"اگر گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج سردار پور کی تعمیر بروقت مکمل ہو جاتی تو اب میں چکی پر کام کرنے کے بجائے ایف ایس سی سیکنڈ ایئر کاامتحان دے رہا ہوتا"۔
یہ کہتے ہوئے شیخ خلیل احمد کی آنکھوں میں مایوسی بھی تھی اور اداسی بھی۔ ان کی عمر 23 برس ہے اور وہ پڑھ لکھ کر اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ وہ شہر جا کر کالج میں داخلہ لیں اس لیے 2021 میں میٹرک کرنے کے بعد انہیں تعلیم چھوڑ کر اپنے والد کے ساتھ ان کی آٹے کی چکی پر بیٹھنا پڑا۔
ایسا صرف خلیل احمد کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ خانیوال کی بستی خادم پور کے مزمل حسین کو بھی انہی حالات کا سامنا ہے۔ انہوں نے بھی 2021 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا جس کے بعد انہیں امید تھی کہ وہ اپنے علاقے میں بننے والے اس کالج کی بدولت مزید تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔ لیکن کالج کا منصوبہ بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
مزمل حسین نے کچھ فاصلے پر تحصیل کبیروالا میں جا کر ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ تو لے لیا لیکن ان کے والد کالج کے اخراجات برداشت نہ کر سکے اس لیے مزمل کو واپس آنا پڑا اور اب وہ گھر میں رہ کر پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے انٹرمیڈیٹ کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔
خادم پورہ میں جنرل سٹور چلانے والے محمد عاشق ہراج کے بیٹے شعیب نے بھی میٹرک میں اچھے نمبر لیے تھے۔ انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ ان کے قصبے میں بوائز ڈگری کالج بن جائے گا تو میٹرک کے بعد وہ اپنے بیٹے کو وہیں داخل کرائیں گے۔ کالج کی تعمیر مکمل ہونے میں تاخیر ہوئی تو انہوں نے بیٹے کو شہر کے کالج میں داخل کرا کے اسے جانے آنے کے لیے ویگن لگوا دی۔ لیکن جب پٹرول مہنگا ہوا تو ان کے لیے یہ اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیا۔
سیاسی چپقلش کی وجہ سے 2017 میں شروع ہونے والا ڈگری کالج کا منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا
اب شعیب کالج نہیں جاتے بلکہ جنرل سٹور پر اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے اور وہیں بیٹھ کر انٹرمیڈیٹ کے امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔
سردارپور کالج کے ساتھ کیا ہوا؟
سردار پور خانیوال شہر سے 40 کلومیٹر اور تحصیل کبیروالہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پہلے یہ چھوٹا سا قصبہ تھا جو اب شہر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
یہاں پہلا سرکاری پرائمری سکول قیام پاکستان سے پہلے قائم کیا گیا تھا جسے 1970ء کی دہائی میں مڈل کا درجہ دے دیا گیا۔1985ء میں یہ ہائی سکول بنا اور 2009ء میں اسے ہائرسکینڈری سکول کا درجہ مل گیا۔
2013ء کے عام انتخابات میں اس علاقے سے رضا حیات ہراج آزاد حیثیت ایم این اے منتخب ہوئے جنہوں ںے بعد میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی اور حکومت سے علاقے میں ڈگری کالج منظور کروا لیا۔
کالج کی تعمیر کے لیے 16اپریل 2017ء کو 13کروڑ 80 لاکھ روپے مالیت کا ٹینڈر جاری ہوا۔ یہ ٹینڈر حاجی زبیر اینڈ کمپنی کو ملا جس نے آبادی سے کچھ دور چار ایکڑ اراضی 85 لاکھ روپے میں خریدی اور ہائر ایجوکیشن کی جانب سے نقشے کی منظوری ملنے کے بعد کالج کی تعمیر شروع کر دی۔
ابھی دس کلاس روم، چارکمپیوٹر لیبارٹریوں، پرنسپل آفس، سٹاف روم، کینٹین اور چار دیواری کی تعمیر ہی مکمل ہوئی تھی کہ حکومت تبدیل ہو گئی اور منصوبے کے لیے فنڈ کی فراہمی بھی رک گئی۔
چونکہ ٹھیکے دار کمپنی منصوبے کے لیے منظور شدہ فنڈ سے زیادہ پیسے خرچ کر چکی تھی اس لیے اس نے ادائیگی کے لیے محکمہ تعمیرات خانیوال کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی۔
عدالتی حکم پر کمشنر ملتان نے 26 دسمبر 2022ء کو نظر ثانی شدہ منصوبہ منظور کیا جس سے اس کی لاگت بڑھ کر 17 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔
رضا حیات ہراج اور سابق ایم پی اے مہر اکبر حیات ہراج کا کہنا ہے کہ ان کے سیاسی حریف سید گروپ نے اقتدار میں آ کر ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز رکوا دیے جس کی وجہ سے کالج بروقت مکمل نہ ہو سکا۔
تاخیر کی وجہ سے منصوبہ کی لاگت میں 3 کروڑ روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے
دوسری جانب سید گروپ کے سربراہ ڈاکٹر سید خاور علی شاہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کالج کے منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی سرکاری ادارے نے ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی عوام کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا "وگرنہ ہم فنڈز جاری کروا دیتے"۔
“صرف رنگ روغن باقی ہے”
خانیوال کے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز احمر رؤف کا کہنا ہے کہ انہوں ںے گزشتہ ماہ جنوبی پنجاب میں ہائر ایجوکیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری عطاءالحق کے ہمراہ اس کالج کے زیر تکمیل منصوبے کا دورہ کیا تھا۔
"کالج میں قریباً 90 فیصدکام مکمل ہو گیا ہے اور صرف تزئین و آرائش اور رنگ روغن باقی ہے۔ عمارت کے فعال ہوتے ہی ہم یہاں کلاسیں شروع کرا دیں گے"۔
انہوں نے بتایا کہ چار فروری 2023ء کو انہوں نے محکمہ تعمیرات خانیوال کو نظر ثانی شدہ منصوبے کی تکنیکی منظوری کے لیے مراسلہ ارسال کیا ہے۔ منظوری ملتے ہی فنڈز بھی جاری ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں
نظامِ تعلیم میں طبقاتی تقسیم: واحد قومی نصاب کس طرح سرکاری اور نِجی سکولوں میں فرق بڑھا دے گا۔
محکمہ تعمیرات خانیوال کے ایکسیئن محمد ماجد نے سجاگ کو بتایا کہ تکنیکی منظوری کے لیے ڈرافٹ تیار کیا جا رہا ہے۔
"ڈویژنل آفس ملتان کی جانب سے چند اعتراضات لگا کر ہمیں مراسلہ واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اگلے دس روز میں یہ بھی مکمل ہو جائے گا اورفنڈز کے اجراء میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی"۔
یونین کونسل سردار پور کے سابق وائس چئیرمین حبیب الرحمٰن ڈوگر کہتے ہیں کہ علاقے میں سیکڑوں طلبہ ایسے ہیں جو میٹرک کے بعد یا تو پڑھائی چھوڑ چکے ہیں یا انٹرمیڈیٹ کا پرائیویٹ امتحان دینے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے شہر کے کالج میں جا کر تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں۔
"کالج کی تعمیر بروقت مکمل نہ ہونے کے باعث جن بچوں کا تعلیمی کیریئر خراب ہو گیا اس کی تلافی تو ممکن نہیں لیکن اب بھی اس منصوبے کو مکمل کر لیا جائے تو باقی نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 4 اپریل 2023