سیکنڈ ائیر کی طالبہ لبنیٰ (فرضی نام) ایک پرائیویٹ اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھنے کے لیے روزانہ شام کے وقت پانچ کلومیٹر فاصلہ طے کر کے اپنے گاؤں سے بھکر شہر آتی ہیں۔ وہ یہ سفر رکشے پر کرتی ہیں جس میں ان کے ساتھ پانچ دیگر طالبات بھی ہوتی ہیں۔
ایک سال پہلے محلہ لعل درویش کے چند اوباش نوجوانوں نے ان کے رکشے کا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔ یہ نوجوان ان پر جملے کستے اور ہراساں کرتے تھے۔ لبنیٰ اور ان کی ساتھی طالبات ایک سال تک خاموشی سے یہ سب کچھ جھیلتی رہیں۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر انہوں نے اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بتایا تو وہ انہیں پڑھائی سے روک دیں گے۔
لبنیٰ کہتی ہیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ اور اسی لیے وہ روزانہ کالج اور اکیڈمی کئی کلومیٹر کا سفر طے کر کے دو بار بھکر شہر آتی جاتی ہیں۔ تاہم یہ کٹھن سفر ان اوباش نوجوانوں نے ان کے لیے مزید اذیت ناک بنا دیا۔
"ایک دن ان اوباشوں نے ریلوے کراسنگ پر رکشے کو روک کر ہمیں زبردستی نیچے اتارا اور ہمارے ساتھ دست درازی شروع کردی جس سے ہمارے سروں سے دوپٹے اتر گئے اور ہماری چادریں پھٹ گئیں۔"
مقامی کالج کے لیکچرار عبدالعزیز انجم بہل روڈ جنوبی ریلوے کراسنگ کے قریب رہتے ہیں۔ انہوں نے اس نمائندے کو بتایا کہ وہ شور کی آواز سن کر ریلوے کراسنگ کے قریب پہنچے تو افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا۔ اوباش نوجوانوں کا گینگ طالبات سے نازیبا حرکات اور غیر اخلاقی جملے بازی کر رہا تھا۔ طالبات کے شور مچانے پر راہگیر اور قریبی آبادی کے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔
"پانچ نوجوانوں میں سے ایک کو لوگوں نے پکڑ لیا اور پولیس ایمرجنسی ہیلپ لائن پکار 15 پر کال کی۔ صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھانہ سٹی کے اہلکار تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد پہنچے۔"
وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعے کی اطلاع شہر میں پھیل گئی۔ بڑی تعداد میں شہری جنوبی ریلوے کراسنگ پر پہنچ گئے اور روڈ بلاک کر کے احتجاج شروع کر دیا۔ دو گھنٹے جاری رہنے والا احتجاج ایس پی انویسٹی گیشن محمد اکرم نیازی کی اس یقین دہانی پر ختم ہوا کہ ملزموں کے خلاف مقدمہ درج ہوگا اور انہیں گرفتار کیا جائے گا۔
جنڈانوالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی پرنس امان اللہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات میں خواتین اور طالبات کے تحفظ کے لیے اہل خانہ کی سپورٹ بہت اہم ہوتی ہے۔ بچیوں کو طاقت ور بنانے کے لیے والدین کو انہیں اعتماد دینا ہو گا۔ اگر معاشرے سے ایسے واقعات کا قلع قمع کرنا اور ایسے عناصر کو قرار واقعی سزا دلانا ہے تو والدین کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آواز اٹھانے سے ان کی عزت پر کوئی حرف آئے گا۔
انہوں نے نویں کلاس کی ایک طالبہ کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ چند ماہ قبل تھانہ جنڈانوالہ کی حدود میں ایک پرائیویٹ سکول کا استاد اپنی طالبہ کو ہراساں کرتا تھا۔ ایک شہری نے بچی کو ہراساں کیے جانے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی اور ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ پولیس نے اس ٹیچر کو گرفتار کر لیا لیکن چند ہی روز کے بعد ملزم رہا ہو گیا کیونکہ متاثرہ بچی کے والدین نے سامنے آنے اور ملزم کے خلاف قانونی کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔
شیخ محمد اورنگزیب ایڈووکیٹ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بھکر کے سابق جنرل سیکرٹری ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کی بھکر میں خواتین اور طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ لوگوں کی جانب سے ایسے واقعات کی پردہ پوشی اور پولیس کی مؤثر کارروائی نہ ہونا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال میں متعدد ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں صرف دو میں مقدمات درج ہوئے۔ ہراسانی کے زیادہ تر واقعات میں یا توخواتین اپنے گھر والوں کو آگاہ نہیں کرتیں یا پھر گھر کے بڑے 'بے عزتی' کے ڈر سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس سے ہراساں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ سکولوں اور کالجوں کے اوقات اور شام میں پولیس کے مؤثر گشت کا انتظام کیا جائے۔ اس سے بالخصوص طالبات کو تحفظ کا احساس ہو گا۔ انہوں مزید کہا کہ شہر کے مختلف مقامات پر لیٹر بکس نصب کرنے چاہئیں جن کے ذریعے خواتین سامنے آئے بغیر اپنی شکایات پولیس تک پہنچا سکیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد نوید کا کہنا ہے کہ ریلوے کراسنگ پر پیش آنے والے واقعے کا علم ہوتے ہی انہوں نے ایس پی انویسٹی گیشن محمد اکرم نیازی کو جائے وقوعہ پر بھیجا اور اوباش لڑکوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کرنے کے ساتھ تھانہ سٹی پولیس کے دیر سے پہنچنے کی وجوہات معلوم کرنے کو کہا۔ اس پر فوری انکوائری کی گئی اور یہ بات سامنے آئی کہ 15 پر موصول ہونے والی کال میں جائے وقوعہ جیل روڈ بتائی گئی جس پر فوری رسپانس کرتے ہوئے ایس ایچ او تھانہ صدر بتائے گئے مقام پر پہنچے مگر وہاں ایسا کوئی واقعہ رونما ہونے کے شواہد نہ ملے۔
اس کے بعد تھانہ سٹی سے ایس ایچ او کی نگرانی میں ایک ٹیم جنوبی ریلوے کراسنگ پہنچی۔ پولیس نے فوری کارروائی کی اور تھانہ سٹی میں نہ صرف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اب تک دو ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دیگر ملزموں گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
قبائلی اضلاع میں بڑی تعداد میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کیوں سامنے آنے لگے ہیں؟
سالہ شازیہ (فرضی نام) مقامی ہوٹل میں بطور ویٹر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد جسمانی معذوری کے باعث کام نہیں کر سکتے جبکہ ایک چھوٹی بہن زیر تعلیم ہے۔
گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے ہوٹل میں ملازمت کی جس کے ساتھ وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں ہوٹل کے عملے اور مالکان سے بھی کوئی شکایت نہیں رہی مگر ان کے ساتھ گاہکوں کا سلوک کچھ اچھا نہیں ہے۔ 20 اگست کو ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے آنے والے چند گاہکوں ںے ان پر جملے کسے اور ان کے جسمانی خدوخال کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔ انہوں نے ہوٹل کے مالک سے اس کی شکایت کی اور جب انتظامیہ نے ان گاہکوں کو اس رویے سے روکا تو انہوں نے لڑائی جھگڑا شروع کر دیا اور ساتھیوں کو بلا کر ہوٹل میں توڑ پھوڑ کی۔
شازیہ کا کہنا ہے کہ ہوٹل مالک نے انہیں پولیس میں رپورٹ کرنے کو کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے مزید مسائل کا سبب بن سکتا تھا۔
اس کے بعد ہوٹل مالک نے شازیہ کو ہراساں کرنے اور ہوٹل میں توڑ پھوڑ کرنے پر تین نامزد اور 10 نامعلوم افراد کے خلاف تھانہ صدر بھکر میں مقدمہ درج کروایا ہے جس پر تفتیش جاری ہے۔
تاریخ اشاعت 30 اگست 2023