سیاہ و سفید بھاری مونچھوں اور قدرے بڑھی ہوئی داڑھی والے گندمی رنگ کے سوکھے پتلے پُنھل، جو دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے سر پر ایک دھاری دار صافہ باندھے رکھتے ہیں، ’چوکی جمالی‘ چھوڑنے کو کسی صورت تیار نہیں۔
وہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سے تقریباً 350 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ضلع جعفر آباد کی تحصیل گنداخہ میں صوبہ سندھ کی سرحد سے متصل ’چوکی جمالی‘ نامی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ وہ روزانہ گاؤں سے کچھ ہی فاصلہ پر سیف ﷲ کینال کے کنارے لگے ہینڈ پمپس سے کینوں میں پانی بھر کر اپنی گدھا گاڑی پر لادتے اور گاؤں میں گھروں کے سامنے اُتارتے نظر آتے ہیں۔
اس سال اگست کے مہینے میں آنے والے سیلاب کے ریلے کو یہاں سے گزرے تین ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن گھروں کی دیواروں پر سیلابی پانی کے چھوڑے ہوئے نشانات سے اس کی طغیانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
چوکی جمالی کے زیادہ تر لوگوں کے معاش کا دارو مدار زراعت اور مویشی پروری سے منسلک ہے لیکن سیلاب کے بعد کئی گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں اور مال مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ نیشنل ڈایزاسٹر مینجمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ سیلاب میں پاکستان میں سات لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہوئے جن میں سے پانچ لاکھ صرف بلوچستان کے ہیں۔
چوکی جمالی کے مقامی لوگوں کے مطابق اس گاؤں کے پانچ لوگ گھروں کے گرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے جبکہ دیگر چار افراد سیف ﷲ کینال میں طغیانی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ سیلابی پانی کے خشک ہونے کے بعد زرعی زمین پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہے جس پر سرِ دست کسی بھی فصل کی کاشت ممکن نظر نہیں آتی۔
پُنھل کا چھوٹا سا گھر بھی سیلابی پانی میں بہہ گیا۔ سیلاب سے پہلے ان کی معاشی حالت قدرے بہتر تھی۔ ان کے پاس 45 بھیڑیں اور 20 بکریاں تھیں جن میں سے کچھ مویشی وہ سال کے مختلف اوقات میں بیچ کر اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ سیلاب ان کی 30 بھیڑیں اور 10 بکریاں بہا لے گیا۔
تو تیر آزما، ہم ہنر آزمائیں!
لگ بھگ 60 سالہ پُنھل 2010 اور 2012 میں بھی سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر کی بربادی دیکھ چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ اس بار بھی وہ پُر اُمید ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جب تک جسم و جاں کا رشتہ باقی ہے میں کام کرتا رہوں گا، اس بار بھی اپنا گھر تعمیر کر لوں گا اور بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی بنا لوں گا۔‘‘
اسی جذبہ کے تحت سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد پانچ افراد پر مشتمل اپنے کنبے کی کفالت کے لئے پُنھل نے گدھے کو ہانکنے والی چھڑی اٹھائی، گدھا گاڑی نکالی اور گاؤں کے لوگوں کو پانی ڈھونا شروع کر دیا۔ اس سے انہیں روزانہ کے ایک ہزار روپے تک آمدن ہو جاتی ہے۔
وہ ہر روز 30 لیٹر کے 15 سے 20 پانی کے کین اپنی گدھا گاڑی پر لاد کر گاؤں کے لوگوں کو 50 روپے فی کین کے حساب سے فروخت کر دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کا بیٹا بھی کبھی کبھار محنت مزدوری کر کے گھر کے خرچہ میں ان کا ہاتھ بٹا دیتا ہے لیکن خاندان کی گزر بسر کا بنیادی انحصار ان ہی کی کمائی پر ہے۔
پُنھل تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سیف ﷲ کینال پر نصب ہینڈ پمپس سے پانی بھرتے ہیں۔ واپسی پر گدھا گاڑی پر پانی کا بوجھ ہونے کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے اتنا ہی فاصلہ طے کر کے واپس گاؤں آتے ہیں۔ وہ اپنا کام اتنی باقاعدگی اور ذمہ داری سے کرتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے لوگ از راہِ تفنن کہتے ہیں کہ ’’شہر والے اگر منرل واٹر پیتے ہیں تو ہم بھی پُنھل واٹر پیتے ہیں۔‘‘
ضلع جعفر آباد کے دوسرے علاقوں کی طرح چوکی جمالی کے لوگوں کو بھی پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مسلسل سیلاب آتے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پانی کے ذخائر آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔ سب سے بڑا نقصان 2010 اور 2012 کے سیلابوں میں ہوا۔ بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے مطابق 2010 کے سیلاب میں ضلع جعفر آباد کے مجموعی طور پر 1009 پانی کے ذرائع تباہ ہوئے۔ اس علاقے میں زیر زمین پانی کھارا ہے جو پینے کے قابل نہیں ہے۔ اس لئے چوکی جمالی اور ارد گرد کے باسیوں کو روزانہ کی بنیاد پر سیف اللہ کینال پر لگے ہینڈ پمپس سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔
پُنھل کو اگرچہ گلہ ہے کہ جب سیلاب آیا تو کوئی امدادی ادارہ ان کی مدد کے لئے نہیں آیا لیکن انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ان کے گاؤں کے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تحصیل گنداخہ میں سب سے پہلے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی بحالی کا کام شروع کر دیا تھا۔ اس ضمن میں چوکی جمالی کے باسیوں نے لاہور سے ڈاکٹر بلوا کر صحت کیمپ بھی لگایا اور اب گھر بنانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
ادھیڑ عمر مگر جواں ہمت پُنھل کہتے ہیں’’میں نے مقامی لوگوں کی مدد سے بانسوں سے بنا ہوا گھر بنا لیا ہے جس کی وجہ سے کم از کم یہ سردی ہمیں کھلے آسمان تلے نہیں گزارنی پڑے گی۔‘‘
ان تمام مشکلات کے ساتھ ساتھ پُنھل کے گھر کے تمام افراد ملیریا اور جلد کی بیماریوں کا بھی شکار رہے لیکن اس کے باوجود وہ اس جگہ کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
’’میں کہیں اور جاتا ہوں تو میرا سانس گُھٹنے لگتا ہے، میں کہیں مزدوری کے لئے جاؤں گا بھی تو واپس اِدھر ہی آؤں گا کیونکہ میرے آبا و اجداد کی قبریں یہاں ہیں، میں یہیں جیئوں مروں گا۔‘‘
تاریخ اشاعت 30 نومبر 2022