محمد اقبال میانوالی کے گاؤں سمندی والا میں اپنی 10 ایکڑ بارانی زمین پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ 30 سال پہلے جب ان کے گاؤں سمیت غنڈی، گلبازی والا ، مستی والا اور قریبی مواضعات کی زمینوں کو نہری پانی سے سیراب کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تھا تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ ان کی زمین کا بڑا حصہ نئی کھودی جانے والی نہر کی نذر ہو رہا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اہل علاقہ کے سمجھانے پر وہ اپنی زمین نہر کے لیے دینے کے لیے رضامند ہو گئے تھے اور باقی اراضی پر لہلہاتی فصلوں کا خواب آنکھوں میں سجا لیا۔لیکن 30 سال بعد بھی ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
محمد اقبال 'پائی خیل لفٹ اریگیشن سکیم' کی بات کر رہے تھے۔ یہ منصوبہ نہ صرف ادھورا ہے بلکہ اب سرے سے ہی ختم ہونے کو ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کے حلقے کا ووٹر ہونے کی وجہ سے انہیں بھی امید کی کرن نظر آئی تھی۔ ایم پی اے امین اللہ خان نے منصوبہ مکمل کرانے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن کویٔی عملی اقدام نہیں ہوا۔
"یوں لگتا ھے ہم اپنی زندگی میں اپنی لہلہاتی فصلیں نہیں دیکھ سکیں گے۔"
دریا ئے سندھ پر جناح بیراج سے نکلنے والی تھل کینال میانوالی کےگاؤں 'پائی خیل' سے بھی گزرتی ہے۔ محکم انہار نے1993ء میں اس علاقے کے لیے تھل کینال پرلفٹ اریگیشن سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا۔
اس منصوبے کے تحت تھل نہر سے دو چھوٹی نہریں (ڈسٹری بیوٹریز) نکالی جانا تھیں۔ دائیں نہر کو ون آر اور بائیں جانب والی نہر کو ون ایل کا نام دیا گیا ۔200 کیوسک پانی 50 فٹ گہرائی سے اٹھا کر ان نہروں میں ڈالا جانا تھا۔
محکمہ انہار کے ریکارڈ کے مطابق نہر ون آر کی لمبائی 23.32کلومیٹر (پائی خیل سے چھدرو تک) اور ون ایل کی طوالت 13.41 کلو میٹر (پائی خیل سے سکندرآباد تک ) رکھی گئی۔ دونوں نہروں سے 12 مواضعات کا 78ہزار ایکڑ رقبہ سیراب کیا جانا تھا۔
سابق وزیراعلیٰ منظور وٹو کے دور میں اس منصوبے کاسنگ بنیاد رکھا گیا جس پر جون 1995 میں کام کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ ایک سال بعد جون 1996ء کو مکمل ہونا تھا ۔لیکن اس پر کام پانچ سال جاری رہا اور پھر تکنیکی مسائل کے باعث روک دیا گیا۔
چند سال کے بعد منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا گیا ۔ اس کی تکمیل کی مدت جون 2011 رکھی گئی ۔1995ء میں اس منصوبے کی ابتدائی لاگت چار کرور 82 لاکھ تھی۔ 2011ء میں نظرثانی شدہ تخمینہ 63 کروڑ روپے ہو گیا تھا۔اب یہ پوری رقم خرچ ہو چکی ہے۔
اس منصوبے کا پی سی ون محکمہ آبپاشی نے بنایا تھا۔ یہی محکمہ سارے کام کی نگرانی کرتا رہا ہے۔ پلان کے مطابق کینال سے ڈسٹری بیوٹری نہروں میں پانی ڈالنے کے لیے دو پمپ ہاؤس بنائے گئے ہیں ۔ہر ایک میں بجلی کی تین تین موٹریں ہیں ۔ہر موٹر کی صلاحیت 50 کیوسک ہے۔
نہروں کی کھدائی برسوں پہلے تقریباًمکمل ہو چکی تھی۔مگر نہر ون آر صرف چار کلومیٹر اور ون ایل ڈھائی کلو میٹر تک ہی فعال ہو سکی ہے۔ ان کے غیر فعال حصے ویران پڑے ہیں۔ بارشوں کا پانی پلوں کے نیچے سے مٹی نکال لے گیا ہے جو پل کسی بھی وقت سانحے کا سبب بن سکتے ہیں۔
دونوں نہروں کے فعال حصوں کی حالت بھی کچھ کم خراب نہیں ہے۔ ایکسیئن انہار میانوالی احمد رفیق الزام عائد کرتے ہیں ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن نے اس منصوبے کو تباہ کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے میں ناقص میٹیریل استعمال ہوا۔ اسی لیے نہروں کے فعال حصے کے پلوں سے آج بھی پانی رس رہا ہے۔نہروں کا ابتدائی حصہ سطح زمین سے 15 فٹ اونچا تھا۔ دوران تعمیر ٹیلوں پر سیمنٹ کی پلیٹوں کے نیچے بجری نہیں بچھائی گئی۔
ایکسین انہار نے بتایا کہ نہر کے بیڈ پر جب پانی کا دباؤ بڑھتا ہے تو پلیٹیں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتی ہیں اور نہر ٹوٹ جاتی ہے۔اسی طرح پہاڑی علاقے میں برساتی پانی کے ممکنہ دباؤ کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔
احمد رفیق کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں ابتدء ہی سے سیاسی مداخلت کی گئی۔ دباؤ پر ڈیزائن کو بار بار تبدیل کیا گیا۔ ایک مرحوم رکن اسمبلی کی جلد بازی کے باعث مناسب فزیبلیٹی سٹڈی بھی نہیں کرائی گئی اور اب منصوبہ بند گلی میں جا کھڑا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'پٹ فیڈر کینال ہمارے لیے خونی نہر ثابت ہوئی ہے، ایک اور سیلاب کو برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے'
انہوں بتایا کہ اب بھی یہ منصوبہ 'مکمل طور پر مردہ' نہیں ہوا۔ اس کی نئی فزیبلیٹی سٹڈی جاری ہے ڈیزائن کے نقائص اور ان کے ممکنہ حل کا نئے سرے سے تعین کیا جائے گا۔ پھر اس منصوبے کو مکمل فعال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
پینتیس سالہ محمد طفیل گلبازی والا میں پانچ ایکڑ رقبہ کاشت کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انہیں کافی دور سے ٹیوب ویل کا مہنگا پانی لانا پڑتا ہے اور اس طرح فصل پر مشقت اور خرچہ دو گنا ہوگیا ہے۔ اگر نہری پانی مل جاتا تو یہاں کے کسان بہت سے مسائل سے بچ جاتے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف سردیوں کی فصل یعنی گندم کاشت کرتے ہیں۔ گرمیوں میں زمین خالی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اس وقت فصل کو پانی زیادہ درکار ہوتا ہے ۔حکومت پائی خیل آبپاشی سکیم فوری مکمل کر لے تو چھوٹے کسانوں کو بہت فائدہ ہو گا۔
سابق رکن اسمبلی امین اللہ خان کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ منصوبہ ترجیحی بنیادوں پر بحال کرانے کی کوشش کی ۔محکمہ انہار نے دوبارہ فزیبلیٹی سٹڈی بھی شروع کر دی تھی لیکن بدقسمتی سے پنجاب حکومت ختم ہو گئی اور اس پر کام شروع نہ ہو سکا۔
تاریخ اشاعت 18 ستمبر 2023