پاک افغان سرحدی حکام کی رسہ کشی۔ ہزاروں افغانی دنبے سرحد پار کرنے کے منتظر

postImg

محراب آفریدی

postImg

پاک افغان سرحدی حکام کی رسہ کشی۔ ہزاروں افغانی دنبے سرحد پار کرنے کے منتظر

محراب آفریدی

ضلع خیبر کے آفریدی اور شینواری قبائل دنبے کے گوشت اور اس کی چربی میں بنائے جانے والے مخصوص پکوانوں کے لئے اپنی رغبت اور ان کی تیاری میں اپنی مہارت کے حوالے سے پاکستان بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔

پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اب شینواری ریسٹورنٹ دکھائی دیتے ہیں جو چھوٹے گوشت کی کڑاہی اور تکوں کے لیے مشہور ہیں۔ اس رجحان کی ایک وجہ سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے ان قبائل میں گلہ بانی کی روایت بھی ہے۔

عموماً عید الاضحٰی پر قربانی کی ضرورت پیش نظر سرحد کے دونوں جانب جانوروں کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے جسے پورا کرنے کے لئے پاکستان سے بڑے جانور جیسے بیل، گائے اور بھینسیں افغانستان لے جائے جاتے ہیں تو افغانستان سے بڑی تعداد میں دنبے اور بھیڑیں سرحد کے اِس پار لانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

لیکن گزشتہ چند برس سے جانوروں کی تجارت کا یہ سلسلہ دونوں ممالک کے سرحدی حکام اور متعلقہ محکموں کے درمیان رسہ کشی کا باعث بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس مرتبہ جانوروں کی تجارت میں کمی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں بھیڑوں کی قیمتیں پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔

پاک افغان سرحد پر واقع ضلع خیبر میں افغانستان کے ساتھ آمدورفت اور غیر رسمی تجارت کے لیے طورخم، شلمان، بازار زخا خیل اور شمشاد کے مقامات پر عام گزرگاہوں کے علاوہ درجنوں غیر رسمی گزر گاہیں استعمال ہوتی چلی آئی ہیں۔ لیکن پچھلی دہائی میں سکیورٹی صورتحال کے باعث ان میں سے اب صرف طورخم کی گزرگاہ ہی باقاعدہ تجارت و آمدورفت کے لیے کھلی ہوئی ہے۔

اس گزر گاہ کو ستمبر 2019ء میں پورے ہفتے چوبیس گھنٹے عوامی آمدورفت (خاص طور پر علاج معالجے یا سرحد کے اس پار عزیزوں سے ملاقات) کے لیے فعال کیا جاچکا ہے۔ لیکن پاک  افغان تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور سکیورٹی صورتحال کے باعث اس میں وقتاً فوقتاً تعطل آجاتا ہے یا دونوں جانب حکام کی جانب سے سختی و نرمی کا سلسلہ چلتا رہتا ہےؕ

اس سال بھی افغانستان کی جانب سے چھوٹے جانور بالخصوص دنبے پاکستان بھیجنے کی اجازت کو پاکستان سے بڑے جانوروں کی برآمد کی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ افغانستان سے لائے جانے والے جانوروں میں بیماریوں کی غیرموجودگی کی تصدیق کے لئے افغان حکام سے کورنٹین سرٹیفیکیٹ کے اجراء کی شرط رکھی گئی ہے۔

لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے بیوپاری رجب گل کہتے ہیں کہ وہ ہر سال افغانستان سے دنبے درآمد کرتے ہیں تاہم رواں سال طورخم بارڈر پر کسٹم حکام کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر اب تک ایک بھی دنبہ نہیں لاسکے۔

"پاکستانی کسٹم حکام کی جانب سے طورخم کے راستے لائے جانے والے دنبوں کے لیے کوارنٹین سرٹیفیکٹ مانگا جا رہا ہے۔اس سرٹیفیکیٹ کی عدم موجودگی میں جانوروں کو سات سے چودہ دن تک الگ تھلگ رکھنے کی شرط عائد ہے، اب عید میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ عید کے بعد نہ تو جانوروں کی یہ طلب رہے گی اور نہ ہی ان کی اچھی قیمت ملے گی۔"

پاکستانی کسٹم حکام کوارنٹین سرٹیفیکیٹ کو بنیادی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عام طریق کار کے مطابق افغانستان کے لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ نے کوارنٹین سرٹیفیکیٹ پاکستان کے لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کو فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن تاحال ان کی جانب سے اس معاملے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

جانوروں کو پاکستان کی حدود میں لائے جانے کے بعد اتنی بڑی تعداد کا معائنہ اور ان کے لیے کوارنٹین کا بندوبست کرنا سر دست ممکن نہیں ہے۔

ضلع خیبر میں لنڈی کوتل سیاسی اتحاد کے صدر مراد حسین کہتے ہیں کہ پانچ سال سے دنبوں کی درآمد کے معاملے میں مسائل چل رہے ہیں جس کے باعث ضلع خیبر بالخصوص ملحقہ علاقوں لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ کے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

"افغانستان میں دنبوں کی افزائش زیادہ ہے اس لئے عید الاضحیٰ کے موقع پر ان کی درآمد سے یہاں کے لوگوں کو سستے داموں صحت مند دبنے مل جاتے ہیں"۔

مراد حسین نے گزشتہ سال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال جرگے نے دونوں جانب حکام  سے بات کی تھی۔ اس وقت افغان حکام کی جانب سے مقامی ضروریات کی بنیاد پر دنبوں کی پاکستان کو فروخت روکی گئی تھی لیکن ان کے جرگے کی عزت افزائی کرتے ہوئے برآمد کی اجازت دے دی گئی لیکن پاکستانی حکام کی جانب سے اس معاملے میں کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

افغانستان پاکستان کو انگور اور انار کیوں نہیں بھیج رہا؟

ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر ارشد مہمند نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ دو ممالک کے درمیان تجارتی پروٹوکول ہے۔اس لیے درآمد و برآمد کے حوالے سے طے شدہ شرائط کو ماننا ضروری ہے۔

"قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے پہلے یہ شرائط لاگو نہیں تھیں لیکن اب یہ اضلاع صوبائی بندوبست کا حصہ ہیں جن پر ان تمام ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے جو صوبے میں رائج ہیں اور اس طرح دنبوں کی درآمد کے لئے کوارنٹین سرٹیفیکٹ کا حصول ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ یہ جانور جسمانی طور پر تندرست ہیں"۔

اس معاملے میں لنڈی کوتل سیاسی اتحاد کی جانب سے ایک گرینڈ جرگے کا انعقاد کیا گیا ہے جس کے شرکا کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے حکام سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کریں اور افغانستان سے دنبوں کی درآمد پر عائد پابندی ختم کریں، بصورت دیگر وہ احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے۔

امسال عید الاضحٰی سے پہلے مختلف غیر رسمی راستوں سے (بذریعہ سمگلنگ) کم تعداد میں دنبے ضلع خیبر پہنچے ہیں جس کے باعث عید پر حسب روایت سستے دنبے دستیاب نہیں ہو سکے اور دنبے کی قربانی کو ترجیح دینے والے بیشتر لوگ بیل گائے اور بھینس کی قربانی کریں گے۔

تاریخ اشاعت 28 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محراب آفریدی کا تعلق قبائلی ضلع خیبر سے ہے۔ وہ قومی جرائد اور آن لائن رسائل کیلئے اپنے ضلع کے مسائل پر لکھتے ہیں اور لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر ہیں۔

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

فلیٹس اور بلند عمارتوں میں رہنے والوں کی سولر انرجی تک رسائی، ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنور فاطمہ
thumb
سٹوری

تھر کول ریلوے منصوبہ "ایسے ہی زمین چھینی جاتی رہی تو یہاں کے باسی در بدر ہو جائیں گے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
thumb
سٹوری

گھارو جھمپیر ونڈ کاریڈور، ونڈ کمپنیاں تو منافع کما رہی ہیں لیکن متاثرین کے پاس نہ زمین بچی ہے نہ ہی انہیں معاوضہ ملا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.