خیبر پختونخوا کا ضلع سوات موسمیاتی تبدیلیوں سے انتہائی متاثر ہوا ہے، خصوصاً سوات کے بالائی علاقے جہاں سال 2010ء اور 2022ء میں بہت زیادہ نقصانات ہوئے۔ کالام کے قریب واقع مٹلتان کے رہائشی ملک فرید اللہ بھی دیگر لوگوں کی طرح اپنے خاندان سمیت عارضی نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
ملک فرید اللہ کہتے ہیں کہ 2010ء جیسا سیلاب پہلے نہیں دیکھا، اس میں مٹلتان، پلوگاہ اور آس پاس کے علاقوں کے 200 سے زائد تک گھر سیلاب میں بہہ گئے تھے، جس کے باعث لوگ ہجرت کرکے دیگر علاقوں میں آباد ہو گئے تھے، پھر چند سال بعد دوبارہ اپنے علاقوں میں واپس آ گئے۔
"ابھی ہم 2010ء کے سیلاب کے اثرات سے بمشکل سنبھلے ہی تھےکہ 2022ء میں دوبارہ سیلاب آ گیا اور ایک بار پھر گھر، مال ومتاع، مال مویشی، زمین اور کھیت سیلاب میں بہہ گئے۔ اس بار انتہائی بڑا مسئلہ نقل مکانی کا تھا کیونکہ سڑکیں سیلاب کے وجہ سے بہہ گئی تھیں اور راستے انتہائی خراب تھے، ہم نے بڑی مشکل سے نقل مکانی کی۔ پہلے سیلاب میں مال مویشی بہہ گئے پھر دوسرے سیلاب کے دنوں میں کھیتوں میں چارہ نہ ہونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے بھی بھیڑ بکریاں مر گئی تھیں"۔
سال 2010ء کا سیلاب
2010ء میں ہائیڈرالوجی ایریگیشن سے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق خوازہ خیلہ کے مقام پر دریائے سوات میں سیلابی پانی کی مقدار ایک لاکھ 75 ہزار 546 کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ پاکستان میٹریالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سیلاب کا باعث بننے والے بارش (27 جولائی 2010ء سے 30 جولائی 2010ء کے درمیان) سیدوشریف، سوات میں 338 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس سیلاب سے سوات کے تحصیل بحرین کے علاقے میں سڑکیں، انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا تھا۔
سال 2022ء میں سیلاب سے کتنا نقصان ہوا تھا ؟
ضلع سوات کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب 2022ء میں آیا، جس میں سیلابی پانی کی مقدار دو لاکھ 46 ہزار 392 کیوسک ریکارڈ کی گئی۔
سوات کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف اینڈ ہیومن رائٹس سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق، سال 2022ء کے تباہ کن سیلاب میں ضلع سوات میں 39 افراد جاں بحق اور سات زخمی ہوئے تھے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق سال 2022 کے سیلاب میں 74 گھر مکمل تباہ ہوگئے تھے جبکہ 122 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا تھا اسی طرح 77 عشاریہ 32 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا جبکہ 51 ہوٹلز اور 32 رابطہ پل بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
خواتین اور نوجوان بری طرح متاثر
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان ہی میں ناہید اختر بھی شامل ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کا گھر دو بار سیلاب میں بہہ چکا ہے جس سے انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ 2022ء کے سیلاب میں گھر بہہ جانے سے وہ اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ نقل مکانی کر گئی تھیں، ناہید اختر کے میاں نجی بینک میں ملازم ہیں جبکہ ان کے تین بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں۔
" بچے اب بھی بارش سے ڈرتے ہیں، جب آسمان پر بادل آ جاتے ہیں، تو سب خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔"
ناہید اختر اپنی میاں اور بچوں کے ساتھ عارضی جگہ پر رہائش پذیر ہیں۔
بحرین کے مضافاتی علاقہ چیل سے تعلق رکھنے والے سیف الدین، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، مردان میں بی ایس الیکٹریکل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں 28 گھر آباد تھے جو سب کے سب 2010ء کے سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ سالوں کی تگ و دو کے بعد لوگوں نے دوبارہ انہیں آباد کیا تو 2022ء سیلاب آ گیا اور پورا گاؤں بہا لے گیا، لوگ پھر سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
"لوگ بہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں، سیلاب سے ہوٹل بھی تباہ ہوئے جس سے مقامی لوگ روزگار سے بھی محروم ہوئے، علاقے کے طلبہ ان سب حالات کے باعث ذہنی مریض بن گئے ہیں، میں خود ڈپریشن کا مریض بن چکا ہوں، جس سے میرا تعلیمی سلسلہ بھی متاثر ہوا ہے"۔
سیلاب سے زراعت کا نقصان
محکمہ زراعت ضلع سوات کے مطابق، سوات میں 110,579 ایکٹر زرعی زمین ہے اور 2022ء کے سیلاب میں 15,393 ایکٹر زرعی زمین متاثر ہوئی، جبکہ تقریباً 3 ارب 92 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔
پلوگاہ، مٹلتان سے تعلق رکھنے والا کاشتکار گل زمان بتاتے ہیں کہ یہاں کاشت کا ایک ہی سیزن ہوتا ہے کیونکہ سردیوں میں شدید برفباری ہوتی ہے۔ اسی ایک سیزن میں مقامی کاشت کار سبزی، آلو، گوبھی اور مٹر کی فصل کاشت کرتے ہیں۔ 2010ء اور 2022ء کے سیلابوں میں پہلے فصلیں بہہ گئیں جو بچی تھیں، وہ سڑکیں اور راستے کئی ماہ تک بند ہونے کے باعث منڈیوں تک نہ پہنچ سکیں، جس سے کاشتکاروں کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔
سیلاب مچھلیوں کے فارمز بھی بہا لے گیا
محمکہ فشریز ضلع سوات کے مطابق، 2022ء کے سیلاب میں مچھلیوں کی 237 ہیچریاں بہہ گئیں تھیں، جن کا مجموعی نقصان تقریباً ایک ارب 36 کروڑ روپے کے لگ بھگ تھا، ان میں سب سے زیادہ نقصان سرکاری ٹراؤٹ ہیچری، مدین کا ہوا جو تقریباً 25 کروڑ روپے تھا۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز یحییٰ جعفر نے بتایا کہ سیلاب میں بہہ جانے والی ہچریوں میں سرکاری ہیچری کے علاوہ تحصیل مٹہ اور بحرین کے علاقوں میں پرائیویٹ یعنی مقامی لوگوں کی ہیچریاں بہت متاثر ہوئیں جو ان لوگوں کا ذریعہ معاش تھا، وہ ہیچریاں ابھی تک بحال نہیں ہو سکی ہیں۔
مدین میں ایک ہیچری کے مالک خالد کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے سیلاب کے باعث ٹراؤٹ کی بیشتر ہیچریاں تباہ ہو چکی ہیں، پھر موسمیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب مدین کے علاقوں میں ٹراؤٹ کی افزائش بھی متاثر ہوئی ہے، کیونکہ ٹراؤٹ مچھلیوں کو انتہائی ٹھنڈے پانی کی ضرورت ہوتی ہے
سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا مگر سیلاب کی تباہ کاریاں موجود
گزشتہ سال آنے والے سیلاب میں سوات کے علاقے منڈل ڈاگ اور آس پاس میں رہائش پذیر لوگوں کے گھر پانی میں بہہ گئے تھے جس کے بعد درجنوں متاثرین دیگر علاقوں میں عارضی رہائش پذیر ہیں اور ابھی تک ان کے گھر نہیں بنے۔
منڈل ڈاگ سے تعلق رکھنے والے اسماعیل کہتے ہیں کہ ان کا علاقہ 2022ء کے سیلاب میں شدید متاثر ہوا ہے جس سے لوگوں کی گھر بھی تباہ ہوئے ہیں اور آج بھی ان علاقوں میں راستے تعمیر نہیں کئے گئے اور آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آصف علی شہزاد کا تعلق اتروڑ سے ہے وہ کہتے ہیں کہ سیلاب سے ان کے علاقے میں لڑکیوں کا سکول بھی متاثر ہوا ہے جس سے علاقے میں لڑکیوں کے تعلیم پر اثر پڑا ہے جبکہ اس کے ساتھ اتروڑ اور گبرال میں صحت مراکز بھی متاثر ہوئے ہیں، جو بحالی کے منتظر ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشئرز پر اثرات
ماہرین کے مطابق ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلہ میں سات ہزار کے لگ بھگ بڑے گلیشئرز موجود ہیں جبکہ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے بے شمار گلیشئرز ہیں جبکہ سوات کے بالائی پہاڑی سلسلوں میں گلیئشرز کے تعداد 700 کے قریب بتائی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں اور گرمی کی شدت سے یہ گلیشئرز پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں سیلاب اور برفانی تودوں کے گرنے کی واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پیشگی وارننگ سسٹم
گلیشئرز لیک آوٹ برسٹ ٹو پراجیکٹ کے تحت ضلع سوات کے علاقے کالام اور پلوگاہ میں کمیونٹی بیسڈ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کمیٹی کے تحت مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز ہو گیا ہے جس میں پیشگی وارننگ سسٹم، پروٹیکشن وال، شجر کاری اور چیک ڈیمز شامل ہیں ۔ان منصوبوں پر کام کا آغاز ہونے سے عوام میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تحت پیدا ہونے والے سیلاب سے بچاؤ کی امید پیدا ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ہواؤں کے بدلتے رخ سے انجان رہے ہم: پاکستان کا زرعی شعبہ موسمیاتی تبدیلی سے کن تبدیلیوں کی زد میں ہے؟
سوات میں گزشتہ سال سیلاب کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے جانب سے کالام کے مقام پر ارلی وارننگ سسٹم نصب کیا جا رہا ہے اور اس پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ ارلی وارننگ سسٹم میں بارش کی مقدار، دریا میں پانی کی مقدار، آٹومیٹک موسمیاتی اسٹیشن سمیت مختلف قسم کے گیجز کا مربوط نظام شامل کیا گیا ہے۔
ارلی وارننگ سسٹم کے حوالے سے ماہر راشد خان نے کہا کہ جب بارش زیادہ ہوجاتی ہے یا دریا میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے تو مستقبل میں انسانی جانوں کے ضیاع سے بچنے میں یہ سسٹم بہت کارآمد ثابت ہو گا۔
کالام کے رہائشی عزیز کہتا ہے کہ 2022ء کے سیلاب کے دوران اگر پیشگی وارننگ سسٹم نصب کیا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔
پلو گاہ کے مقام پر پروٹیکشن وال کی تعمیر کا آغاز
موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب سے متاثرہ سوات کے علاقے مٹلتان پلوگاہ میں غیر سرکاری تنظیم کے فنڈز اور حکومت خیبر پختونخوا کے تعاون سے مقامی لوگوں کو سیلاب سے بچانے کے لئے دریائے سوات کے قریب پروٹیکشن وال پر کام جاری ہے۔
ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر سائیل اینڈ واٹر کنزرویشن سوات سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس منصوبے پر 1 کروڑ 25 لاکھ 98 ہزار 852 روپے کی لاگت آئے گی۔
مٹلتان کی رہائشی ملک فرید اللہ نے پروٹیکشن وال کے حوالے سے کہا کہ جب سیلاب آتا ہے تو پانی ہمارے گھروں تک آجاتا ہے اور انہیں بہا لے جاتا ہے، امید ہے کہ اس پروٹیکشن وال سے کافی حد تک نقصان سے بچ جائیں گے۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا علاقہ ضلع سوات موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہے، گزشتہ سال سیلاب کے بعد تو بعض جگہوں پر کام جاری ہے مگر اب بھی لوگ موسمیاتی تبدیلیوں کو نہیں سمجھتے، جبکہ بحالی کیلئے مزید کام کی ضرورت ہے، جیسا کہ صاف پانی کی منصوبے، گھروں میں واش رومز سمیت آگاہی کے لئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے مہمات کی ضرورت ہے، عوام کا یہ بھی گلہ ہے کہ ان علاقوں میں سڑکیں اب بھی خراب ہیں، پل ٹوٹے ہوئے ہیں، روزگار کے مسائل ہیں، جس کے لئے مزید فنڈز کی ضرورت ہے۔
تاریخ اشاعت 31 جنوری 2024