ڈوبتے سورج کی لالی میں لپٹی 12 ستمبر کی شام چک 4/4 ایل نامی گاؤں میں ایک غیر معمولی گہما گہمی لے کر آئی ہے۔ گلیوں اور چوکوں میں درجنوں لوگ موٹر سائیکلوں پر اور پیدل ادھر ادھر آ جا رہے ہیں۔ ہر کسی کی آواز اور اندازِ گفتگو میں جوش نمایاں ہے۔
یہ لوگ گاؤں کے مغربی کنارے پر موجود ایک دو منزلہ مکان میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اجلے کپڑوں میں ملبوس کئی نوجوان، بوڑھے اور بچے پہلے ہی اس اونچے ستونوں اور سر سبز صحن والے مکان میں چل پھر رہے ہیں۔
ان میں سے کئی ایک نے گلاب کے پھول اور ہار پکڑے ہوئے ہیں۔ چند بوڑھی خواتین بھی ان میں شامل ہیں۔ بہت سے نوجوان مرد اور عورتیں قریبی گھروں کی چھتوں پر چڑھے اِس ساری سرگرمی کو بڑی دل چسپی سے دیکھ رہے ہیں۔
یہ مکان مہر عبدالجبار کا گھر ہے جن کے بھائی مہر عبدالستار انجمن مزارعین پنجاب کے سیکرٹری جنرل ہیں اور ساڑھے چار سال جیل کاٹنے کے بعد اپنے گاؤں واپس آ رہے ہیں (جو اوکاڑہ شہر سے کچھ دور لاہور-کراچی شاہراہ سے چند سو میٹر مشرق کی جانب واقع ہے)۔
جب مہر عبدالستار اپنے دوست کی گاڑی میں سوار گاؤں کو آنے والی سڑک پر چڑھتے ہیں تو گھر کے اندر اور باہر موجود لوگوں کی بے تابی بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے جوشیلے نوجوان گاڑی کے پاس پہنچ کر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ کئی دوسرے لوگ گاڑی پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں پھینکنے لگتے ہیں۔
جیسے ہی یہ استقبالی جلوسں سٹیل کے ایک اونچے جنگلے کے پیچھے واقع ملٹری فارم کے مرکزی دفتر کے بیرونی دروازے کے سامنے پہنچتا ہے تو ڈھول کی تھاپ، رقص کی چاپ اور نعروں کی آواز پہلے سے بلند ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کئی بوڑھے بھی بھنگڑا ڈالنے لگتے ہیں۔
جب مہر عبدالستار گاڑی سے اتر کر زمین پر قدم رکھتے ہیں تو خواتین انہیں یوں گلے ملتی ہیں جیسے ان کا اپنا بچھڑا ہوا بیٹا گھر لوٹ آیا ہو۔
مہر عبدالستار کون ہیں؟
اوکاڑہ چھاؤنی کی بغل میں سینکڑوں کسان خاندان ایک ایسی زمین کاشت کر رہے ہیں جس پر پہلی جنگِ عظیم کے زمانے سے فوج ایک ڈیری فارم چلا رہی ہے۔ مہر عبدالستار کا تعلق انہی میں سے ایک خاندان سے ہے۔
ان کے والد 1947 میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مشرقی پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں سے اوکاڑہ آئے جہاں مہر عبدالستار کے نانا پہلے ہی سرکاری زمین کاشت کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے زیرِ کاشت رقبے میں سے ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی مہر عبدالستار کے والد اور چار چچاؤں کو دے دی۔
مہر عبدالستار نے گورنمنٹ کالج اوکاڑہ سے ایف ایس سی کی اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے پلانٹ پیتھالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی لیکن 2001 میں جب وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے گاؤں لوٹے تو وہاں کے لوگ شدید بے چینی کا شکار تھے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں تو یونیورسٹی سے پودوں کی بیماریوں کے بارے میں تعلیم لے کر آیا تھا مگر یہاں مجھے ایک اور ہی بیماری سے نبرد آزما ہونا پڑا‘۔
اس بے چینی کی بنیاد 2000 میں کیا گیا ملٹری فارم کی انتظامیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ اپنے زیرِ انتظام زمین استعمال کرنے کا معاوضہ فصل کی شکل میں لینے کے بجائے ہر سال نقد رقم کی صورت میں وصول کرے گی۔ مقامی کاشت کاروں کو خدشہ تھا کہ فارم کی انتظامیہ اس نئے انتظام کی آڑ میں انہیں زمین سے بے دخل کرنا چاہتی ہے۔
وہ اس فیصلہ کے خلاف مقامی سطح پر مزاحمت کر تو رہے تھے لیکن ان کے پاس نہ تو ریاستی اداروں تک اپنی آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ ہی ایک منظم اور بھر پور احتجاجی تحریک چلانے کے لئے درکار انسانی اور مالی وسائل۔
ایسے میں مہر عبدالستار اور چند دیگر مقامی کسانوں نے انجمن مزارعین پنجاب کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور ٹھیکیداری کے مجوزہ نظام کے خلاف عوامی مقامات پر جلسے جلوس شروع کر دیے جس کے نتیجے میں فارم انتظامیہ نے ان کے خلاف کئی مقدمات درج کرائے جن کی تعداد وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔
انجمن مزارعین پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2000 سے لیکر 2016 کے وسط تک 16000 سے زائد لوگوں کے خلا ف 377 مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے ایک احمد علی ہیں جو یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ وہ اور انکے والد دو مقدمات میں نامزد ہیں جن کے سلسلے میں وہ متعدد بار تھانے کچہریوں کے چکر کاٹ چکے ہیں۔
مہر عبدالستار کی رہائی کی شام احمد علی سفید شلوار قمیض میں ملبوس ان کے گھر کے مرکزی دروازے پر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں: 'اب مہر آ گیا ہے، اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں، جو ہوگا دیکھا جائے گا‘۔
خود مہر عبدالستار کے خلاف پچھلے بیس سالوں میں 36 مقدمے درج کیے گئےہیں جن میں سے زیادہ تر میں تو وہ جلد ہی ضمانتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اپریل 2016 میں انہیں اور ان کے ساتھی عبدالغفور کو ایک مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی جس کے بعد انہیں ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔
اس مقدمے میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے لاہور-کراچی شاہراہ بلاک کر کے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی- لیکن لاہور ہائی کورٹ میں ان کی اپیل کی سماعت کے دوران پولیس حکام یہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہے جس پر رواں ماہ کی آٹھ تاریخ کو انہیں بری کر دیا گیا۔
مہر عبدالستار نے 2008 اور 2013 میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں بھی بطور آزاد امیدوار حصہ لیا اور بالاترتیب 13542 اور 34103 ووٹ لیے۔
فارم کی انتظامیہ اور مزارعین میں کیا تنازعہ ہے؟
1913ء میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے اوکاڑہ میں 20 کے قریب بستیوں میں پھیلی 18 ہزار ایکٹر زمین ایک لیز معاہدے کے تحت برٹش آرمی کو دی۔
1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد یہ زمین پاکستانی فوج کے کنٹرول میں آ گئی جس نے پانچ ہزار ایکڑ رقبہ براہِ راست اپنے زیرِ کاشت رکھ کر باقی اراضی کو اس شرط پر کاشت کاروں کے پاس رہنے دیا کہ وہ اپنی پیداوار کا پچاس فیصد ملٹری فارم کی انتظامیہ کو دیں گے جو انہیں بیج اور کھاد وغیرہ مفت فراہم کرے گی۔
20 ویں صدی کے اختتام تک کاشت کار اسی نظام کے تحت یہ زمین استعمال کرتے رہے لیکن جب انتظامیہ نے نقد ادائیگی کا نظام متعارف کروانے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ اس کے بجائے ان کے زیرِ کاشت زمین کی ملکیت انہیں دی جائے کیونکہ ان کے بڑوں نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے اسے ایک بنجر ویرانے سے قابلِ کاشت اراضی میں تبدیل کیا تھا۔
چند ماہ بعد انجمنِ مزارعین پنجاب نے ’مالکی یا موت‘ کا نعرہ بلند کیا جس کا مطلب تھا کہ کاشتکار موت تو قبول کر لیں گے لیکن زمین سے بے دخلی برداشت نہیں کریں گے۔
لیکن اس نعرے سے ایک شدید غلط فہمی نے جنم لیا۔
انجمن مزارعین پنجاب کے رہنما اور سابق ترجمان نور نبی کہتے ہیں کہ کاشت کاروں کے لیے اس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں زمین دو یا ہمیں مار دو لیکن ریاستی ادارے اس کا مطلب یہ نکالتے رہے ہیں کہ کاشتکار زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے کسی کو مارنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
'اس نعرے کو بنیاد بنا کر کاشت کاروں اور ان کی انجمن کی قیادت پر کئی مقدمے بنائے گئے اور انہیں جیلوں میں بھی ڈالا گیا‘۔
کاشت کاروں اور فارم کی انتظامیہ کے درمیان متعدد بار مڈھ بھیڑ بھی ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر 2014 میں جب کسانوں نے نہری پانی کے کھالے بطور احتجاج بند کیے تو فارم انتظامیہ نے ٹینکوں سے 4/15 ایل نامی گاؤں کا محاصرہ کر لیا اور اسلحہ سے لیس فوجیوں نے احتجاج کرنے والے کاشت کاروں کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارنے شروع کر دیے۔
ان چھاپوں کے خلاف مزاحمت کے دوران ایک 55 سالہ شخص نور محمد کمبوہ ہلاک ہو گیا۔
لیکن یہ ملٹری فارم پر ہونے والی پہلی ہلاکت نہیں تھی۔ مہر عبدالستار کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں کم از کم گیارہ لوگ احتجاج کرنے کی پاداش میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ بہت سے مقامی لوگ اس دوران زخمی بھی ہوئے ہیں۔
مہر عبدالستار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 2000 سے لے کر اب تک کاشت کاروں نے کسی سرکاری ملازم کو زخمی یا ہلاک نہیں کیا اور نہ ہی سرکاری املاک کو کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ 'اس کے باوجود اگر ہم پر الزام لگایا جائے کہ ہمارا احتجاج پُرتشدد ہے تو یہ صحیح الزام نہیں'۔
کاشت کاروں کے بقول انتظامیہ نے انہیں بے دخل کرنے کے لئے مقدمات اور گرفتاریوں کے علاوہ کئی اور حربے بھی استعمال کیے ہیں جس کی سب سے حیرت انگیز مثال 13 جولائی 2016 کو سامنے آئی جب اوکاڑہ پولیس نے اعلان کیا کہ گاؤں 2/28 آر میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ان چھ دہشت گردوں کو مار دیا گیا ہے جنہیں مبینہ طور پر انجمن مزارعین پنجاب کی کلیانہ سٹیٹ برانچ کے صدر ملک سلیم جھکڑ کے بھائی ملک نعیم جھکڑ نے پناہ دے رکھی تھی۔
تاہم نور نبی کا کہنا ہے کہ پولیس نے دہشت گردوں کو کہیں اور سے پکڑا لیکن انہیں 2/28 آر میں لا کر مار دیا تاکہ جھکڑ خاندان کو فارم کی زمین سے بے دخل کیا جا سکے۔
اس واقعے کے محض تین دن بعد اوکاڑہ پولیس نے یہ اعلان بھی کیا کہ مہر عبدالستار کے بھائی مہر عبدالجبار کے گھر سے گرینیڈ، اسلحہ اور غیر ملکی کرنسی برآمد کی گئی ہے۔
مہر عبدالستار کہتے ہیں کہ ان دونوں واقعات کا محرک فارم انتظامیہ کا یہ خیال تھا کہ کاشت کاروں کی تحریک کمزور پڑ گئی ہے لہٰذا اس کی قیادت کو ٹارگٹ کر کے اس کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انتظامیہ نے منصوبہ بنایا کہ انجمن مزارعین پنجاب کے رہنماؤں کو 'دہشت گرد ثابت کیا جائے اور پھر انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے'۔
یہ منصوبہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا کیونکہ ملک نعیم جھکڑ دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد اپنے گھر سے ایسے غائب ہوئے کہ آج تک نہیں لوٹے۔ نور نبی کہتے ہیں: ’کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں، چند ماہ قبل ان کے والد کی وفات ہوئی لیکن وہ تب بھی گھر واپس نہیں آئے'۔
دوسری طرف ملک سلیم جھکڑ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ انجمن مزارعین کلیانہ سٹیٹ تقریباً ختم ہو گئی ہے۔
صحافی بھی زیرِ عتاب
حافظ حسنین رضا لاہور سے چھپنے والے اردو روزنامے نوائے وقت کے لیے اوکاڑہ سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہیں اوکاڑہ پولیس نے اپریل 2016 میں گرفتار کیا جس کے بعد ان پر بارہ مقدمات درج کیے گئے جن میں سے زیادہ تر دہشت گردی سے متعلقہ ہیں۔ وہ 23 ماہ جیل کاٹنے کے بعد 2018 میں رہا ہوئے اور تا حال متعدد مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔
ان کا بنیادی جرم یہ ہے کہ وہ ملٹری فارم کے کاشت کاروں کے احتجاج کے بارے میں مسلسل رپورٹنگ کرتے آئے ہیں۔
ان کے والد محمد سرور مجاہد بھی اوکاڑہ میں نوائے وقت کے نمائندے رہ چکے ہیں۔ وہ بھی ملٹری فارم کے کسانوں کے احتجاج پر متواتر رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں 2004، 2006 اور 2007 میں قید میں ڈالے گئے۔
2007 میں قید کے دوران ہی وہ ذیابطیس کا شکار ہوگئے جس کے باعث ان کی ٹانگ کانٹا پڑی۔ 2011 میں جب دل کا دورہ پڑنے سے ان کی وفات ہوئی تو وہ رپورٹنگ کے لیے کاشت کاروں کے ایک جلسے میں ہی موجود تھے۔
زمین آخر ہے کِس کی ملکیت؟
دسمبر 2018 کو اوکاڑہ ملٹری فارم کا تنازعہ حکومت کے قائم کردہ انسانی حقوق کے ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے سامنے جا پہنچا جہاں فوج نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس فارم کا کنٹرول تو موجود ہے مگر اس کی اصل مالک پنجاب حکومت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
راوی ریور فرنٹ کے لیے زرعی زمین کا حصول: منصوبے کے مخالف کسانوں کی گرفتاریاں شروع
اس اقرار کی بنیاد پر کمیشن نے مارچ 2019 میں ایک تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں پنجاب حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ کسانوں کو زمین کی ملکیت دے لیکن جب تک ان کو یہ ملکیت مل نہیں جاتی اس وقت تک وہ ماضی کی طرح فارم انتظامیہ کو اپنی فصل کا ایک مقررہ حصہ دیتے رہیں۔ کمیشن نے فارم انتظامیہ کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ کاشت کاروں کو ہراساں نہ کرے اور ان کے خلاف دہشت گردی کے تمام مقدمات واپس لے۔
لیکن ان ہدایات اور احکامات پر ابھی تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
اس ضمن میں مہر عبدالستار کہتے ہیں: ’ کیا اس فیصلے کی روشنی میں مزارعین کے خلاف مقدمات ختم ہوئے؟ اگر یہ مقدمے ختم ہو جاتے تو اب ہائی کورٹ سے بری ہونے کے بجائے میں دو سال پہلے رہا ہو جاتا'۔
کسانوں کی تحریک کا مستقبل کیا ہے؟
انجمن مزارعین پنجاب کے کچھ رہنماؤں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں کاشت کاروں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک بار پھر بڑے پیمانے پر احتجاج کر سکیں کیونکہ اس صورت میں انہیں مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نور نبی جو خود بھی 17 مقدمات بھگت چکے ہیں کہتے ہیں: 'میں تو خود وکیل ہوں اس لئے مجھے ان مقدمات کا سامنا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن دوسرے کاشت کار پولیس اور عدالت کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتے ہیں اس لئے ان میں سے کئی چھپ چھپا کر زندگی گذار رہے ہیں'۔
لیکن نور نبی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ کوئی مقامی کاشت کار کبھی بھی زمین سے بے دخلی برداشت نہیں کرے گا چاہے اس کے لئے اسے جان سے بھی جانا پڑے کیونکہ اس کے پاس گذر بسر کرنے کے لئے ایک یا ڈیڑھ ایکڑ رقبے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے واحد کفیل 64 سالہ محمد رمضان کو یہی صورتِ حال درپیش ہے۔ وہ 4/14 ایل گاؤں میں دو ایکڑ اراضی کاشت کرتے ہیں اور فارم انتظامیہ کے ساتھ تنازعے کے نتیجے میں کئی مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں انسانی حقوق کمیشن کے سامنے بھی پیشیاں بھگتتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں مار کر ہی ان سے یہ زمین لے سکتی ہے۔ 'جب تک ہم زندہ ہیں تب تک وہ ہم سے یہ زمین نہیں لے سکتے‘۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 25 ستمبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 19 مئی 2022