انتیس اپریل کی صبح ریسکیو 1122 کے ساتھ پولیس کی گاڑیاں آتے دیکھ کر بستی عزیز آباد کے رہائشی گھروں سے باہر نکل آئے۔
گاڑیاں غلام عباس کے گھر رکیں اور وہاں اس کے نو سالہ بھتیجے 'غ' کو ریسکیو ٹیم نے فوری طبی امداد فراہم کی۔اس کے بعد بچے کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خانیوال منتقل کر دیا گیا۔
'غ' کے ماموں اور اہل محلہ نے پولیس کو بتایا کہ بچہ مدرسے میں حفظِ قرآن کا طالب علم ہے۔ اس کا استاد قاری حذیفہ اور اس کا ساتھی عمران اسے گھر چھوڑنے آئے تھے۔ گھر والوں کے پوچھنے پر قاری نے کہا کہ بچے کی طبیعت خراب ہے، آپ دو ہزار روپے رکھیں اور اس کا علاج کرائیں۔
پولیس نے بچے کا طبی معائنہ کرایا تو ڈاکٹر نے رپورٹ میں لکھا کہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔
ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوشن برانچ خانیوال کے مطابق اس زیادتی کیس کا پولیس چالان مکمل ہو کر عدالت میں جمع ہو چکا ہے۔ چالان کے مطابق ملزم سے جرم سرزد ہوا ہے اور متاثرہ بچے کی میڈیکل رپورٹ میں بھی زیادتی کے شواہد موجود ہیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے جنسی زیادتی کے مجرم کی شناخت کے لیے نمونہ لاہور کی لیبارٹری بھیج دیا گیا جس کے نتائج آنے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں۔
بچے کے چچا غلام عباس کی مدعیت میں تھانہ سٹی خانیوال نے ایف آئی آر نمبر 399/23 زیر دفعہ 376 درج کر کے ملزم قاری حذیفہ اور عمران کو گرفتار کر لیا ہے۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن خانیوال کے سابق جنرل سیکرٹری اور قانون دان چوہدری محمد ہارون نے لوک سجاگ کو بتایا کہ میل ٹو میل سیکس سے متعلق مقدمات میں پہلے دفعہ 377 لگتی تھی لیکن 2021ء میں ترمیمی ایکٹ آ گیا۔ اس کے مطابق اب دفعہ 376 لگائی جاتی ہے جو ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامہ ہے۔
"دفعہ 376 کا سماعت اختیار سیشن کورٹ کے پاس ہے۔اس کی زیادہ سے زیادہ سزائے موت یا عمر قید ہے اور کم سے کم 10 سال ہے"۔
تحصیل میاں چنوں، تحصیل جہانیہ اور تحصیل کبیروالا سمیت پورے ضلع خانیوال کی سیشن کورٹس میں دفعہ 376 کے تحت درج کل 177 مقدمات زیر سماعت ہیں۔
ان میں سے 22 مقدمات رواں سال عدالتوں میں آئے۔چھ مقدمات جھوٹے ثابت ہونے پر خارج ہو چکے ہیں۔
شہادتیں نہ ملنے کی وجہ سے تین مقدمات داخل دفتر ہو چکے ہیں۔ 21 مقدمات میں ملزمان بری ہو چکے ہیں اور ایک مقدمے میں ملزم کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔
دفعہ 377 کے تحت کل 154 مقدمات درج ہوئے ان میں سے دو مقدمات رواں سال میں عدالتوں میں آئے ہیں۔
آخر مساجد اور مدارس میں بچے محفوظ کیوں نہیں؟
اتحاد بین المسلمین کمیٹی اور امن کمیٹی خانیوال کے ممبر صاحب زادہ میاں محمد اجمل عباس نے واقع کے بعد پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ بچے سے زیادتی کی خبر میں صداقت نہیں۔ بقول ان کے اسے کانچ نام کی بواسیری بیماری ہے جس کے باعث خون آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کرانے والا فریق مدرسے کو بلیک میل کر رہا ہے اور قاری حذیفہ سے پیسے بٹورنا چاہتا ہے۔
دارالعلوم عیدگاہ کبیروالا کے مہتمم مولانا مفتی ارشاد کا کہنا ہے کہ جن مدارس میں نگرانی اور تربیت کا فقدان ہو وہاں اس طرح کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ تاہم کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر تمام مساجد اور مدارس کے بارے میں منفی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
اہل علاقہ رانا عمران اور رانا نوید نے بتایا کہ قاری حذیفہ پر بچوں سے جنسی زیادتی کے الزامات پہلے بھی لگ چکے ہیں۔
"پہلے صلح صفائی اور معافی تلافی ہو جاتی تھی۔ پہلی دفعہ معاملہ پولیس کے پاس گیا ہے۔"
قاری حذیفہ کے والد سیشن کورٹ خانیوال کی مسجد کے پیش امام ہیں۔ انہی کی نگرانی میں 2014ء میں مذکورہ مدرسہ قائم کیا گیا تھا۔
ضلع خانیوال میں دینی مدارس کی کل تعداد 520 ہے اور وہاں 32 ہزار 400 بچے زیر تعلیم ہیں۔
غریب، بے سہارا بچے: آسان ہدف
خانیوال کی نواحی بستی عزیز آباد میں دو کمروں پر مشتمل آٹھ مرلے کا عام سا مکان دو بھائیوں غلام محمد اور غلام عباس کی مشترکہ ملکیت ہے۔ والدہ کی وفات کے بعد متاثرہ بچہ اور اس کے تینوں بھائی اپنے چچا غلام عباس کی کفالت میں آ گئے۔ ان کے والد غلام محمد کی ذہنی حالت درست نہیں ہے۔
متاثرہ بچے نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ بستی حمایت آباد میں قائم مدرسہ جامع الحبیب میں زیر تعلیم تھا جہاں کل 15 بچے زیر تعلیم ہیں۔اس نے قرآن پاک کے پانچ سپارے حفظ کر رکھے ہیں اور چھٹا سپارہ پڑھ رہا تھا۔
غلام عباس کہتے ہیں: "میرے اپنے بھی چار بچے ہیں۔ میں مزدوری کرتا ہوں اور بیوی گھر میں جانور پالتی ہے۔ میں نے اپنے بھائی کے دو بچوں کو ڈیڑھ سال قبل اس امید پر مدرسے میں داخل کرایا تھا کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں گے۔ "اس واقعے کے بعد میرا پورا خاندان ذہنی اذیت کا شکار ہے۔"
سابق ممبر ضلع کونسل خانیوال اور سماجی رہنما بسم اللہ ارم نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدارس میں ایسے بچے آسان ہدف ہوتے ہیں جو غریب یا یتیم ہوں یا جن کی خبرگیری کرنے والا کوئی نہ ہو۔ بظاہر یہ اس کے کیس میں یہی ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدرسوں کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔
بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ کسی بھی غیرشائستہ حرکت یا استاد کے غیر معمولی رویے سے اپنے گھر والوں کو آگاہ کریں۔ اس موضوع پر تعلیمی اداروں میں بھی بات چیت ہونی چاہیے۔
'اگر ڈی این اے میچ ہو گیا تو ملزمان سزا سے نہیں بچ سکیں گے'
ڈی پی او خانیوال رانا عمر فاروق نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ اس واقعہ کو اہمیت دے رہے ہیں۔ پولیس نے وقوعہ کے بعد ایک گھنٹے میں ملزم گرفتار کر لیے تھے۔ طبی معائنے میں جنسی زیادتی ثابت ہوگئی ہے۔ اگر ڈی این اے میچ ہو گیا تو ملزمان سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات: ملزموں کو معاف کرنے کے لیے لواحقین پر کس قِسم کا دباؤ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2019ء میں پنجاب حکومت کے ایک حکم کی روشنی میں تمام چھوٹے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی تھی جس کے بعد اس مدرسے کی تجدید نہیں ہوئی۔
تیرہ فروری 2023ء کو خانیوال کے تھانہ مخدوم پور پہوڑاں میں ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔ اس کے مدعی (ر) نے بتایا کہ اس نے اپنی سات سالہ بچی کو قرآن پاک کی تعلیم دلانے کے لیے اپنے گھر پر ایک حافظ کی خدمات حاصل کیں لیکن اس نے بچی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔
"بچی نے شکایت کی تو ہم نے اس کمرے میں خفیہ کیمرہ لگوایا۔ حقائق جاننے پر ہم نے مقدمہ درج کروایا۔ ملزم اب جیل میں ہے اور ہمیں امید ہے کہ عدالت اسے سزا سنائے گی"۔
تاریخ اشاعت 16 جون 2023