کراچی کی حلیمہ بی بی انصاف کے لیے پچھلے چار ماہ سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کی چودہ سالہ بیٹی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں پولیس ان کا کیس خراب نہ کر دے۔ وہ قانونی پیچیدگیوں سے تو واقف نہیں لیکن یہ ضرور جانتی ہیں کہ ایسے مقدمات کے ملزم عام طور پر کمزور تفتیش کی بنا پر بری ہو جاتے ہیں۔
حلیمہ کی بیٹی کا قتل 8 دسمبر 2022 کو ہوا تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ گھر میں اکیلی تھیں۔ اس دوران کسی کام کے لیے گھر آنے والے عرفان نامی پلمبر نے مقتولہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس دوران مزاحمت پر انہیں قتل کر دیا۔ واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد نعیم کی مدعیت میں درج کیا گیا جبکہ ملزم گرفتار ہو چکا ہے۔
حلیمہ مقدمے کی کارروائی میں ہونے والی تاخیر سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چار ماہ گزر گئے لیکن تاحال کیس کا ٹرائل بھی شروع نہیں ہو سکا۔ ابھی تک پولیس نے کیس کا عبوری چالان ہی جمع کرایا ہے۔ تفتیشی حکام کہتے ہیں کہ ڈی این اے کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اس لیے کارروائی آگے بڑھانے میں تاخیر ہو رہی ہے۔''
ماہر قانون اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج بیرسٹر خواجہ نوید احمد حلیمہ کی تشویش کو بجا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ روایتی طور پر تفتیشی افسر کیس کا بادشاہ ہوتا ہے۔ وہ کیا شواہد پیش کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ عام طور پر تفتیش درست خطوط پر نہیں ہوتی، کیمیکل ایگزامینر اور ڈی این اے کی رپورٹ بروقت پیش نہیں کی جاتی اور اس طرح کیس ملزم کے حق میں کمزور ہو جاتا ہے۔
''ایسے مقدموں میں تفتیش کار اپنی جان چھرانے کے لیے ملزم کا اعترافی بیان لے لیتے ہیں جبکہ پولیس حراست میں لیے گئے ایسے بیان کی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ ملزم کا بیان عدالت میں ضابطہ فوجداری کریمنل پروسیجر کوڈ کی شق 164 کے تحت ریکارڈ کیا جاتا ہے لیکن اس کا بھی ایک مخصوص طریقہ ہے جو اکثر عدالتوں میں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جس سے کیس خراب ہو جاتا ہے اور بالاآخر ملزم بری ہو جاتے ہیں۔''
پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 376 کے تحت جنسی زیادتی کے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا موت اور کم سے کم 10 سال قید و جرمانہ ہے۔ اگر ملزموں کی تعداد ایک سے زیادہ ہو تو زیادہ سے زیادہ سزا موت اور کم سے کم سزا 25 سال قید اور جرمانہ ہے۔
محکمہ پراسیکیویشن کے مطابق تین سال کے دوران سندھ کے 29 اضلاع میں جنسی زیادتی کے ایک ہزار 613 مقدمے دائر کیے گئے جن میں ایک ہزار 85 کا فیصلہ ہوا اور ان میں سے 946 مقدمات میں ملزم بری ہو گئے جبکہ صرف 139 مقدموں میں سزائیں ہوئیں۔ اس طرح ریپ کے واقعات میں ملزموں کی بریت کا تناسب 87 فیصد رہا۔
اس عرصہ میں کراچی ڈویژن میں جنسی زیادتی کے 675 مقدمات دائر ہوئے جن میں 390 مقدموں کا فیصلہ ہوا اور ان میں 318 کے ملزم عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو گئے۔ اس طرح کراچی ڈویژن میں بریت کا تناسب 82 فیصد رہا۔
حیدرآباد، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں 938 مقدمے دائر کئے گئے، جن میں سے 695 کا فیصلہ سنایا گیا۔ 628 مقدموں میں ملزموں کے خلاف جرم ثابت نہ ہو سکا جبکہ 67 مقدموں میں ملزموں کو سزائیں ہوئیں۔ ان پانچوں ڈویژنوں میں ملزموں کی بریت کا تناسب 90 فیصد رہا۔
ضلع ٹھٹہ، نوشہروفیروز، گھوٹکی، عمرکوٹ اور قمبر شہداد کوٹ میں جنسی زیادتی کے کسی ملزم پر جرم ثابت نہیں ہو سکا اور سبھی بری ہو گئے۔
خواجہ نوید جنسی زیادتی کے کیسوں میں ملزموں کی بریت کے حوالے سے چند دیگر نمایاں وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صوبے میں وڈیرہ سسٹم کی جڑیں مضبوط ہونے کے باعث بااثر لوگ فریقین کی عدالت کے باہر "صلح'' کرا دیتے ہیں۔ ایسے مقدمات میں مدعی فریق کے لوگ روزگار کی مصروفیات کے باعث بھی عدالتی پیشیوں پر باقاعدگی سے حاضر نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں بہت سے مدعی مالی وسائل نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے سرکاری وکیل اور پولیس کی تفتیش پر انحصار کرتے ہیں جس کا عموماً بہتر نتیجہ نہیں نکلتا۔
سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل غلام نبی میمن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تفتیش کے نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کام راتوں رات نہیں ہو سکتا اور اس میں طویل وقت لگے گا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں اس سمت میں پہلے قدم کے طور پر تفتیشی افسروں کی تعداد میں اضافے، پڑھے لکھے نوجوان افسروں کی بھرتی اور بجٹ میں اضافے جیسے ابتدائی قدم اٹھا لیے گئے ہیں۔
سابق آئی جی سندھ ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ ملک میں فرانزک تحقیق کا شعبہ برائے نام ہے۔ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملزموں کی سزا یقینی بنانے کے لیے پہلے اقدام کے طور پر شعبہ تفتیش میں خواتین افسروں کی تعداد بڑھانا ہو گی، تفتیشی افسروں، پراسیکیوٹروں اور ججوں کی بہتر تربیت کرنا ہو گی اور فرانزک لیبارٹریوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا ہو گا۔
عام طور پر تفتیش درست خطوط پر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں
جنسی زیادتی کے کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ تاہم بیشتر واقعات میں متاثرہ فریق کی لاعلمی یا پولیس کی کوتاہی کے باعث یہ ثبوت ضائع ہو جاتا ہے۔
میڈیکولیگل آفیسر اور پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے متاثرہ فرد کا ڈی این اے ٹیسٹ قانون کے مطابق چھ گھنٹے کے اندر کرایا جانا ضروری ہے تاہم کسی وجہ سے ایسا مکمن نہ ہو تو تین سے پانچ دن کے اندر یہ ٹیسٹ ضرور ہونا چاہیے کیونکہ ایسے واقعات میں اِسی ٹیسٹ کی رپورٹ سب سے بڑا ثبوت ہوتی ہے اور اس کی بنیاد پر ملزم کی شناخت آسان ہو جاتی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اگست 2021 میں ریپ سے متاثرہ لڑکی کائنات سومرو کی آئینی درخواست پر ریپ کیسز کی تفتیش کے حوالے سے رہنما ہدایات جاری کی تھیں جن کے مطابق:
متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او ریپ کی شکایت ملنے پر فوری مقدمہ درج کرے۔
پولیس متاثرہ فرد کو بتائے کہ طبی معائنے تک نہ تو کپڑے دھونا ہیں اور نہ ہی نہانا ہے۔
متاثرہ فرد اور ملزم کے کپڑے فوری طور پر تحویل میں لیے لئے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں
جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملی ہیں: 'جنسی زیادتی کا شکار خواتین اپنے مخالفین کا مقابلہ نہیں کر پاتیں'۔
ایس ایچ او متاثرہ فرد کے طبی معائنے کے لیے میڈیکولیگل آفیسر/ ویمن (ایم ایل او) کو آگاہ کرے اور ڈی این اے سیمپل سمیت دیگر شواہد اکھٹے کرنے کے لیے فرانزک ٹیم بنائی جائے۔
جرم کی جائے وقوعہ کو سیل رکھا جائے اور ایم ایل او 24 گھنٹوں میں ڈی این اے سیمپل لے کر متعلقہ لیبارٹری کو ارسال کرے۔
متاثر فرد کو جب ہسپتال میں طبی معائنے کے لئے لایا جائے تو ایم ایل او موقع پر موجود ہو۔
متاثر فرد کو ہسپتال میں انتظار نہ کرایا جائے۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ فیض شاہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب حالات میں کافی بہتری آئی ہے۔ تفتیشی افسروں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے، تفتیشی عمل میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اور تربیتی کورسز کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیب کے سربراہ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ یہ لیبارٹری بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کرتی ہے جس کی بدولت ڈی این اے ٹیسٹ لینے کے عمل میں اب کافی بہتری آئی ہے اور اس سلسلے میں تفتیشی افسروں اور ایم ایل اوز کو تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔
تاریخ اشاعت 11 اپریل 2023