بارہ سالہ یحییٰ عالم چھٹی کے طالب علم تھے اور ان کا گھر گلگت شہر کے مرکزی علاقے دیامر کالونی میں واقع ہے۔ اگست کے پہلے ہفتے وہ کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلے تو صوبائی سیکرٹریٹ کے قریب انہیں کتے نے کاٹ لیا۔
یحییٰ عالم کے والد مشروف خان بتاتے ہیں کہ وہ فوری طور پر بیٹے کو ریجنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے گئے جو قریب ہی چار کلومیٹر پر واقع ہے۔ وہاں ڈاکٹروں کو بتایا کہ بچے کو پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے۔
"میرے بیٹےکو کسی نے کتے کے کاٹے کی ویکسین ( انٹی ریبیز) نہیں لگائی جو شاید ہسپتال میں میسر ہی نہیں تھی۔ البتہ ڈاکٹروں نے کچھ ادویات وغیرہ لکھ دیں جو ہم نے بازار سے خریدیں اور یحییٰ کو گھر واپس لے آئے۔"
ایک ماہ کچھ دن گزرے کہ یحییٰ کی طبیعت بگڑنا شروع ہو گئی۔
"ہم اسے دوبارہ آر ایچ کیو ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں کو جب کتے کے کاٹے کا بتایا تو وہ گھبرا گئے اور کہا کہ اس پر رببیز کا حملہ ہو گیا ہے اسےفوری طور پر اسلام آباد لے جائیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کرائے پر گاڑی حاصل کی اور اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ بچے کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی اور وہ راستے میں گاڑی تیز چلانے یا شیشہ کھولنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔
"اسے(بچے کو) سپیڈ اور ہوا سے خوف آتا تھا وہ گاڑی کی معمولی سپیڈ بڑھنے پر بھی ڈرائیور پر حملہ آور ہو جاتا۔ آخر کار ہم گاڑی کے شیشے نیچے کیے بغیر 25 گھنٹوں بعد پمز ہسپتال پہنچے۔"
پمز میں ڈاکٹروں نے معمولی چیک اپ کیا اور مریض کو پشاور بھیج دیا۔
یحییٰ عالم کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل کیے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ وہ دم توڑ گیا۔
تیرہ ستمبر کو یحییٰ عالم کی اندوہناک موت کے بعد گلگت بلتستان میں ریبیز سے ہلاکتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور اگست سے اب تک یعنی تین ماہ میں گیارہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
ریبیز یا باؤلاپن کیا ہے؟
امریکی ادارہ سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول بتاتا ہے کہ ریبیز یا باؤلا پن وائرل بیماری ہے جو انسانوں اور پالتو جانوروں میں کسی متاثرہ جانور (میمل) کے کاٹے یا خراشیں ڈالنے سے پھیلتی ہے۔ اگر متاثرہ شخص کو علامات شروع ہونے سے پہلے طبی امداد نہ ملے تو یہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ریبیز ایشیائی اور افریقی ممالک میں زیادہ سنگین مسئلہ ہے جس سے دنیا بھر میں سالانہ 59 ہزار اموات ہوتی ہیں۔تاہم کم رپورٹنگ کی وجہ سے اموات کا ڈیٹا اکثر اندازوں سے مختلف ہوتا ہے۔
اس وائرس سے عالمی نقصان کا تخمینہ تقریباً 8.6 ارب امریکی ڈالر سالانہ ہے۔
عالمی ادارہ کہتا ہے کہ یہ بیماری مرکزی اعصابی نظام پر حملہ کرتی ہے۔ انسانوں میں اس وائرس کی منتقلی کے 99 فیصد کیسز کتے سے متاثر ہوتے ہیں جن کے بیشتر شکار پانچ سے 14 سال کی عمر کے بچے بنتے ہیں۔
تاہم ریبیز کو بیماری کی علامات سامنے آنے سے پہلے صرف ویکسین سے روکا جاسکتا ہے۔
ریبیز یا باؤلے پن کی علامات
آر ایچ کیو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اقبال عزیز بتاتے ہیں کہ باؤلے جانور کے کاٹے شخص پر کم از کم چھ روز بعد وائرس کے اثرات شروع ہوتے ہیں۔ پھر کسی بھی وقت ہنگامی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
"مریض کو روشنی، پانی اور تیز رفتاری سے خوف آنا، جسمانی تھکاوٹ ہونا وغیرہ ریبیز کی اہم علامات ہیں۔ متاثرہ شخص کو تیز بخار، قے، سر درد کے ساتھ یاداشت کی خرابی و دیگر اعصابی مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔"
گلگت شہر میں دو بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جن میں ایک صوبائی ہیڈکوارٹرز (پی ایچ کیو) اور دوسرا ریجنل ہیڈ کوارٹرز(آر ایچ کیو) ہسپتال ہے جو شہید سیف الرحمن کے نام سے منسوب ہے۔
سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ پی ایچ کیو ہسپتال میں پچھلے تین ماہ کے دوران کتے کے کاٹے 166 افراد آئے جبکہ آر ایچ کیو ہسپتال میں71 افراد لائے گئے جن میں ایک بلی کا کاٹا بھی شامل تھا۔
ریکارڈ کے مطابق دونوں ہسپتالوں میں آنے والے تمام متاثرہ افراد کو ریبیز ویکسین لگائی گئی تاہم ان میں سے چار افراد پی ایچ کیو میں علاج کے دوران دم توڑ گئے جبکہ ایک آر ایچ کیو ہسپتال میں چل بسا۔
ان پانچ اموات میں ان افراد کے نام شامل نہیں جو ان دونوں ہسپتال سے ریفر کیے گئے یا گھروں میں دم توڑ گئے۔
ان ہسپتالوں کے علاوہ یہاں ہلاک ہونے والے مقامی افراد میں 12سالہ یحییٰ عالم، پانچ سالہ عائشہ ساکن اولڈ پولوگراؤنڈ، وقار عباس ولد زبیر عباس، افتخار حسین، شاد علی اور ریان عباس ساکنان دنیور شامل ہیں۔
جاں بحق افراد کے لواحقین الزام عائد کرتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے ان کے عزیزوں کا معمولی معائنہ کیا۔ انہیں ریبیز کے مریض کے طور پر نہیں دیکھا اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو ویکسین دی گئی۔
پی ایچ کیو کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ باؤلے کتے کے کاٹے مریض میں فوری آثار نمودار نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو انہیں جانچنا مشکل ہوتا ہے۔ جب تک ڈاکٹر کو کتے کے کاٹے کا نہ بتایا جائے تب تک ویکسین نہیں دی جاتی۔
یحییٰ عالم سے قبل دو اگست کو محلہ امپھری گلگت کے مسعود الرحمن کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا تھا۔ وہ ٹانگ سے بہتے خون کے ساتھ شہید سیف الرحمن(آر ایچ کیو) ہسپتال پہنچے جہاں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے ان کی شناسائی تھی۔
خوش قسمتی سے انہیں نہ صرف ریبیز ویکسین میسر آ گئی بلکہ امیون گلوبلین بھی دی گئی جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہے۔
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی جانور کاٹتا ہے جو ممکن ہے ریبیز وائرس(باؤلے پن) کا شکار ہو تو اسے فوراً ریبیز امیون گلوبلین اور ریبیز ویکسین لگوانی چاہیے۔
ریبیز امیون گلوبلین اور ریبیز ویکسین کیا ہیں؟
ہیلتھ لنک برٹش کولمبیا کے مطابق باؤلے کتے یا جانور کے کاٹے کسی بھی شخص کو عام طور پر دو قسم کے انجیکشن(ٹیکے) وقفوں وقفوں سے لگائے جاتے ہیں جن میں ریبیز امیون گلوبلین اور ریبیز ویکسین شامل ہیں۔
ریبیز امیون گلوبلین، جسم میں ریبیز کا سبب بننے والے وائرس کے خلاف فوری اور قلیل مدتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس انجیکش میں انسانی خون سے لی گئی اینٹی باڈیز کی بڑی مقدار ہوتی ہے جو بیکٹیریا اور وائرس سے لڑنے میں مدافعتی نظام کی مدد کرتی ہے۔
ریبیز ویکسین، ریبیز وائرس سے ہونے والے انفیکشن کے خلاف دیرپا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ ویکسین مردہ ریبیز وائرس سے بنائی جاتی ہے اور یہ محفوظ ہوتی ہے۔
پاکستان میں بیشتر سرکاری ہسپتالوں کا المیہ یہ ہے یہاں اکثر اوقات ریبیز ویکسین ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو ریبیز امیون گلوبلین نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر سرتاج بتاتے ہیں کہ دیامر کالونی کے یحییٰ عالم کو جب ہسپتال داخل کیا گیا تو یہ کیس ڈیڑھ ماہ پرانا ہو چکا تھا۔
"تاہم جونہی اموات اور مریضوں کی تعداد بڑھی تو ہم نے فوراً ریبیز ویکسین کا بندوبست کیا اور امینوگلوبولین بھی منگوالی گئی۔"
پانچ سالہ عائشہ کے والد تنویر احمد پی ایچ کیو میں تمام متاثرین کو ویکسین فراہم کرنے کے انتظامیہ کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ایچ کیو میں نہ تو ویکسین تھی اور نہ ہی بچوں کےلیے وینٹی لیٹر تھا۔
"کتے کے حملے کا بتانے کے باوجود میری بیٹی کو ہسپتال میں ویکسین مہیا نہیں کی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ریبیز ویکسین نہیں ہے جس پر میں بازار سے خرید لایا لیکن بدقسمتی سے وہ ناقص نکلی۔"
تنویر نے بتایا کہ وہاں وینٹی لیٹر تک نہیں تھا جس کی وجہ سے انہیں بیٹی کو سی ایم ایچ لے جانا پڑا جہاں وہ نصف گھنٹے بعد انتقال کر گئیں۔
"ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی نے ناقص ویکسین کا نوٹس لیا نہ ہی وینٹی لیٹر کی عدم دستیابی کا۔"
ایم ایس ڈاکٹر سرتاج ہسپتال میں بچوں کے وینٹی لیٹر نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ تاہم اصرار کرتے ہیں کہ عائشہ کو ویکسین باہر سے ملی لیکن بروقت دی گئی تھی۔
گلگت بلتستان کی مجموعی آبادی لگ بھگ 17 لاکھ ہے جہاں ریبیز سے تین ماہ میں 237 افراد متاثرہ ہوئے اور 11 اموات ہوئیں جو تشویشناک ہے۔
امریکا میں سالانہ ریبیز کے تقریباً چار ہزار مشتبہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے 90 فیصد سے زیادہ لوگ خون آشام چمگادڑوں، ریکونز، سکنکس اور لومڑیوں کے متاثرہ ہوتے ہیں۔
2021ء کے دوران امریکا میں ریبیز سے صرف پانچ ہلاکتیں ہوئیں جس کی وجہ ماہرین کووڈ-19 کا لاک ڈاؤن بتاتے ہیں جب لوگ زیادہ تر گھروں میں رہے۔
اس حساب سے گلگت بلتستان میں ریبیز سے ہلاکتوں کی تعداد بہت ہی غیر معمولی ہے جہاں عام طور پر کتے کے کاٹے لوگ ہی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
اگرچہ آر ایچ کیو گلگت کے وارڈ ماسٹر کا کہنا تھا کہ اب یہاں ریبیز ویکسین اور ریبیز امیون گلوبلین وافر مقدار میں دستیاب ہے جس کی ایک خوراک (ڈوز) 35 ہزار روپے میں پڑتی ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کیا یہ اقدام ریبیز سے اموات روکنے کے لیے کافی ہے؟
ریبیز کو روکنا کیسے ممکن ہے
تیسری دنیا کے ممالک میں کتوں کی آبادی کنٹرول کرنے کا روایتی طریقہ ان کو فائرنگ کر کے یا زہریلی گولیاں دے کر ہلاک کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
قصور میں آوارہ کتوں کا خاتمہ آخر کس کی ذمہ داری ہے؟
گلگت بلتستان حکومت کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ بتاتے ہیں کہ گلگت شہر میں 15 ہزار کے قریب کتوں کی موجودگی بتائی جاتی ہے جن میں سے ڈیڑھ ہزار کو 'کتا مار مہم' کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
"ہم کتوں کی ویکسینیشن شروع کر رہے ہیں جس کے لیے مختلف غیرسرکاری تنظیموں سے رابطے کیے گئے ہیں۔ لوگوں کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے پالتو کتوں کو ویکسین کرائیں۔"
جمشید احمد، غیر سرکاری تنظیم 'کمپری ہینسو ڈیزاسٹر ریسپانس سروس '(سی ڈی آر ایس) کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ریبیز پر قابو پانے کا بہترین طریقہ ٹی این وی آر (ٹریپ، نیوٹر، ویکسینیٹ اینڈ ریٹرن)ہے۔ یعنی کتے یا بلی کو پکڑو، اس کی تولیدی صلاحیت ختم کرو اور اسے ویکسین کر کے چھوڑ دو۔
"ہماری تنظیم نے پچھلے سال سکردو میں آوارہ کتوں کو ریبیز سے محفوظ کرنے کے لیے سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا جس میں کم از کم 900 کتوں کو پکڑ کر ان کی تولیدی صلاحیت ختم کی گئی۔ دوسرا ان کتوں کو ویکسین دی گئی جس سے ان میں ریبیز پیدا نہیں ہوتا۔"
وہ کہتے ہیں کہ کتوں کو گولی مارنے سے ریبیز(وائرس) یا باؤلے پن کا پھیلاؤ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے اور سی ڈی آر ایس یہاں حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی این وی آر کے ذریعے انسانوں اور جانوروں دونوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ گلگت بلتستان حکومت کو اس کے لیے فنڈنگ کرنی چاہیے تاکہ یہ خطہ کتوں کو مارنے کے ظالمانہ چکر سے نکلے اور ریبیز کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے۔
تاریخ اشاعت 6 نومبر 2024