سعدی عباس جلبانی 2005 میں پاکستان کے کراٹے چیمپئن بنے۔ اس وقت سے لے کر اب تک وہ ملکی سطح پر ہونے والا کوئی مقابلہ نہیں ہارے۔ 2006 میں انہوں نے ساؤتھ ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ جیت کر اپنا پہلا بین الاقوامی اعزاز حاصل کیا لیکن انہیں بین الاقوامی شہرت اس وقت ملی جب 2011 میں ہونے والی ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں وہ سونے کا تمغہ جیتنے والے پہلے جنوبی ایشیائی کھلاڑی بنے۔ آنے والے سات سالوں میں سونے کے 13 مزید تمغے جیت کر وہ دنیا کے دس بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہوگئے۔
ان کا اگلا ہدف اولمپک مقابلوں میں حصہ لینا تھا۔
لیکن 27 اگست 2018 کو ایک ایسا حادثہ پیش آگیا جس نے ان کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ اس روز ایشین گیمز میں میزبان ملک انڈونیشیا کے شرمندرن رگوناتھن کے مقابل کوارٹر فائنل کھیلتے ہوئے انہیں گھٹنے میں چوٹ لگ گئی۔ سعدی کے مطابق یہ چوٹ اتنی شدید تھی کہ ان کی ٹانگ نے حرکت کرنا چھوڑ دیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ "میرے ذہن میں ایک ہی خیال سمایا ہوا تھا کہ اولمپکس میں جگہ بنانے کے لیے اس مقابلے سے اچھا موقع دوبارہ نہیں ملے گا"۔
چنانچہ طبی امداد لینے کے بعد انہوں نے مقابلہ جاری رکھا اور جیت گئے۔
اسی دن انہوں نے سیمی فائنل بھی کھیلا جس میں وہ محض دو پوائنٹ سے ہارے۔ اس ہار کے باوجود انہوں نے کانسی کے تمغے کے لیے بھرپور مقابلہ کیا اور مخالف کھلاڑی پر مسلسل برتری حاصل کیے رکھی لیکن پھر، ان کے بقول، "اچانک ریفری نے میری ایک کِک کو خطرناک قرار دیتے ہوئے حریف کھلاڑی کو فاتح قرار دے دیا"۔
اس مقابلے کے بعد جب سعدی نے حکومت سے درخواست کی کہ گھٹنے کا علاج کرانے میں ان کی مدد کی جائے تو ان کے بقول کسی نے اس درخواست پر کان نہیں دھرا۔ نتیجتاً انہوں نے خود ہی اپنا علاج کرایا۔
لیکن صحت یاب ہونے میں انہیں ایک سال لگ گیا۔ اس دوران مقابلوں میں حصہ نہ لینے کے باعث عالمی درجہ بندی میں ان کی پوزیشن 10 سے گر کر 26 ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری اور ایک ہی سال میں کئی مقابلے جیت کر اپنی درجہ بندی کو 18 پر لے آئے۔ جنوری 2020 میں انہوں نے اس وقت کے عالمی نمبر دو جاپانی کھلاڑی کین نوشی مورا کو بھی ہرایا۔
لیکن پھر کورونا کی وجہ سے کھیلوں کی تمام ملکی اور غیر ملکی سرگرمیاں معطل ہو گئیں اور سعدی کو کئی مہینے پریکٹس کرنے کا موقع نہ ملا۔ 2021 کے شروع میں انہوں نے پرتگال میں کھیلوں کے ایک ایسے مقابلے میں حصہ لیا جسے جیت کر وہ اولمپکس میں شرکت کے اہل ہو سکتے تھے لیکن پریکٹس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔
کچھ عرصہ بعد ایک اور مقابلے میں شرکت کے لیے وہ فرانس بھی گئے۔ وہاں انہیں دس دن تک قرنطینہ میں رہنا پڑا جس سے نکلنے کے تیسرے دن انہیں میچ کھیلنا پڑا۔ مناسب تیاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس میچ میں بھی ہار گئے۔
یوں سعدی کا اولمپکس میں شرکت کرنے کا خواب ہمیشہ کے لیے بکھر گیا کیونکہ 2024 میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں کراٹے کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت انہیں تربیت اور علاج کی مناسب سہولتیں فراہم کرتی تو وہ اس سال ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں شامل ہو سکتے تھے۔
انہیں شکوہ ہے کہ حکومت نے دراصل کبھی بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
وہ 1988 میں جنوبی کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے جو کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے پورے ملک میں مشہور ہے۔ سات سال کی عمر میں اپنے والد کی خواہش پر انہوں نے عبدالحمید اور سرور علی نامی مقامی استادوں سے تربیت لینا شروع کی جو خود بھی کراٹے کے کھلاڑی رہ چکے تھے۔ ان کے مطابق اگلے 26 سال انہوں نے اپنی تربیت اور مقابلوں میں شرکت کے لیے درکار ایک ایک پیسہ اپنی جیب سے خرچ کیا۔
پاکستان کراٹے ٹیم کے ہیڈ کوچ شاہ محمد شان اس شکوے کو بجا سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعدی اگر دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے باشندے ہوتے تو آج اولمپک میڈل جیت چکے ہوتے۔ ان کی غلطی صرف یہ ہے کہ "انہوں نے متحدہ عرب امارات سمیت کچھ دوسرے ملکوں کی شہریت کی پیش کشں ٹھکرا دی اور پاکستان کی نمائندگی کرنے کو ترجیح دی"۔
کھلاڑیوں کے لئے تربیت اور نگہداشت کا فقدان
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تائیکوانڈو کے کھلاڑی ہارون خان ترین 22 مئی 2021 کو اردن کے شہر اومان میں ہونے والے ایک ایسے مقابلے کے سیمی فائنل میں ہار گئے جسے جیت کو وہ ٹوکیو اولمپکس میں شامل ہو سکتے تھے۔ تاہم ایک ماہ بعد ہونے والی ایشین چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جیت کر بھی وہ اولمپک میں جاسکتے تھے۔
اس چیمپئن شپ میں انہوں نے شاندار کھیل پیش کیا اور کوارٹر فائنل تک پہنچ گئے جس کے دوران مخالف کھلاڑی نے ان پر ایسا حملہ کیا کہ ان کے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس چوٹ کے نتیجے میں انہیں چیمپئن شپ سے دست بردار ہونا پڑا اور اس طرح ان کا اولمپکس میں شمولیت کو خواب ادھورا ہی رہ گیا۔
سعدی عباس کی طرح ہارون خان بھی کہتے ہیں کہ اولمپکس کے لیے ان کے نا تمام سفر میں حکومت نے کبھی ان کو کوئی مدد نہیں کی بلکہ انہیں شکایت ہے کہ جس سرکاری محکمے، واپڈا، میں وہ 24 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہے ہیں اس نے بغیر وجہ بتائے اگست 2021 سے ان کی تنخواہ روک دی ہے۔
پاکستان تائیکوانڈو فیڈریشن کے صدر لیفٹینٹ کرنل (ریٹائرڈ) وسیم احمد بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے نہ تو کبھی ہارون کی تربیت پر کوئی خرچہ کیا اور نہ ہی بین الاقوامی مقابلوں میں ان کی شرکت کے کوئی انتظامات کیے۔ ان کے مطابق ہارون کو تو ان مقابلوں میں شرکت کے لیے سرکاری اجازت نامہ بھی جاری نہیں کیا جاتا تھا تا کہ کہیں انہیں حکومتی کھاتے سے پیسے نہ دینا پڑ جائیں"۔
ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کے دو اور امیدوار، پہلوان عنایت اللہ خان اور ویٹ لفٹر نوح، بھی اسی طرح کی شکایات کرتے سنائی دیتے ہیں۔ وہ دونوں حالیہ سالوں میں کھیل کے دوران زخمی ہو گئے تھے اور کہتے ہیں کہ اگر حکومت ان کا بروقت اور اچھا علاج کرا دیتی تو وہ یقینناً اولمپک مقابلوں میں شریک ہو جاتے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ عنایت اللہ کو 2019 میں ایک تربیتی کیمپ کے دوران گھٹنے میں شدید چوٹ آئی۔ اس کے باوجود انہوں نے نیپال میں ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز میں حصہ لیا اور سونے کا تمغہ جیتا۔ تاہم مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے ان کی چوٹ بگڑتی گئی حتیٰ کہ 2020 میں انہیں گھٹنے کا آپریشن کرانا پڑا جس پر آنے والا چھ لاکھ روپے کا خرچہ انہوں نے خود برداشت کیا۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ وزن اٹھانے کا ریکارڈ بنانے والے گوجرانوالہ کے نوح بٹ نے تربیت کے دوران چوٹ لگنے کے بعد کسی ڈاکٹر سے علاج کرانے کی بجائے دیسی ٹوٹکوں سے اس پر قابو پایا۔ وہ جس درجہ بندی میں مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اس میں شام کے ایک ویٹ لفٹر نے ٹوکیو اولمپکس میں 424 کلو گرام وزن اٹھا کر کانسی کا تمغہ جیتا ہے جبکہ نوح بٹ نومبر 2018 میں ملکی سطح کے ایک تربیتی کیمپ میں 425 کلو گرام وزن اٹھا چکے ہیں۔
گوجرانوالہ کے رہنے والے پہلوان انعام بٹ، جو کامن ویلتھ گیمز کے چیمپئن بھی رہ چکے ہیں، اسی طرح حکومتی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے اولمپکس میں شمولیت کے اہل نہیں ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آخری بار ریسلنگ کا تربیتی کیمپ 2018 میں لگایا گیا جس کے سوا حکومت نے نہ تو ان کی تربیت کا اہتمام کیا اور نہ ہی کسی ایسے مقابلے میں ان کی شرکت یقینی بنائی جسے جیت کر وہ اولمپکس میں پہنچ سکتے۔
پاکستان کھیلوں پر کتنے پیسے خرچ کرتا ہے؟
انعام بٹ اور عنایت اللہ خان کو اولمپکس کے لیے تربیت حاصل کرنے اور ان کے اہلیتی مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے مجموعی طور پر دو کروڑ روپے کے لگ بھگ رقم درکار تھی۔ اسی طرح ٹوکیو اولمپکس کے فائنل میں پہنچنے والے ویٹ لفٹر طلحہ طالب کو جس تربیتی سامان کی ضرورت تھی اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ 60 لاکھ روپے ہے جبکہ اولمپکس میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے نیزہ باز ارشد ندیم کو یورپ میں تربیت کے لیے محض ایک کروڑ روپے چاہیے تھے۔
انعام بٹ کے بقول اگر پاکستان سپورٹس بورڈ یہ رقوم خرچ کر دیتا تو پاکستان کے اولمپک میڈل جیتنے کے امکانات کہیں زیادہ بڑھ جاتے۔
پاکستانی کھلاڑیوں اور کھیلوں سے منسلک دیگر افراد کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں انڈیا میں بھی ایسے ہی حالات تھے لیکن وہاں کی حکومت نے پچھلے چند سالوں میں کھیلوں کا پورا نظام ہی بدل دیا ہے جس کے نتیجے میں ارشد ندیم کے ساتھ مقابلہ کرنے والے نیرج چوپڑا پہلے انڈین کھلاڑی بنے ہیں جنہوں نے اولمپک میں سونے کا انفرادی تمغہ جیتا ہے۔
یہ جیت ممکن بنانے کے لیے انڈیا نے نیرج چوپڑا پر چار سالوں میں سات کروڑ انڈین روپے خرچ کیے ہیں جو لگ بھگ ساڑھے 15کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ اس دوران تین سال انہیں پٹیالہ کے ایک سرکاری ادارے میں اعلیٰ سطح کی تربیت دی گئی اور جنوبی افریقہ، پولینڈ، ترکی، فن لینڈ، چیک جمہوریہ اور سویڈن میں بھی تربیت دلوائی گئی۔اسی طرح 26 مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں ان کی شرکت کا انتظام کیا گیا۔ 2019 میں جب انہیں کہنی پر چوٹ لگی تو ان کے لیے ایک غیر ملکی ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی گئیں۔
اس کے برعکس پاکستان سپورٹس بورڈ نے 21-2020 میں کھیلوں کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے ملنے والے پیسے بھی پوری طرح خرچ نہیں کیے۔ بورڈ کی صدر اور بین الصوبائی رابطہ امور کی وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کے بقول بورڈ کو ملنے والی رقم میں سے 44 کروڑ روپے اس لیے خرچ نہیں ہو سکے کہ کھیلوں کے مقابلے اور تربیتی کیمپ کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑ گئے تھے۔
پاکستان تائیکوانڈو فیڈریشن کے صدر لیفٹینٹ کرنل (ریٹائرڈ) وسیم احمد ایک اور مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ 21-2020 کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے کھیلوں کے لیے مجموعی طور پر ایک ارب روپے سے زیادہ رقم رکھی لیکن اس میں سے 80 کروڑ روپے پاکستان سپورٹس بورڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں ہی صرف ہو گئے۔ ان کے بقول "پاکستان میں اتنے کھلاڑی نہیں جتنے سپورٹس بورڈ کے ملازمین ہیں"۔
ان کی بات بہت حد تک صحیح ہے۔ بین الصوبائی رابطہ امور کی وزارت کے 2017-18 کے سالنامے کے مطابق 30 جون 2018 تک پاکستان سپورٹس بورڈ میں کل دو سو 22 ملازمین کام کر رہے تھے جبکہ اس کی ویب سائٹ پر دیے گئے ایلیٹ پول میں شامل کھلاڑیوں کی تعداد 260 تھی۔
تاہم کھیلوں کے لیے پیسہ صرف وفاقی حکومت ہی نہیں دیتی بلکہ چاروں صوبوں کی حکومتیں بھی ان کے لیے ہر سال بجٹ مختص کرتی ہیں کیونکہ 2010 میں کی گئی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد کھیلوں کی ترویج اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اس سال (22-2021) صوبائی حکومتوں نے مجموعی طور پر اس مد میں 15 ارب روپے کے قریب رقم رکھی ہے (جو کہ 2020-21 میں اسی مقصد کے لیے رکھی گئی رقم سے دوگنا ہے)۔
اگرچہ پاکستانی حساب سے یہ رقم اچھی خاصی لگتی ہے لیکن کچھ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان سے 44 گنا کم آبادی والے ملک نیوزی لینڈ نے اس سال کھیلوں کے لیے ساڑھے 43 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
کھیل کے میدانوں میں بد انتظامی کا راج
پاکستان میں قومی سطح پر کھیلوں کا انتظام مختلف فیڈریشنوں اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے ذمے ہے۔ فیڈریشنوں کا کام نچلی سطح پر کھلاڑیوں کو تلاش کرنا، ان کی بنیادی تربیت کا اہتمام کرنا اور ان کے لیے مقابلوں کا انعقاد کرنا ہے۔ جبکہ پاکستان سپورٹس بورڈ منتخب کھلاڑیوں کو عالمی معیار کی تربیت فراہم کرنے اور بین الاقوامی مقابلوں میں ان کی شرکت یقینی بنانے کا ذمہ دار ہے۔
کھیلوں سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگوں کا کہنا ہے فیڈریشنیں اور بورڈ دونوں ہی اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر رہے۔ کھیلوں سے منسلک ایک بڑے سرکاری ادارے کے ایک اہل کار اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ اکثر فیڈریشنیں یا تو جعلی ہیں یا ایک ہی کھیل کے لیے ایک سے زیادہ فیڈریشنیں بنا لی گئی ہیں۔ ان کے مطابق فیڈریشن بنانا اس قدر آسان ہے کہ چار لوگ اکٹھے ہو کر اسے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر کرا لیتے ہیں اور پھر حکومت سے مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ انہیں پیسے دیے جائیں۔
اسی طرح اگرچہ ہر فیڈریشن کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے ہر ضلعے میں اس کے نمائندے اور اس سے منسلک کھلاڑی موجود ہوں لیکن، ان کے مطابق، کئی فیڈریشنیں ایسی ہیں جن کے پاس کئی ضلعوں میں ایک کھلاڑی بھی موجود نہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک کھلاڑی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے پورے صوبے میں صرف سات سائیکلسٹ ہیں۔
سعدی عباس اور انعام بٹ بھی کہتے ہیں کہ کھیل کے اداروں میں بد انتظامی عروج پر ہے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو اکثر پتا ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کون سا ٹورنامنٹ کھیلنا ہے اور کون سا نہیں۔ ان کے مطابق کبھی پیسے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کھلاڑیوں کو آخری وقت پر مقابلے میں شمولیت سے روک دیا جاتا ہے اور کبھی بغیر تیاری کے انہیں مقابلوں میں شرکت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
فیڈریشنیں اس صورتِ حال کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے پچھلے تین سالوں میں 16 مختلف کھیلوں کو فیڈریشنوں کو صرف ڈھائی کروڑ روپے دیے ہیں۔ عام حالات میں بھی ان کے بقول ایک فیڈریشن کو ایک سال میں زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ روپے ملتے ہیں جس میں کھلاڑیوں کی تربیت تو کجا ان کے لئے مقابلوں کا انعقاد بھی مشکل ہوتا ہے۔
نتیجتاً اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے۔ ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کرنے والے پاکستانی دستے میں صرف 10 کھلاڑی شامل تھے جبکہ برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں 2016 میں ہونے والے اولمپکس میں محض سات پاکستانی کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔
اس کے برعکس 1956 میں ہونے والے میلبورن اولمپک مقابلوں میں 62 پاکستانی کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا۔ ان مقابلوں میں انڈیا کے صرف 59 کھلاڑی شریک ہوئے تھے لیکن ٹوکیو اولمپکس میں انڈیا نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا دستہ بھیجا جس میں 124 کھلاڑی شامل تھے۔
تاریخ اشاعت 14 ستمبر 2021