پنجاب کے محکمہ زراعت کی ایک ٹیم نے 20 اپریل 2022 کی سہ پہر تین بجے زمیندارہ زرعی مرکز نامی ایک دکان پر چھاپا مارا اور وہاں سے ایک غیر معیاری زرعی دوا کے 15 سو تھیلے قبضے میں لے لیے۔ چاول کی فصل کو کیڑوں سے بچانے کے لیے استعمال کی جانے والی اس دوا کی فروخت سے دکان کے مالک کو مجموعی طور پر ساڑھے27 لاکھ روپے آمدن ہونا تھی۔
یہ چھاپا وسطی پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے جنوبی حصے میں واقع وڈالہ سندھواں نامی قصبے میں مارا گیا۔ اس کی نگرانی محکمہ زراعت کے ذیلی ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار غوری کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ چھاپے کے دوران ایک مقامی سیاست دان سمیت کئی بااثر لوگوں نے انہیں فون کر کے کہا کہ وہ اس معاملے پر مزید کارروائی نہ کریں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ "میں نے ان سب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تمام غیر معیاری دوا اگلی صبح سات بجے متعلقہ تھانے میں منتقل کر کے اس کے بارے میں مقدمہ بھی درج کرا دیا"۔
زمیندارہ زرعی مرکز سے برآمد ہونے والی ناقص دوا کا نام سپائنو سٹار ہے جو نیو کیم (Nuchem) پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی تیار کرتی ہے۔ یہ کمپنی ملتان کے ایک بڑے کاروباری ادارے، پیٹرن گروپ (Patron Group)، کا حصہ ہے۔ اس لیے مقدمے میں زمیندارہ زرعی مرکز کے مالک محمد رضوان کے ساتھ ساتھ اس گروپ کے چیئرمین خواجہ ریاض حسین صدیقی اور اس کے ریجنل منیجر عبدالوحید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
ذوالفقار غوری کہتے ہیں کہ مقدمے کے اندراج کے بعد انہیں ان کے محکمے کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل (جن کی شناخت وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے) نے فون کرکے کہا کہ وہ خواجہ ریاض حسین صدیقی کا نام اس میں سے نکال دیں۔ زرعی ادویات بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کی انجمن، پاکستان کراپ پروٹیکشن ایسوسی ایشن، کے بعض عہدے داروں نے بھی انہیں فون کر کے یہی کہا۔
ان کے مطابق ان پر ڈالے جانے والے اس دباؤ کی بنیادی وجہ خواجہ ریاض حسین صدیقی کا اثرورسوخ ہے۔ وہ نہ صرف پاکستان کراپ پروٹیکشن ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں بلکہ ایوان صنعت و تجارت ملتان کے بھی ایگزیکٹو ممبر ہیں۔
کاروباری اداروں کی مالی صحت کا جائزہ لینے والے نجی ادارے، پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی لمیٹڈ، کی فروری 2020 میں جاری کردہ ایک رپورٹ بھی پیٹرن گروپ کی صنعتی اور تجارتی اہمیت واضح کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ گروپ پاکستان میں زرعی ادویات فروخت کرنے والے آٹھ بڑے کاروباری اداروں میں سے ایک ہے۔
تاہم ذوالفقار غوری کا دعویٰ ہے کہ صرف پیٹرن گروپ ہی نہیں بلکہ پاکستان میں زرعی ادویات بنانے اور بیچنے والے اکثر لوگ انتہائی بارسوخ ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر وہ پچھلے سال اپنے ساتھ پیش آنے والے دو واقعات کا حوالہ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دو ستمبر 2021 کو انہوں نے سیالکوٹ شہر سے لگ بھگ 35 کلومیٹر جنوب میں واقع چاول چھڑنے کے ایک کارخانے، بریار رائس مل، پر چھاپہ مارا جہاں تقریبا آٹھ لاکھ سے دس لاکھ روپے مالیت کی زائد المیعاد زرعی ادویات ذخیرہ کی گئی تھیں۔ یہ ادویات ایک غیر ملکی کمپنی، سجنٹا انٹرنیشنل، اور دو مقامی کمپنیوں، ویلکان اور واربل، کی تیار کردہ تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ مِل ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکنِ پنجاب اسمبلی احسن سلیم بریار کے ایک قریبی رشتہ دار کی ملکیت ہے اور یہ کہ وہاں موجود چند لوگوں نے اُن کی طرف سے کی جانے والی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بھی کی۔ بعد ازاں، ان کے مطابق، صوبائی محکمہ زراعت کے ایڈیشنل سیکرٹری (برائے ٹاسک فورس) رانا علی ارشد کو تین سے چار بار وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں پیش ہو کر اس معاملے پر وضاحت پیش کرنا پڑی کیونکہ "احسن سلیم بریار اس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید کے داماد ہیں"۔
ان کے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (جو بظاہر پاکستان تحریک انصاف کی شدید مخالف ہے) سے تعلق رکھنے والے رکنِ پنجاب اسمبلی چوہدری نوید اشرف نے بھی انہیں کئی فون کر کے اس معاملے کو رفع دفع کرنے کا کہا۔
دوسرے واقعے میں انہوں نے اوائل 2021 میں ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں واقع قلعہ کالروالہ نامی گاؤں میں زرعی ادویات فروخت کرنے والی ایک بڑی دکان، رحمان ٹریڈرز، پر چھاپہ مارا اور سجنٹا کی تیارکردہ ایک زرعی دوا کی نقلی کھیپ قبضے میں لے لی۔ اس وقت اس علاقے میں واقع قومی اسمبلی کے حلقے این اے-75 میں ضمنی انتخاب ہو رہے تھے۔ ذوالفقار غوری کا دعویٰ ہے کہ دکان کے مالک عبدالرحمان ضمنی انتخاب میں حصے لینے والے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس چھاپے کے نتیجے میں انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
با اثر مالکان بے اثر ادویات
پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی لمیٹڈ کی فروری 2020 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر سال 65 ارب سے 70 ارب روپے کی زرعی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ ان میں سے 34 فیصد ادویات تین غیرملکی کمپنیاں (سجنٹا، ایف ایم سی، بائیر کراپ سائنسز پاکستان) تیار کرتی ہیں جبکہ ان میں سے 47 فیصد صرف آٹھ پاکستانی کاروباری اداروں کی تیار کردہ ہوتی ہیں۔ (باقی 19 فیصد حصہ پنجاب میں رجسٹرڈ چار سو 36 چھوٹی چھوٹی کمپنیوں میں بٹ جاتا ہے۔)
ان آٹھ پاکستانی اداروں میں اوریگا گروپ اور سائبان انٹرنیشنل شامل ہیں جو مجموعی طور پر ملک میں فروخت ہونے والی 10 فیصد زرعی ادویات تیار کرتے ہیں۔ تین دیگر کاروباری ادارے، الہ دین گروپ، فور برادرز گروپ اور تارا گروپ، سات سات فیصد دوائیاں بناتے اور فروخت کرتے ہیں جبکہ سن کراپ نامی گروپ کا حصہ چھ فیصد اور علی اکبر گروپ آف کمپنیز اور پیٹرن گروپ کا حصہ پانچ پانچ فیصد ہے۔
ان اداروں میں سے بیشتر ایسے لوگوں کی ملکیت ہیں جو سیاسی طور پر بہت اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ ان میں سرِفہرست سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی جمشید اقبال چیمہ ہیں جن کا خاندان اوریگا گروپ اور سائبان انٹرنیشنل کا مالک ہے۔ اسی طرح الہ دین گروپ چوہدری افتخار نذیر کے خاندان کی ملکیت ہے جو 2002 سے ضلع خانیوال کی انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں۔ اُس سال انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 2008 میں انہوں نے دوبارہ اُسی پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب قرارپائے۔ تاہم 2013 اور 2018 کے انتخابات انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے جیتے۔ ان کے بھائی عطا الرحمان جہانیاں کی مقامی حکومت کے سربراہ رہ چکے ہیں اور اس وقت پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔
سن کراپ گروپ کے مالکان بھی انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں۔ یہ گروپ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے پتافی برادران کی ملکیت ہے جن میں سے ایک، محمد حنیف پتافی، اس وقت پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں اور سابق وزیر اعلی عثمان بزدار کے امورِ صحت کے مشیر رہ چکے ہیں۔ ان کے کاروباری ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے علی اکبر گروپ کے اکثریتی حصص بھی حاصل کر لیے ہیں۔
تارا گروپ پاکستان کے ڈائریکٹر چوہدری مقصود احمد بھی سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی انتظامیہ میں کھادوں، زرعی ادویات اور بیجوں کی نگرانی کرنے کے لیے بنائی گئی چیف منسٹر ٹاسک فورس کے رکن کی حیثیت سے شامل تھے۔ انہی کی طرح علی اکبر گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو غوث اکبر بھی وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کی طرف سے بنائی گئی ٹاسک فورس برائے لاہور کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ سپین کے اعزازی قونصل جنرل بھی ہیں۔
ان کے برعکس فور برادرز گروپ کے مالک جاوید سلیم قریشی کسی سیاسی یا حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہے لیکن وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کےسربراہ رہ چکے ہیں جو ملک میں انجینئرنگ کی تعلیم کی نگرانی کرتی ہے اور انجینئرنگ کے پیشے کے لیے ضابطہ ہائے کار متعین کرتی ہے۔ پیٹرن گروپ کے چیئرمین خواجہ ریاض حسین صدیقی بھی مختلف کاروباری انجمنوں کے اہم عہدے دار ہیں۔
طاقت اور اتھارٹی
ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز پنجاب کے جمع کردہ اعدادوشمار کہتے ہیں کہ اس کے اہل کاروں نے 2016 کے آغاز سے لے کر فروری 2022 تک زرعی ادویات کے 61 ہزار کے قریب نمونوں کا جائزہ لیا جن میں سے دو ہزار سے زائد ناقص قرار پائے۔ اسی عرصے میں حکومتی اہل کاروں نے 51 کروڑ 34 لاکھ 20 ہزار روپے مالیت کی جعلی زرعی ادویات بھی قبضے میں لیں جبکہ دو ہزار تین سو کے قریب ایسے لوگوں کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے جو ان ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث تھے۔
حکومت پنجاب کے تحت کام کرنے والی زرعی ٹاسک فورس کی ٹیموں نے بھی ان سالوں میں 30 ہزار کے قریب چھاپے مارے جن کے دوران 69 کروڑ روپےکی غیر معیاری اور ملاوٹ والی زرعی ادویات برآمد کرکے دو ہزار 7 سو 27 مقدمے درج کیے گئے۔ 25 دسمبر 2021 کو بزنس ریکارڈر نامی انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان کارروائیوں میں ایک ہزار دو سو 38 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور 51 فیکٹریوں کو بند کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک: زرعی ادویات ساز کمپنیوں کے خلاف مقدمے لڑنے والے کسانوں کی فریاد۔
تاہم کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائیاں زیادہ تر چھوٹی کمپنیوں یا ان سے منسلک چھوٹے تاجروں کے خلاف کی جاتی ہیں جبکہ زرعی ادویات کی 81 فیصد خرید و فروخت کے ذمہ دار بڑے مقامی اور غیرملکی کاروباری اداروں کے خلاف شاذونادر ہی کارروائی کی جاتی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز پنجاب کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار سے ان الزامات کی بالواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل نے 2021 میں زرعی ادویات کا معیار جانچنے کے لیے کل دس ہزار چھ سو 30 نمونے اکٹھے کیے۔ ان میں مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کے نو ہزار ایک سو 34 نمونے شامل تھے (جو زیادہ تر چھوٹی کمپنیوں کے تیار کردہ تھے) جبکہ غیرملکی کمپنیوں سے لیے گئے نمونوں کی تعداد محض ایک ہزار 13 تھی۔
پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے 7 اپریل 2022 کو ریٹائر ہونے والے محمد اسلم اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غیرملکی کمپنیوں کی زرعی ادویات زیادہ تر معیاری ہوتی ہیں اس لیے ان کی جانچ کے لیے زیادہ نمونے لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس دعوے کے حق میں وہ پچھلے سال ان کمپنیوں سے اکٹھے کیے گئے نمونوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں سے صرف تین غیرمعیاری نکلے۔ اس کے مقابلے میں غیر رجسٹرڈ مقامی کمپنیوں سے حاصل کیے جانے والے نمونوں میں سے دو سو 43 غیر معیاری نکلے۔
لیکن ذوالفقار غوری اس توجیہہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ بڑی مقامی اور غیرملکی کمپنیوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کا اثرورسوخ ہے۔ اسی اثرورسوخ کی وجہ سے وہ ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے اپنے اعلی آفسران کو بھی نہیں بتاتے "کیونکہ وہ کارروائی سے پہلے ہی ان افسران پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہیں"۔
ملتان میں متعین ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز پنجاب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد حسین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ "طاقتور اور بااثر کمپنی مالکان" نہ صرف ان کے "محکمے کی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں" بلکہ پولیس اور عدالتوں کو بھی منصفانہ طریقے سے کام نہیں کرنے دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان مالکان یا ان کی کمپنیوں کے خلاف مقدمے پولیس کے پاس جاتے ہیں تو پولیس اہل کار ان کی تفتیش اور تحقیق اس طرح نہیں کر سکتے جس طرح انہیں کرنی چاہیے۔
ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ "ایک طرف تو یہ اہل کار زرعی ادویات کے بارے میں بالکل لاعلم ہوتے ہیں اور دوسری طرف ناقص زرعی ادویات کی پیداوار اور خرید و فروخت میں ملوث لوگ اکثر اس قدر طاقتور اور بارسوخ ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف غیرجانب دارانہ تفتیش کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا"۔
تاریخ اشاعت 16 مئی 2022