بلوچستان کے ضلع صحبت پور سے تعلق رکھنے والے بائیس سالہ محمد عالم پچھلے ڈیڑھ مہینے سے معدے کی بیماری میں مبتلا ہیں جس کے باعث ان کی صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ گوٹھ مراد علی میں ان کے گھر اور زرعی اراضی کو اگست میں آنے والے سیلاب نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے والد بھنڈ اور مانجھی نامی علاقوں کے درمیان رکشہ چلا کر آٹھ افراد پر مشتمل گھرانے کا پیٹ پالتے ہیں۔ اس آمدنی سے وہ بمشکل دو وقت کی روٹی پیدا کرتے ہیں جس کے بعد ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ بیٹے کا علاج کروا سکیں۔
عالم کا کہنا ہےکہ سیلاب سے پہلے وہ زمین کرائے (بزگری) پر لے کر اس پر کاشت کاری کرتے تھے لیکن سیلاب کے بعد ان کا یہ ذریعہ آمدنی فی الوقت ختم ہو گیا ہے۔ سیلاب نے اس علاقے میں گھروں، کھڑی فصلوں، پانی کی فراہمی کے نظام اور رابطہ سڑکوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے گاؤں میں اب بھی سیلاب کا پانی جمع ہے اور لوگ اسی میں سے گزر کر اپنے گھروں کو آتے جاتے ہیں۔
سیلاب سے پہلے اس علاقے میں لوگ پینے کا صاف پانی قریبی نہر کے کنارے نلکوں سے حاصل کیا کرتے تھے کیونکہ گوٹھ کے باہر نصب نلکوں میں صاف پانی نہیں آتا تھا۔ سیلاب کے بعد نہر تک جانے والے راستے بند ہیں جس کے باعث مقامی لوگ گوٹھ کے باہر لگے نلکوں کا پانی پی رہے ہی جسے زیرزمین سرایت کرنے والے سیلابی پانی نے انتہائی حد تک آلودہ کر دیا ہے۔ عالم کا کہنا ہے کہ ان کی بیماری کا سبب یہی آلودہ پانی ہے جس کی تصدیق ڈاکٹر بھی کر چکے ہیں۔
عالم بتاتے ہیں کہ سیلاب کے بعد گوٹھ کے نلکوں میں آنے والے پانی کا ذائقہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ ان کے گوٹھ میں یہ پانی پینے والے بہت سے لوگ انہی کی طرح پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ عالم کا کہنا ہے کہ ان کے علاج پر آنے والا ماہانہ خرچ دس ہزار روپے ہے۔
موجودہ حالات میں ان کے لیے اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے اور اسی لیے ان کی بیماری ناصرف برقرار ہے بلکہ اس میں مزید شدت بھی آتی جا رہی ہے۔
ستر سالہ محمد اسلم کھوسہ کی مشکلات محمد عالم سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ اپنی قمیض اٹھا کر جسم پر دل کے بائی پاس آپریشن کے نشان دکھاتے اور بتاتے ہیں کہ شہر کے سرکاری مراکز صحت میں ان کے لیے کوئی دوائی دستیاب نہیں ہے۔ سیلاب کے بعد جب فصلیں، گھر اور روزگار کے مواقع تباہ ہو چکے ہیں تو ان کے لیے نجی ہسپتالوں سے چیک اپ کرانا اور میڈیکل سٹور سے دوائی خریدنا آسان نہیں رہا۔
گوٹھ مراد علی کا بنیادی مرکز صحت پچھلے چار ماہ سے بند پڑا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق سیلاب کے بعد بیماریاں پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جس پر قابو پانے کے لیے اس مرکز صحت کو ہنگامی طور پر فعال کرنا چاہئے تھا لیکن انتظامیہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔
طبی سہولیات کا فقدان
صحبت پور میں ریجنل ہیلتھ سینٹر (آر ایچ سی) اور تحصیل کی سطح کا کوئی ہسپتال موجود نہیں ہے اور یہاں مقامی بنیادی مرکز صحت کو ہی ضلعی ہسپتال کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ نے پچاس بستروں پر مشتمل ضلعی ہسپتال بنانے کے لئے سال 2020-21 کے بجٹ پانچ کروڑ روپے رکھے تھے لیکن تاحال یہ ہسپتال فعال نہیں ہو سکا۔
صحبت پور کے ضلعی مینیجر سپورٹ (پی پی ایچ آئی) شاہ جہان کہتے ہیں کہ "یہ ضلع 2013 میں جعفرآباد سے علیحدہ ہوا تھا اور 2017 تک یہاں صحت کے نظام میں کوئی ترقی نہیں ہوئی اور اسے جعفر آباد سے ہی چلایا جاتا رہا۔ بارہ سال میں سیلاب نے تیسری مرتبہ ان علاقوں کو متاثر کیا ہے جس سے صحت کے مسائل دوچند ہو گئے ہیں۔ ضلعی ہسپتال کو جون 2022 میں مکمل ہونا تھا لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے وہ تاخیر کا شکار ہے اور اس کی ادھوری عمارت تاحال سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے''۔
اس وقت صحبت پور میں صحت کی تمام سہولیات بنیادی سطح کی ہیں۔ یہاں نہ تو کوئی گائناکولوجسٹ ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی معیاری لیبارٹری وجود رکھتی ہے۔ پورے ضلعے میں مجموعی طور پر انیس بنیادی مرکز صحت قائم ہیں۔ جن میں سے عبدالعزیز کھوسہ، آدم پور، ڈرگی اور گوٹھ مراد علی کے مراکز سیلابی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔
صحبت پور کے بنیادی مرکز صحت میں ادویات کا ماہانہ بجٹ محض 35 ہزار روپے ہے۔ اسی حساب سے انیس مراکز صحت کا ماہانہ بجٹ 6 لاکھ 65 ہزار روپے بنتا ہے۔ اس بجٹ کو صحبت پور کی دو لاکھ 538 نفوس پر مشتمل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ہر فرد کے حصے میں ماہانہ تین روپے 31 پیسے آتے ہیں۔
سیلاب کے بعد ان علاقوں میں ملیریا کی بیماری بھی پھیلی ہوئی ہے۔ رواں مہینے صحبت پور میں ملیریا کے 90 ہزار ٹیسٹ کیے گئے جن میں تقریباً 65 ہزار افراد اس بیماری سے متاثر پائے گئے جن میں دماغی ملیریا کے مریض بھی شامل ہیں۔ طبی مراکز اور سستے علاج کے فقدان کے باعث پیٹ کے امراض اور ملیریا نے وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔
شاہ جہان کہتے ہیں کہ ان کے محکمے نے سیلاب سے متاثر ہونے والے مراکز صحت کی بحالی کا کام شروع کر رکھا ہے جس میں یونیسف اور عالمی ادارہ صحت نے بھی تعاون کی یقین دھانی کروائی ہے جو ان مراکز کی مرمت کے ساتھ فرنیچر بھی مہیا کریں گے۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس پر صرف بات چیت ہی ہوئی ہے اور ابھی مراکز صحت کی بحالی کا کوئی شیڈول نہیں دیا جا سکتا۔
محمد عالم اور اسلم کھوسہ کا کہنا ہے کہ ان کے ضلعے میں صحت کا نظام پہلے ہی کچھ اچھا نہیں تھا لیکن سیلاب نے ان سے بچی کھچی طبی سہولتیں بھی چھین لی ہیں۔ سیلاب کے دوران ایک حادثے میں اسلم کھوسہ کو ٹانگ پر لگنے والا زخم بھی تاحال مندمل نہیں ہو سکا کیونکہ اس زخم پر پٹی کروانے کے لیے انہیں روزانہ سیلابی پانی سے گزر کر دوسرے علاقے میں جانا پڑتا ہے جس سے یہ زخم دوبارہ خراب ہو جاتا ہے۔
تاریخ اشاعت 14 دسمبر 2022