راجن پور کے حمزہ مغل کاشت کاری کرتے ہیں جہاں فاضل پور میں ان کی زرعی زمین ہے۔ ان کے والد بھی کھیتی باڑی میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ایک روز وہ صبح سویرے موٹرسائیکل پر اپنی اراضی کی جانب جا رہے تھے کہ سڑک پر ایک گڑھے کی وجہ سے توازن کھو کر گر گئے۔ اس حادثے میں انہیں شدید چوٹیں آئیں جن سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔
حمزہ بتاتے ہیں کہ جس سڑک پر ان کے والد سفر کر رہے تھے اس پر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کئی قیمتی جانیں اس سڑک کی نذر ہو چکی ہیں۔ کئی لوگ شدید زخمی ہوئے اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔
یہ راجن پور کے علاقے فاضل پور سے ٹبی لُنڈان تک جانے والی 53 کلومیٹر طویل سڑک ہے جو فاضل پور، حاجی پور، میراں پور اور لال گڑھ سمیت 37 دیہاتوں کو آپس میں ملاتی ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی آمد و رفت کا واحد راستہ ہے۔
اس سڑک کو 2004ء میں 37 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی حالت انتہائی خستہ ہونے پر 2017ء میں اس وقت کی حکومت کی جانب سے ترقیاتی پروگرام کے تحت اسے 25 کروڑ روپے کی لاگت سے دوبارہ بنایا گیا تاہم یہ پائیدار ثابت نہ ہوئی اور ابتدا ہی میں سڑک کی بالائی سطح اکھڑ گئی اور اندر سے پتھر باہر نکل آئے۔
گزشتہ برس کے سیلاب نے اس سڑک کی حالت مزید بگاڑ دی اور اس میں کئی کئی فٹ گہرے گڑھے پڑ گئے اور سڑک پر تعمیر کی گئی اکثر پُلیاں زمین بوس ہو گئیں۔ خطرناک حادثات کے باعث اب اسے خونی سڑک کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق گزشتہ تین برس کے دوران اس سڑک پر 58 کاریں، 99 رکشے، تین بسیں، سات ٹریکٹر اور 219 موٹر سائیکل حادثات کا شکار ہوئے۔ یوں مجموعی طور پر 386حادثات ہوئے جن میں 319 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور 862 شدید زخمی ہوئے۔
اس حوالے سے لنڈی سیدان کے رہائشی نجم عرف نجو نے بتایا کہ وہ کاروبار کے لیے روزانہ اس سڑک پر سفر کرتے ہیں۔ یہ سڑک تباہ ہو چکی ہے اور اس پر سفر کرنا انتہائی دشوار ہے۔ رات کے وقت تو بس دعائیں مانگتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔
"اگر بارش ہو تو جگہ جگہ پانی جمع ہو جاتا ہے۔ کہیں کئی کئی فٹ گہرا پانی، کہیں کیچڑ، کہیں ٹوٹی ہوئی پُلیاں اور کہیں نہروں کی طرح بہتا ہوا پانی ملتا ہے۔ اس لیے جب بھی بارش ہوتی ہے ہم تین چار دن کے لیے گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں جس سے روزی روٹی کا حصول اور دیگر معمولات زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
'انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ' سیالکوٹ کی سڑکوں پر سفر موت کا کھیل بن گیا
لال گڑھ کے رہائشی محمد طارق کا کہنا ہے کہ سڑک تباہ حال ہونے کی وجہ سے ایک سے دوسرے شہر جانا انتہائی دشوار ہے۔ رات کے وقت کوئی ایمرجنسی بھی ہو جائے تو مریض کو شہر کے ہسپتال تک نہیں لے جایا جا سکتا۔ سڑک پر رات کو پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں ملتی۔ کاروبار تو دوبارہ بحال ہو سکتا ہے لیکن انسانی زندگیوں کا کوئی متبادل نہیں۔
مقامی شہری اکرم حجانہ کے مطابق اس سڑک پر دو پل میراں پور والی پل اور قطب کینال پل بہت خطرناک ہیں۔ ان سے گزرنا کسی خطرے سے کم نہیں۔ اس کی تعمیر کے لیے درخواستیں بھی دی گئیں لیکن ان پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ علاقہ مکین صفدر مغل نے بتایا کہ اس حوالے سے محکمہ اینٹی کرپشن اور ڈپٹی کمشنر آفس کو متعدد درخواستیں دی گئیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر آفس سے رابطہ کیا گیا تو وہاں موجود ایک سرکاری افسر فیاض نے کہا کہ گزشتہ برس اس سڑک کی تعمیر شروع ہونے کو تھی کہ سیلاب نے تباہی مچا دی۔ پھر یہ منصوبہ اچانک ختم کرنا پڑا اور اس کی رقم سیلاب متاثرین کے فنڈ میں استعمال ہو گئی۔
ان کاکہنا تھا کہ فی الوقت اس سڑک کی تعمیر کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ حکام بالا سے فنڈز کے دوبارہ اجرا کے لیے کہا گیا ہے اور جیسے ہی مالی وسائل دستیاب ہوں گے تو اس کی تعمیرومرمت کا کام شروع کر دیا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 14 اکتوبر 2023