موجودہ مالی سال کے پہلے چار مہینوں (جولائی تا اکتوبر) میں بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں نے 10 ارب 60 کروڑ ڈالر وطن واپس بھیجے۔ اتنے عرصے میں انہوں نے پہلے کبھی اتنی بڑی رقم پاکستان نہیں بھیجی تھی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق یہ ترسیلاتِ زر گزشتہ مالی سال (2020-21) کے انہی مہینوں میں بھیجی گئی رقوم کے مقابلے میں 11.9 فیصد زیادہ رہیں۔
جولائی-ستمبر 2021 میں سب سے زیادہ پیسہ سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانیوں نے بھیجا جو کہ اس عرصے میں موصول ہونے والی مجموعی ترسیلاتِ زر کا 25 فیصد تھا اور جس کی مالیت دو ارب دو کروڑ 25 لاکھ ڈالر تھی (تاہم یہ رقم گزشتہ مالی سال میں اسی عرصے کے دوران سعودی عرب سے آنے والے پیسے سے 2.6 فیصد کم تھی)۔
سعودی عرب کے بعد ان چار مہینوں میں سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر متحدہ عرب امارات سے آئیں جن کی مالیت ایک ارب 54 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بنتی ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں آنے والی رقم کے مقابلے میں 8.7 فیصد زیادہ ہے۔ تیسرے اور چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر بالترتیب برطانیہ اور امریکہ سے ہوئیں جن کی مالیت ایک ارب 11 کروڑ 15 لاکھ ڈالر اور 83 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہی۔ ان دونوں ممالک سے بھیجے گئے پیسوں میں گزشتہ مالی سال کے انہی مہینوں کے مقابلے میں بالترتیب 71.5 فیصد اور 63 فیصد اضافہ ہوا۔
اسی طرح ان چار ماہ میں یورپی یونین سے پاکستان کو مجموعی طور پر موصول ہونے والی ترسیلاتِ زر میں گزشتہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے مقابلے میں 88 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جبکہ خلیجی ممالک سے اس عرصے میں آنے والی رقوم میں اضافے کی مالیت 88 کروڑ سات لاکھ ڈالر رہی ہے۔ نتیجتاً پہلی بار یورپی یونین سے آنے والی رقوم میں اضافہ خلیجی ممالک سے آنے والی رقوم میں ہونے والے اضافے سے زیادہ رہا۔
تاہم ان ترسیلات میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ پچھلے ڈیڑھ سال سے ان میں بہتری کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ درحقیقت اکتوبر 2021 مسلسل آٹھواں مہینہ تھا جب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے آنے والی رقومات کا حجم اوسطاً دو ارب 50 کروڑ ڈالر رہا۔
ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ: وجوہات کیا ہیں؟
جب پوری دنیا 2020 کے آغاز میں کووڈ۔19 کی لپیٹ میں آئی تو کچھ پاکستانی ماہرین نے پیش گوئی کی کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے وطن واپس بھیجی جانے والی رقوم پر اس کا منفی اثر پڑے گا کیونکہ یورپ اور شمالی امریکہ میں کووڈ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معاشی، تجارتی اور دفتری سرگرمیوں پر کئی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں جن کے باعث ان ملکوں میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ ان بے روزگار ہونے والے لوگوں میں بیرونِ ملک کام کرنے والے بہت سے پاکستانی بھی شامل تھے۔
لیکن ان کی پیش گوئی کے برعکس کووڈ کے آغاز سے ہی ان رقوم کی ترسیل میں اضافہ ہو گیا- سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اس اضافے کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ کووڈ کے دوران بیرون ملک مقیم بے روزگار ہونے والے پاکستانیوں نے اپنی جمع پونجی پاکستان منتقل کرنا شروع کر دی تھی تاکہ وہ وطن واپس آ کر کوئی کام کر سکیں۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ بہت سے تارکین وطنِ پاکستان میں مقیم اپنے خاندانوں کو پہلے سے زیادہ پیسہ بھیجنے لگے تھے تاکہ وہ کووڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی، مالی اور معاشی مشکلات کا بہتر طریقے سے سامنا کر سکیں۔
نیو لائن سکیورٹیز نامی تجارتی اور مالیاتی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نعمان رحیم کہتے ہیں کہ اسی دور میں بیرونِ ملک سے فلاحی مقاصد کے لیے پاکستان منتقل کی جانے والی رقوم میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ بہت سے متمول تارکینِ وطن چاہتے تھے کہ وہ کووڈ-19 میں مبتلا پاکستانیوں کی تشخیص، علاج معالجے اور معاشی بحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
تاہم ابتدا میں ڈاکٹر حفیظ پاشا سمیت کئی ماہرین کا خیال تھا کہ مندرجہ بالا عوامل کی وجہ سے ترسیلات زر میں ہونے والا اضافہ عارضی ہو گا اور جیسے جیسے بیرونِ ملک روزگار سے محروم ہونے والے زیادہ تر پاکستانی اپنے ملک واپس آ جائیں گے اور پاکستان میں بھی کووڈ سے نمٹنے کے لیے درکار انتظامی اور مالی وسائل بہتر ہو جائیں گے تو یہ رقوم کم ہو جائیں گی۔
نعمان رحیم کا کہنا ہے کہ اس رحجان میں تسلسل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کووڈ کے باعث بین الاقوامی سفر پر لگائی گئی پابندیوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پیسے کی سرحدوں کے آر پار نقل و حمل کی کڑی نگرانی کی وجہ سے بہت سے تارکین وطن کے لیے حوالہ اور ہُنڈی جیسے غیر رسمی اور غیر قانونی ذرائع سے پیسے پاکستان بھجوانا ممکن نہیں رہا جس کے نتیجے میں بینکوں کے ذریعے پیسے بھیجنےکے رحجان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "زرمبادلہ کی منڈی میں مستحکم صورت حال اور باضابطہ ذرائع سے پیسے پاکستان بھیجے جانے کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کیے گئے پالیسی اقدامات سے ترسیلات زر بڑھ گئی ہیں۔اس میں (بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے خصوصی طور پر کھولے گئے) روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کا کردار خاص طور پر اہم ہے کیونکہ ان اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان پیسے بھیجنے والے لوگوں کے لیے متعدد مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جن کا بہت مثبت نتیجہ نکلا ہے"۔
معاشی امور کے ماہر اور صحافی خرم حسین بھی اس تجزیے سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "بیرونِ ملک مقیم پاکستانی پہلے جو رقوم غیررسمی ذرائع سے پاکستان بھیجتے تھے وہ رقوم اب رسمی طریقے یعنی بینکوں کے ذریعے ملک میں آ رہی ہیں جس کے نتیجے میں سرکاری کھاتوں میں ان ترسیلاتِ زر کا اندراج پہلے سے بڑھ گیا"۔
اگرچہ بیرونِ ملک سے ہُنڈی اور حوالے جیسے غیرقانونی ذرائع سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم کی مالیت کے بارے میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن زرِ مبادلہ کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے تک قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے پاکستان منتقل ہونے والی رقوم کا حجم برابر تھا لیکن، ان کے مطابق، اب قانونی ذرائع پر انحصار پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رقوم کے قومی اور بین الاقوامی تبادلے کی نگرانی کرنے والے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبے، فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ، کا فعال کردار بھی لوگوں کو حوالہ اور ہُنڈی سے ہٹا کر بینکوں کے ذریعے رقوم بھیجنے کی جانب لایا ہے کیونکہ اس کے حکام بڑی تندہی سے ایسے مالی لین دین کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی شخص کے بنک اکاؤنٹ میں نامعلوم ذرائع سے آنے والے پیسوں کا گزر ہوتا ہے۔
لیکن سبھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ترسیلاتِ زر میں متواتر اضافے کی سب سے اہم وجہ عالمی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے لگائی جانے والی وہ شرائط ہیں جنہیں پورا کیے بغیر پاکستان اس ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نہیں نکل سکتا۔
ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کے بنیادی مقاصد میں منی لانڈرنگ کو روکنا اور معاشی بے ضابطگیوں، بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے نقصان کا باعث بننے والے معاشی جرائم اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کرنا ہے۔ یہ ادارہ ان ریاستوں پر مختلف پابندیاں لگاتا ہے جو ایسے مسائل کی بیخ کنی نہیں کرتیں۔
یہ بھی پڑھیں
افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔
پاکستان کو پہلی بار 2008 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔ دوسری بار پاکستان کو اس لسٹ میں 2012 سے 2015 تک رکھا گیا جبکہ 2018 سے یہ تیسری بار اس میں شامل ہے۔
اس لسٹ پر پاکستان کی موجودگی کی وجہ سے جہاں ایک طرف دنیا کے تمام اہم مالیاتی ادارے یہاں سے آنے جانے والی رقوم پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں وہاں پاکستانی حکومت نے بھی ایسے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جن کی بدولت غیر قانونی ذرائع سے اندرون و بیرون ملک پیسے کی ترسیل کی بہتر نگرانی اور روک تھام کی جا رہی ہے۔
خرم حسین کا کہنا ہے کہ حکومتی اور قانونی ذرائع سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ اسی بہتری کی بنا پر ہوا ہے۔ تاہم وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان ترسیلات کے مجموعی حجم میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق "گزشتہ برسوں میں رسمی اور غیررسمی ذرائع سے ہونے والی ترسیلاتِ زر کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی بلکہ ممکنہ طور پر ان میں کچھ کمی آئی ہے"۔ لیکن، ان کے مطابق، یہ کمی "سرکاری ذرائع سے ہونے والی ترسیلاتِ زر کے بھاری بھر کم اعداد و شمار کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتی"۔
تاریخ اشاعت 10 دسمبر 2021