"اپنی بیوی کی جان بچانا چاہتا تھا اس لیے لاہور لے جانے کا رسک نہیں لیا، مگر وہ پھر بھی نہ بچ پائی"

postImg

وحید مغل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"اپنی بیوی کی جان بچانا چاہتا تھا اس لیے لاہور لے جانے کا رسک نہیں لیا، مگر وہ پھر بھی نہ بچ پائی"

وحید مغل

loop

انگریزی میں پڑھیں

پندرہ اکتوبر 2023ء کا دن مون شہزاد کے لیے ایک ڈراؤنے خواب جیسا ہے کیونکہ اس روز انہوں نے اپنی اہلیہ اور نومولود بچے کو کھو دیا۔

مون شہزاد کی عمر 31 سال ہے، ان کا تعلق ضلع شیخوپورہ کے قصبے نارنگ منڈی کے نواحی گاؤں لدھے سے ہے۔ وہ اپنے گاؤں سے روزانہ موٹر سائیکل پر دودھ لے جا کر نارنگ منڈی شہر میں فروخت کرتے ہیں۔

اس روز ان کی اہلیہ کی زچگی تھی جس کے لیے وہ انہیں نارنگ شہر کے ایک نجی کلینک میں لے گئے لیکن وہاں پر ان کی اہلیہ اور نومولود بچے کا دوران آپریشن انتقال ہو گیا۔

مون شہزاد بتاتے ہیں ان کی شادی کو ڈیڑھ سال ہوا تھا اور یہ ان کا پہلا بچہ تھا۔ دوران زچگی وہ اپنی اہلیہ کو معمول کے معائنے کے لیے نارنگ منڈی کے دیہی مرکز صحت لے کر گئے تو وہاں پر موجود ڈاکٹر طارق سیف نے کہا کہ یہاں پر تو سہولیات موجود نہیں ہیں اس لیے اپنی اہلیہ کو کسی نجی کلینک پر لے جائیں جہاں انہیں آپریشن کی سہولت بھی مل سکے گی۔

"ہم اسی ڈاکٹر کے نجی کلینک پر چلے گئے جس کو یہی سرکاری  ڈاکٹر اور ان کی اہلیہ لیڈی ڈاکٹر عمارہ سیف چلاتے ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کے چار ماہ تک باقاعدگی سے معائنے کرائے جس میں ہر بار ڈاکٹر یہ کہتے رہے کہ ماں اور بچے کی صحت بالکل ٹھیک ہے اس لیے دوران آپریشن پیچیدگی کے خطرات بھی کم ہیں۔ جس دن آپریشن ہونا تھا اس روز بھی میری بیوی بالکل ٹھیک تھیں"۔

ان کا الزام ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے کی موت ڈاکٹر کی غفلت سے ہوئی کیوں کہ شاید انھوں نے کوئی غلط انجیکشن لگا دیا تھا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نجی کلینک میں ایمرجنسی کی صورت میں مریضہ کی جان بچانے کے لیے موجود سلنڈروں میں آکسیجن ہی نہیں تھی۔

"میں اس وقت کلینک پر موجود تھا، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کلینک کا عملہ افراتفری کے عالم میں وہاں پڑے تین سلنڈروں  کو باری باری لیبر روم میں لے گیا۔ پھر کچھ دیر بعد دیہی مرکز صحت سے ایک سلنڈر منگوایا گیا، لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی"۔

مون کا خیال ہے کہ جب غلط انجیکشن کی وجہ سے اہلیہ کو سانس لینے میں دشواری ہوئی تو انہیں بروقت آکسیجن کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جا سکی۔

ڈاکٹر طارق ان الزامات کو درست تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کے مطابق مریضہ کو سانس کی بیماری تھی جس کا اہل خانہ کو پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا۔

"ہم نے اس بات سے بھی آگاہ کیا تھا کہ دوران آپریشن پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں اس لیے بہتر ہو گا کہ مریضہ کو لاہور لے جائیں لیکن لواحقین بضد تھے کہ ان کا یہیں پر ہی آپریشن کیا جائے"۔

ان کے مطابق اس حوالے سے ان کے پاس وہ فارم بھی موجود ہے جس میں خاتون کے شوہر نے دستخط کیے ہیں۔

مون شہزاد کہتے ہیں کہ یہ فارم تو ہر ہسپتال میں کسی بھی آپریشن سے پہلے پُر کیا جانا ضروری ہے، اس وقت وہ ایسا نہیں کرتے تو کیا کرتے؟

"میں اپنی بیوی کی جان بچانا چاہتا تھا اس لیے لاہور لے جانے کا رسک نہیں لیا، مگر وہ پھر بھی نہ بچ پائی"۔

ان کا یہی ماننا ہے کہ اگر دیہی مرکز صحت میں سہولیات ہوتیں تو نجی کلینک جانے پر مجبور نہ ہوتے اور اگر اس نجی کلینک پر ماہر عملہ اور آکسیجن ہوتی تو آج ان کی اہلیہ اور بچہ ان کے ساتھ ہوتا۔

 کلینک چلانے والے ڈاکٹر آکسیجن نہ ملنے کے الزام کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کلینک میں آکسیجن کے دو سلنڈر موجود تھے اور ایک مزید سلنڈر اس لیے منگوایا تھا چونکہ مریضہ کو جو گیس ہم نے لگائی تھی اس کی مقدار بہت زیادہ یعنی 10 ملی لیٹر فی منٹ رکھی گئی تھی۔ مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے احتیاطاً اضافی سلنڈر منگوایا تھا۔

نارنگ منڈی ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے کا ایک بڑا قصبہ ہے جس کی حدود شیخوپورہ کے علاوہ لاہور اور بھارتی سرحد سے بھی ملتی ہیں۔ بھارتی سرحد کے قریبی بہت سارے دیہات کی طبی سہولیات کے لیے یہاں موجود واحد دیہی مرکز صحت ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق نارنگ منڈی اور اس کے گردو نواح میں موجود دیہات کی آبادی ڈھائی سے تین لاکھ ہے۔

یہ دیہی مرکز صحت یوں تو 1974ء میں قائم ہوا تھا لیکن 2013ء میں اس کو اپ گریڈ کر کے اس کی نئی عمارت بنائی گئی اور یہاں پر بستروں کی تعداد 43 کر دی گئی، لیکن مقامی لوگوں کے مطابق ان 43 بستروں پر آج تک کوئی بھی مریض داخل نہیں ہوا، بلکہ نارنگ منڈی کی تاریخ میں صرف ایک بار دو مریضوں کو کچھ دنوں کے لیے داخل کیا گیا تھا وہ بھی ڈینگی کے مریض تھے۔

دیہی مرکز صحت کے عملے کے مطابق یہاں پر کل چھ ڈاکٹروں کی اسامیاں ہیں جن میں پانچ پُر ہیں جبکہ ویمن میڈیکل آفیسر کی اسامی خالی پڑی ہوئی ہے۔اس وقت ہسپتال میں ڈاکٹروں سمیت 8 نرسوں اور پانچ ڈسپنسرز کو ملا کر کل 51 سٹاف ممبر ہیں۔

نئی مردم شماری کے مطابق ضلع شیخوپورہ کی آبادی تقریباً 40 لاکھ 49 ہزار ہے جبکہ اس ضلع میں تقریبا 70 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جو 30 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں پر دیہی مراکز صحت کی تعداد صرف آٹھ ہے، یعنی تین لاکھ75 ہزار لوگوں کے لیے صرف ایک دیہی مرکز صحت ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق اس وقت دیہی مرکز صحت میں موجود ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ کی مشینیں خراب ہیں، ای سی جی مشین چل رہی ہے لیکن کم ہی لوگ ہیں جو اس سے مستفید ہو پاتے ہوں۔

اس دیہی مرکز صحت میں بطور فرائض سر انجام دینے والے حمزہ اسحاق کہتے ہیں کہ ایکسرے مشین کی فلم نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ایکسرے نہیں کیا جاتا۔ یہ بات چیف ایگزیکٹو ہیلتھ کے نوٹس میں ہے۔

"شاید بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں فلم مہیا نہیں کر رہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ الٹرا ساونڈ مشین چل رہی ہے۔ اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ای سی جی  کرانے کے لیے کم مریض آتے ہیں کیونکہ بیشتر پرائیویٹ کلینکس کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ویسے بھی امراض قلب میں مبتلا لوگ وقت بچانے کے لیے اس سہولت سے استفادہ حاصل نہیں کرتے کیوں کہ یہاں پر دل کے امراض کا علاج  تو دستیاب نہیں ہے۔

نارنگ منڈی سے تحصیل مریدکے کا فاصلہ 32 کلومیٹر اور شیخوپورہ شہر کا فاصلہ 77 کلومیٹر ہے جبکہ  لاہور یہاں سے 73 کلومیٹر ہے۔

عمران رشید جو نارنگ منڈی کے رہائشی اور محکمہ ٹریفک پولیس کے اہلکار ہیں ان کے مطابق دیہی مرکز صحت میں سانپ کے کاٹے کا علاج یا دوائی میسر نہیں۔

ان کے مطابق یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں، سانپ اور دیگر زہریلے کیڑوں مکوڑوں کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے مریضوں کو علاج کے لیے لاہور بھیج دیا جاتا ہے۔

"یہاں کے ڈاکٹر صرف مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں، دیہی مرکز صحت میں نزلے زکام تک کی ادویات نہیں ہوتیں۔ کئی بار تو ایمرجنسی میں بھی ادویات کی قلت پیدا ہو جاتی ہے"۔

ان کے مطابق اگر کوئی تھوڑا سا بھی سیریس مریض معائنے کے لیے چلا آئے تو اسے کہہ دیا جاتا ہے اسے لاہور لے جائیں۔ ان کے خیال میں یہ لاکھوں مقامی لوگوں سے انتہائی زیادتی  ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'جعلی ڈاکٹر، جعلی دوائیں'، نارووال میں تین محکمے مل کر بھی اتائیوں پر قابو نہ پا سکے

ڈاکٹر طارق سیف اس دیہی مرکز صحت کے سینیئر میڈیکل آفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیہی مرکز صحت کا سٹیٹس ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس میں گائناکالوجسٹ اور دل کے امراض کے ڈاکٹر کی اسامی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں پر آنے والے مریضوں کو لاہور لے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

دیہی مرکز صحت کے انتظام کی دیکھ بھال کے لیے بنائی گئی مقامی ہیلتھ کونسل کے رکن سعید احمد فاروقی سہولیات کی کمی کے ساتھ اس ہسپتال کو درپیش معاشی مشکلات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جتنے فنڈ اس ہیلتھ سینٹر کو ملتے ہیں وہ تو دس،  پندرہ دن میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

"مہینے کے باقی دنوں کے لیے ایمرجنسی میں استعمال ہونے والی ادویات یہاں مقامی لوگ خرید کر دیہی مرکز صحت کو فراہم کرتے ہیں"۔

نارنگ منڈی میں مخیر حضرات نے مل کر ایک بورڈ تشکیل دے رکھا ہے جو چندہ جمع کر کے ایک میڈیکل سٹور کو فراہم کرتا ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں جب بھی دیہی مرکز صحت کو ادویات کی ضرورت ہو تو انہیں فراہم کردی جائے اور اس کا بل مہینے کے آخر میں ان کو بھیج دیا جائے۔

سعید احمد فاروقی کے خیال میں علاقے میں ایک ایسے ہسپتال کا قیام ناگزیر ہے جس میں کم از کم بنیادی طبی ضروریات، ٹراما سینٹر اور گائنی وارڈ  ہو۔ آئے روز حادثات میں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اب تک کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح زچگی کے لیے کسی مریض کو فوسری طور پر لاہور  لے جانا ممکن نہیں ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ دو برس قبل یہاں ٹریفک حادثے کے دوران گیس سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے 22 افراد جھلس گئے تھے، چونکہ اس مرکز میں جلے کا علاج یا اس حوالے سے ادویات موجود نہیں تھیں، اس لیے انہیں لاہور لے جانا پڑا، جن میں سے18 افراد جاں بحق ہو گئے۔

سعید احمد فاروقی پاکستان میں صحت کے اس انفراسٹرکچر پر ہی سوالات اٹھاتے ہیں جس میں تمام دیہی مراکز صحت کے لیے ایک ہی پیمانہ رکھا گیا ہے۔ ان کے خیال میں زیادہ آبادی اور دور دراز کے علاقوں کے ساتھ یہ ناانصافی ہے۔

 کیونکہ ان کے خیال میں ہر دیہی مرکز صحت میں مریضوں کی تعداد ایک جیسی نہیں ہوتی۔ نارنگ منڈی کے اس مرکز صحت میں روزانہ دن کے اوقات کار میں 600 تک مریض آتے ہیں اور ان کے معائنے کے لیے صرف دو یا تین ہی ڈاکٹر موجود ہیں۔

"کالاشاہ کاکو دیہی مرکز صحت میں مریضوں کی تعداد یہاں سے کئی گنا کم ہے لیکن وہاں پر نو ڈاکٹرز تعینات ہیں۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی چودھری حسان ریاض جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہے وہ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ نارنگ منڈی کے دیہی مرکز صحت میں وہ سہولیات نہیں ہیں جو اس بڑے آبادی کے حامل قصبے کو ملنی چاہئیں۔

ان کے مطابق انہوں نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں اس مرکز صحت میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کی تھی مگر محکمہ صحت کے قوانین اور رولز اس کی اجازت نہیں دیتے۔

ہیلتھ کمیٹی کے ممبر سعید احمد فاروقی اور مقامی لوگ چودھری حسان کی اس "منطق"  سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون یا طریقہ کار لوگوں کی بہتری کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ایسا قانون کس کام کا جو لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرے؟

تاریخ اشاعت 25 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وحید مغل کا تعلق ضلع شیخوپورہ کے قصبے نارنگ منڈی سے ہے اور وہ عرصہ سات سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، سماجی مسائل، تاریخ اور تحقیقاتی صحافت کا شوق رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.