محکمہ ریلوے خرچہ بچاتا رہا، گوجرانوالا میں متروک پٹڑی بیسیوں جانیں لےگئی

postImg

احتشام احمد شامی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

محکمہ ریلوے خرچہ بچاتا رہا، گوجرانوالا میں متروک پٹڑی بیسیوں جانیں لےگئی

احتشام احمد شامی

loop

انگریزی میں پڑھیں

میں نہیں جانتا کہ میں کیسے اور کیوں زندہ بچا ہوں۔ ٹریفک حادثے نے مجھے سے ماں باپ اور بہنوں کے علاوہ زندہ رہنے کی خواہش بھی چھین لی ہے۔"

یہ کہنا ہے گوجرانوالہ کے قریب وزیر آباد کے رہنے والے 19 سالہ نوجوان محمد یاسین کا، جن کے خاندان کو دو سال قبل راہوالی کے علاقے میں جی ٹی روڈ پر حادثہ پیش آیا تھا۔ اس میں ان کے والد، والدہ اور دو بہنوں سمیت چار افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ حادثے میں محمد یاسین زخمی ہونے کے بعد 22 دن ہسپتال میں داخل رہے تھے۔

یاسین حادثے میں زندہ بچ جانے والے اس بدقسمت گھرانے کے واحد فرد ہیں۔ دو برس بیت جانے کے باوجود وہ اس صدمے سے نکل نہیں پائے۔

محمد یاسین بتاتے ہیں کہ ان کے والد دبئی میں ملازمت کرتے تھے اور وہ چھٹیوں کے سلسلے میں وطن واپس آئے ہوئے تھے۔ اس دوران ان کے ایک دوست نے انہیں اہل خانہ سمیت گوجرانوالہ کی سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں کھانے کی دعوت پر بلایا۔

"اس دن ہم سب تیار ہو کر کار میں سوار ہوئے۔ والد صاحب گاڑی چلا رہے تھے، میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ والدہ اور دونوں بہنیں پچھلی سیٹ پر تھیں۔ جب ہم راہوالی کے قریب پہنچے تو سڑک پر ریلوے کی ایک پٹڑی دیکھ کر والد صاحب نے گاڑی کو ہنگامی بریک لگائی۔ ہمارے پیچھے ایک ٹرک آ رہا تھا جس نے گاڑی کو زور دار ٹکر ماری اور وہ قلابازیاں کھاتی ہوئی کچھ دور جا کر الٹ گئی۔"

یاسین بتاتے ہیں کہ حادثے میں وہ بے ہوش ہو گئے تھے جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ حادثے کو چار روز گزر چکے ہیں۔وہ جتنے دن ہسپتال میں داخل رہے انہیں یہی کہا جاتا رہا کہ ان کے والدین اور بہنیں زندہ اور دوسرے وارڈ میں زیرعلاج ہیں۔ بائیس روز کے بعد جب انہیں ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو ان کے چچا انہیں قبرستان لے گئے اور  کہا کہ 'دعا مانگ لو، تمہارے والدین اور بہنیں اللہ تعالیٰ کے پاس جا چکے ہیں۔'

راہوالی ریلوے کراسنگ پر حادثات عام ہیں جن کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول، گاڑی یا موٹر سائیکل سوار کے ہنگامی طور پر بریک لگانے پر پیچھے سے آنے والی کوئی گاڑی اسے ٹکر مار دیتی ہے۔ دوم، ریل کی پٹڑی پر گاڑی غیر متوازن ہو کر کسی دوسری گاڑی یا ڈیوائیڈر سے ٹکرا کر الٹ جاتی ہے۔

راہوالی کے سماجی کارکن ملک توصیف کا کہنا ہے کہ وہ بارہا آواز اٹھا چکے ہیں کہ جی ٹی روڈ سے ریل گاڑی کی اس ناکارہ پٹڑی کو اکھاڑ کر سڑک ہموار کی جائے لیکن شاید حکمرانوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ عوام کے ان مسائل کی طرف توجہ دے سکیں۔

"موسم سرما میں یہاں حادثات دھند کے باعث ہوتے ہیں۔ یہ نسبتاً کھلا علاقہ ہے اور قریب ہی نہر لوئر چناب ہے اس لیے یہاں دھند زیادہ ہوتی ہے۔ موسم گرما میں شدید دھوپ پڑنے سے سڑک سے تارکول پگھل جاتا ہے اور پٹڑی کا لوہا باہر نکل آتا ہے جس سے بچنے کی کوشش میں گاڑیاں حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں۔"

ملک توصیف کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی متعدد بار یہاں سے لاشیں اٹھا چکے ہیں اور بیسیوں زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کر چکے ہیں۔

ریل کی اس پٹڑی اور کراسنگ کے آس پاس ریلوے کی اراضی پر نرسریاں بن گئی ہیں۔ اس کے علاوہ عارضی دکانیں اور کھوکھے بھی موجود ہیں۔ یہ دکانیں کس نے بنوائی ہیں اس بارے میں دکان دار بات کرنے کو تیار نہیں۔

ملک توصیف کہتے ہیں کہ محکمہ ریلوے کے اہلکاروں نے  ہی نے یہ دکانیں اور کھوکھے لگوائے ہیں اور وہ مبینہ طور پر ان سے ماہانہ رقم وصول کرتے ہیں۔

رابطہ کرنے گوجرانوالہ ریلوے سٹیشن کے سپرنٹنڈنٹ اظہار احمد خان نے بتایا کہ اس پٹڑی سے آخری مرتبہ مال گاڑی 1997ء میں گزری تھی جس کے بعد یہ روٹ ختم ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

6 ہزار حادثات، 680 ہلاکتیں، میانوالی تا مظفرگڑھ روڈ ڈیڑھ سال میں 'خونی سڑک' کیسے بنی؟

"دراصل یہ 13 کلومیٹر طویل پٹڑی ہے جو راہوالی ریلوے سٹیشن سے راہوالی کینٹ کو جاتی ہے۔ کینٹ میں آرمی والوں کے ڈپو ہیں جن کو آٹا، راشن اور دیگر اشیائے خور و نوش اور جنگی سازو سامان کی ترسیل اسی پٹڑی کے ذریعے کی جاتی تھی۔ آرمی نے 1997ء میں سامان کی ترسیل کے لیے دیگر ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیے تو یہ پٹڑی غیر مؤثر ہو گئی، یہاں سے آگے شہری آبادی موجود نہیں ہے اسی لیے محکمہ ریلوے نے اس پٹڑی کا استعمال ترک کر دیا ہے۔"

جب اظہار احمد خان سے پوچھا گیا کہ پٹڑی استعمال میں نہیں تو اسے یہاں سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ کیوں نہیں منتقل کیا جاتا جہاں اس کی ضرورت ہو، تو انہوں نے جواب دیا کہ محکمہ ریلوے کی بہت سی پٹڑیاں ایسے ہی بے کار پڑی ہیں، انہیں اکھاڑنے اور منتقل کرنے میں کافی خرچہ آتا ہے اس لیے محکمہ اس طرف توجہ نہیں دیتا۔

ملک توصیف کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی پچھلے کئی سال سے اس ریلوے کراسنگ پر درجنوں لاشیں اٹھا چکے ہیں اور یہاں حادثات میں زخمی ہونے والے بیسیوں لوگوں کو ہسپتالوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس جگہ ہونے والے حادثوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو انتظامیہ کو اس مسئلے کے حل پر فوری توجہ دینی چاہیے وگرنہ یہ کراسنگ انسانی جانوں کے لیے سنگین خطرہ بنی رہے گی۔

تاریخ اشاعت 18 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.