں کو گنے کی بہتر قیمت بھی دے رہی ہیں اس لیے شکر گنج شوگر مِل کو گنا خریدنے میں دشواری پیش آ رہی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کھاد پر امداد دینے کا پیچیدہ سرکاری طریقہ کار: پریشان حال کسان سبسڈی کے ٹوکن فروخت کرنے پر مجبور۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ جھنگ کی ضلعی انتظامیہ نے بہت سے کسانوں کو مل انتظامیہ سے پیسے واپس لے کر دیے ہیں جس کی وجہ سے مِل کے ذمے واجب الادا رقم 40 کروڑ روپے سے کم ہوتے ہوتے چھ ماہ پہلے 10 کروڑ روپے رہ گئی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال ضلعی انتظامیہ نے ' مل کو واضح طور پر بتا دیا ہے کسانوں کو پچھلے اور اس بار کے پیسے فی الفور ادا کیے جائیں۔ جیسے ہی اس ضمن میں کوئی شکایت موصول ہو گی تو اس پر قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے گا'-

لیکن کئی مقامی کسان سمجھتے ہیں کہ مِل والے اکثر ضلعی انتظامیہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جھنگ سرگودھا روڈ پر واقع گاؤں چونڈ بھروانہ کے کسان غلام محمد کہتے ہیں کہ کریسنٹ گروپ ہی کی ایک دوسری شوگر مِل نے ان کے سات لاکھ 96 ہزار روپے دینے ہیں لیکن اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے مِل کو اس کے بارے میں لکھے گئے ایک خط کے باوجود انہیں یہ رقم نہیں مِلی۔

ایک ہفتہ پہلے انہوں نے وزیر اعظم شکایت سیل کو بھی ایک درخواست بھیجی ہے۔ اب وہ منتظر ہیں کہ 'وہاں سے کب جواب آتا ہے'-

غلام محمد شوگر مِلوں سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کا ذمہ دار ضلعی انتظامیہ کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'شوگر ایکٹ 2020 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر کوئی مِل بر وقت نہیں چلے گی تو اسے  جرمانہ کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی مِل گنا خریدنے کے پندرہ دن بعد بھی کسانوں کو پیسے ادا نہیں کرتی تو اسے اصل قیمت کے ساتھ گیارہ فیصد اضافی رقم دینا ہوتی ہے لیکن یہاں تو حالات یہ ہیں کہ کسانوں کو ان کی اصل رقم بھِی نہیں مل رہی'۔

پنجاب میں گنے کی خرید و فروخت پر نظر رکھنے والے سب سے اعلیٰ سرکاری افسر صوبے کے کین کمشنر میاں زمان وٹو ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ اس بات کی تحقیق کروائیں گے کہ گنج شکر شوگر مِل میں اس سال گنے کی کرشنگ کا آغاز حکومت کی طرف سے اعلان کردہ تاریخ سے 25 دن بعد کیوں ہوا۔ ان کے مطابق 'اس تحقیق میں عیاں ہو جائے گا کہ مِل گنے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بند ہے یا پھر مِل انتظامیہ کی اپنی من مرضی کی وجہ سے۔ اگر اسے من مرضی سے بند رکھا گیا ہے تو پھر مِل انتظامیہ کے خلاف قانون کے مطابق سخت سے سخت ایکشن لیا جائے گا'۔

میاں زمان وٹو کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے سال کسانوں کو ان کی فصل کے پیسے نہ دینے پر اس مِل کے خلاف دو مقدمات درج کئے گئے لیکن اسکی انتظامیہ نے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے اپنے خلاف متوقع کارروائی کو رکوا دیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ 'بہت جلد عدالت کی مدد سے یہ رکاوٹ ہٹا کر نا صرف کسانوں کو ان کے پیسے دلائے جائیں گے بلکہ ان کی ادائیگی میں تاخیر کی بنیاد پر مِل کے ذمے نکلنے والے اضافی واجبات کی بھی کسانوں کو ادائیگی یقینی بنائی جائے گی'۔

کچھ کسان مِل میں گنا لے کر آ رہے ہیں لیکن ان کی تعداد پچھلے سالوں کی نسبت بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسانوں کو مِل انتظامیہ پر اعتبار نہیں رہا۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 6 جنوری 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 12 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.