نئی حلقہ بندی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبائی دارالحکومت پشاور کی ایک نشست کم ہو گئی ہے۔ جس سےکئی حلقوں میں رد و بدل کیا گیا ہے تاہم کچھ تبدیلیاں بہت دلچسپ ہیں اور نئی حد بندی پر اعتراضات داخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پچھلی مردم شماری میں پشاور کی آبادی 42 لاکھ 67 ہزار 198 بتائی گئی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں یہاں سے قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 14 نشستیں تھیں۔
حالیہ مردم شماری میں صوبائی دارالحکومت کی آبادی 47 لاکھ 58 ہزار 762 تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم یہاں قومی حلقے بدستور پانچ این اے 28 تا این اے 32 ( جو پہلے این اے 27 سے این اے 31 تک تھے) رکھے گئے ہیں۔ ان کی حدود میں بھی زیادہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔ صرف ضم شدہ سب ڈویژن حسن خیل (سابقہ ایف آر پشاور) کو اب پشاور کے قومی حلقہ این اے 30 میں شامل کر دیا گیا ہے۔
نئی مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی کا حلقہ تین لاکھ 55 ہزار 270 آبادی (تھوڑے بہت فرق کے ساتھ) پر بنایا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پشاور کے صوبائی حلقے 13 ہو گئے ہیں۔ پہلے یہاں حلقوں کے سیریل نمبرز پی کے 66 سے پی کے 79 تک تھے جو اب پی کے 72 سے پی کے 84 تک ہو گئے ہیں۔
ضلعے میں ایک صوبائی حلقہ کم ہونے اور سابقہ نیم قبائلی علاقہ حسن خیل (ایف آر پشاور) شامل ہونے کی وجہ سے حلقے بڑے ہو گئے ہیں۔ جس سے چند حلقوں میں تبدیلی آئی ہے۔
پشاور کے صوبائی حلقہ 72 اور 73 میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ پہلا حلقہ پی کے 72 (نیا نمبر) ہے۔ جہاں سے دو بار سابق ڈپٹی سپیکر محمود جان کامیاب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں تحصیل متھرا کے آٹھ آبادیاں شامل کی گئی ہیں۔ جن میں علی زئی، حسن آباد، ڈاگ، تیرائی پایان، ماموخٹکی، نیامی، شگئی بالا ، ہریانہ بالا اور سرکانہ کے کچھ حصے شامل ہیں۔
اسی طرح پی کے 73 سے ارباب وسیم کامیاب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں تحصیل شاہ عالم کے علاقے جٹی بالا، پجگی، احد پورہ، بابوزئی، شاہ عالم، ہریانہ پایاں اور لڑمہ شامل ہیں۔ جبکہ چارسدہ روڈ پر بڈھنی سے بخشی پل تک کا علاقہ بھی اس کا حصہ ہے۔
پی کے 74 میں عالم تحصیل کے باقی تمام علاقے (پی کے 73 میں شامل علاقوں کو نکال کر) شامل کر لیے گئے ہیں۔ چمکنی تحصیل کے علاقے وڈپگہ، محمد زئی، دلزاک روڈ، گلوزئی اور بڈھنی بھی اسی حلقے کا حصہ ہوں گے۔ اس حلقے سے دو مرتبہ پی ٹی آئی کے ارباب جہانداد منتخب ہو چکے ہیں۔
چمکنی تحصیل کے باقی تمام علاقے پی کے 75 کا حصہ بن گئے ہیں۔
ماضی میں ان علاقوں یعنی خالصہ اور شگئی ہندکیان سے ایک رکن اسمبلی منتخب ہوتا تھا۔ اب ان آبادیوں کو چمکنی تحصیل اور شاہ عالم میں شامل کر کے تین حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پی کے 75 انہیں میں سے ایک ہے جس میں 'شگئی ہندکیان' برادری کا کردار اہم ہو گا۔
پی کے 76 سے شگئی ہندکیان کے علاقے نکالے جانے کے بعد یہ حلقہ اب صرف پشتون آبادی پر مشتمل ہو گا جس میں چمکنی تحصیل کی آبادیاں ارمڑ بالا، ارمڑ پایان اور ارمڑ مینہ اکٹھی رکھی گئی ہیں۔ تحصیل بڈھ بیر کے علاقے ہری زئی، مریم زئی، بڈھ بیر مریم زئی، گڑھی فیض اللہ، سوڑیزئی بالا اور پایان بھی اسی حلقے میں شامل کیے گئے ہیں۔
پی کے 76 میں تبدیلیوں کا فائدہ براہ راست تحریک انصاف کے سابق رکن اشتیاق ارمڑ کو ہوا ہےجو حال ہی میں پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز (پرویز خٹک ) میں شامل ہوئے ہیں۔ چمکنی اور بڈھ بیر کے یہ علاقے ان کا مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
پی کے 77 میں حسن خیل (سابق فرنٹیئر ریجن پشاور) کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بڈھ بیر تحصیل کی باقی آبادیاں متنی، ادیزئی، اضاخیل، اولی زئی، باغ میاں خیل ، پسنی، خلی زئی، گڑھی باغبانان اور گڑھی چندن اسی حلقے میں شامل ہیں۔ پشتخرہ تحصیل کے علاقے ماشو گگر اور بہلول زئی بھی اسی کا حصہ ہیں۔
پی کے 77 میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ماضی میں یہاں سے اے این پی کے صلاح الدین کامیاب ہوئے تھے۔
گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے اے این پی کے خوشدل خان اور پی ٹی آئی کے انجینئر فہیم احمد کے سابقہ حلقے یکجا ہو گئے ہیں۔ ان دونوں حلقوں سے نکالی گئی بیشتر آبادیوں پر مشتمل پی کے 78 بنایا گیا ہے۔ اس میں پشتخرہ کے باقی علاقوں کے علاوہ پشاور سٹی کی آبادیاں اچینی پایان، حاجی پھندو اور سفید ڈھیری بھی شامل ہیں۔
پی کے 79 سے پچھلی بار سابق صوبائی وزیر تیمور سلیم جھگڑا منتخب ہوئے تھے۔ اب اس حلقے میں صرف نوتھیہ کی ایک یونین کونسل کا اضافہ کیا گیا ہے۔ باقی سابقہ علاقے حیات آباد، دانش آباد، گل آباد، لالازار کالونی اور مالاکنڈ ھیر اسی میں شامل ہیں۔
پی کے 80 یونیورسٹی ٹاﺅن کمیٹی سے ڈاگ یونین کونسل تک جائے گا۔ یہاں سے ماضی میں پیر فدا منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں سابق آبادیوں کے ساتھ پاواکہ، آبدرہ، ڈاگ اور تیرائی پایان کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
حلقہ پی کے 81 پشاور کنٹونمنٹ پر مشتمل ہے۔ یہاں سے 2018ء میں ملک واجد منتخب ہوئے تھے اس حلقے میں سابقہ علاقوں کے ساتھ محال سالو اور نوتھیہ پایان کی آبادیاں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔
پشاور سٹی کے چار حلقوں کو اب تین (پی کے 82، 83، 84) کر دیا گیا ہے۔ پچھلی بار یہاں سے کامران بنگش، آصف خان ، فضل الہی اور ثمر ہارون بلور منتخب ہوئے تھے۔ تاہم کامران بنگش والے حلقے کو باقی تینوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس حلقے کی زیادہ آبادیاں آصف خان کے حلقے میں شامل ہو گئی ہیں۔
نئی تقسیم کے مطابق حلقہ پی کے 82 میں آفریدی گڑھی، سربلند پورہ، فقیرآباد، عیدگاہ، حسن گڑھی، خالصہ، کمبوہ اور ہزار خوانی کا کچھ حصہ شامل ہے۔
اسی طرح پی کے 83 میں تحصیل گورگٹھڑی، کریم پورہ، گھنٹہ گھر، قصہ خوانی، ڈبگری، یکہ توت، رامداس، وزیر باغ کا کچھ حصہ اور گلبہار شامل ہیں۔
پی کے 84 پشاور کا آخری حلقہ ہو گا۔ یہ حلقہ ہزار خوانی، وزیر باغ، اچر، دیہہ بہادر، موسی زئی، پشتخرہ تحصیل کے علاقے احمد خیل، بازید خیل، اتمانخیل اورعلیزئی کی آبادیوں پر مشتمل ہو گا۔
یوں پشاور کے دیہی علاقوں میں حلقوں پر زیادہ فرق نہیں آیا۔ تاہم سٹی کو نئی حد بندی میں نقصان اٹھانا پڑا ہے اور کامران بنگش کا حلقہ عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔
پشاور میں حلقہ بندیوں پر اب تک کل 28 امیدوار و شہری الیکش کمیشن میں اعتراضات داخل کرا چکے ہیں۔ جن میں خوشدل خان ،ارباب حسن اکبر ، ارباب میر عالم اور آصف خان، عاظف خاں و دیگر شامل ہیں۔ سب سے زیادہ اعتراضات شہری حلقوں پر کیے گئے ہیں۔
اے این پے خوشدل خان نئی حلقہ بندی سے خاصے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے پی کے 75، 76، 78 اور 82 پر اعتراضات کی لمبی چوڑی فہرست جمع کرائی ہے جس میں ان حلقوں کی کئی آبادیوں میں رد و بدل کی درخواست کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع ٹانک کا قومی حلقہ پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے جڑ گیا، نقصان کس کا ہوا؟
تاہم اے این پی کی صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کو حلقہ بندی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انفرادی طور پر کچھ اعتراضات ہیں جس کے لیے مروجہ طریق کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ "تاہم چیف الیکشن کمشنر نے کافی تحفظات دور کر دیے ہیں"۔
یہی حال پی ٹی آئی رہنماؤں کا ہے۔ وہ بھی تبدیلیوں سے اپنی تکلیف چھپا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پشاور کے جنرل سیکرٹری عاصم خان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے پاس حلقہ بندی کو باریکی سے دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ ووٹ بلّے کا ہے جیسا بھی حلقہ ہو اور جو بھی امیدوار ہو پارٹی کو مسئلہ نہیں ہو گا۔
لیکن پی ٹی آئی رہنما اور سابق ایم پی آصف خان نے اعتراضات داخل کرا دیئے ہیں۔ جنہوں نے پی کے 81، 82 اور پی کے 83 میں کئی تبدیلیوں کی استدعا سامنے آئی ہے۔
جے یو آئی کی طرف بھی اعتراضات سامنے آگئے ہیں۔ صوبائی ترجمان عبدالجلیل جان سمجھتے ہیں کہ پشاور کی سیٹ اٹھا کر چترال کو دے دی گئی ہے۔ جبکہ ہنگو کی نشست باجوڑ کو دے دی گئی ہے۔
"ہم نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے احتجاج بھی کیا لیکن سردست کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔"
تاریخ اشاعت 10 نومبر 2023