عام انتخابات 2024ء کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی ضلع نارووال میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں نے آہستہ آہستہ انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ کہیں کہیں کارنر میٹیگز کے ساتھ جوڑ توڑ اور سیاسی ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔
2013 ء میں ضلع نارووال کی تین قومی اور پانچ صوبائی نشستیں تھیں۔ یہ تینوں قومی نشستیں ن لیگ کے میاں محمد رشید، دانیال عزیز اور احسن اقبال نے جیتی تھیں۔ اسی طرح پانچوں صوبائی نشستوں پر بھی ن لیگ نے سویپ کیا تھا۔
تاہم 2018ء میں ضلعے کی ایک قومی نشست کم ہو گئی تھی لیکن صوبائی نشستیں پانچ برقرار رہیں۔اُس وقت یہاں بڑی تبدیلی یہ آئی تھی کہ عدالت عالیہ نے الیکشن سے قبل ہی ن لیگ کے دانیال عزیز کو پانچ سال کے لیے نااہل کر دیا تھا۔
یوں پچھلے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے نارووال ون(موجودہ این اے 75) سے دانیال عزیز کی اہلیہ مہناز اکبر عزیز کو ٹکٹ دے دیا تھا اور وہ ایک لاکھ11 ہزار زائد ووٹ لے کر جیت گئی تھیں۔ آزاد امیدوار طارق انیس دوسرے اور تحریک انصاف کے امیدوار اور ن لیگ کے سابق ایم این اے میاں محمد رشید تیسرے نمبر پر آئے تھے۔
نارووال نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 77 نارووال 1 اب این اے 75 نارووال 1 ہے
قومی اسمبلی کا یہ حلقہ ظفر وال اور شکرگڑھ تحصیلوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں جو علاقے اس حلقے میں موجود تھے۔ 2024 میں بھی وہی رہیں گے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 78 نارووال 2 اب این اے 76 نارووال 2 ہے
یہ ناروال تحصیل کا حلقہ ہے جس میں شکرگڑھ تحصیل کے کچھ دیہات بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں جو علاقے اس حلقے میں موجود تھے۔ 2024 میں بھی وہی رہیں گے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 46 نارووال 1 اب پی پی 54 نارووال 1 ہے
اس حلقے میں تحصیل ظفر وال کی شہری اور دیہی آبادی شامل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں معمولی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ظفروال تحصیل کے قصبہ دہمتھل پٹوار سرکل کو نکالا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 47 نارووال 2 اب پی پی 55 نارووال 2 ہے
یہ شکر گڑھ تحصیل کی شہری اور دیہی آبادی پرمشتمل حلقہ ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں تحصیل شکر گڑھ کے جھنگی ایک، جھنگی، دو، ٹولہ اور سریا پٹوار سرکل کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اسی تحصیل کے اخلاص پور، بھروال، بودلہ، گھروٹا، گوپال پور اور جلالہ پٹوار سرکلز کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 48 نارووال 3 اب پی پی 56 نارووال 3 ہے
یہ حلقہ بھی شکرگڑھ تحصیل کا ہے۔ جس میں کوٹ نیناں، بڑا منگہ اور کنجرور قصبوں کی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ ناروال 2 سے نکالے گئے اخلاص پور، بھروال، بودلہ، گھروٹا، گوپال پور اور جلالہ پٹوار سرکلز کو شامل کیا گیا ہے جبکہ شکر گڑھ کے جھنگی ایک، جھنگی، دو، ٹولہ اور سریا پٹوار سرکل کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 49 نارووال 4 اب پی پی 58 نارووال 5 ہے
یہ حلقہ ناروال تحصیل کے قصبات احمد آباد، قلعہ سوبھا سنگھ ، تلونڈی بھنڈران کی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں گھوٹہ فتح گڑھ قصبے کے آدھے پٹوار سرکل بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے سے تحصیل ظفروال کے دھمتھل پٹوار سرکل کو شامل کیا گیا ہے۔ باقی علاقے وہی ہیں جو 2018 کے انتخابات کے وقت اس حلقے میں شامل تھے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 50 نارووال 5 اب پی پی 57 نارووال 4 ہے
یہ حلقہ ناروال تحصیل کا شہری حلقہ ہے۔ جس میں ٹاؤن کمیٹی بدوملہی اور ناروال شہر کے گردونواح کے دیہات بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے یعنی 2018 کے انتخابات کے وقت جوعلاقے اس حلقے میں شامل تھے 2024 کے انتخابات میں بھی وہی رہیں گے۔
ضلع نارووال کی کل آبادی 19 لاکھ 51 ہزار کے لگ بھگ ہے۔یہاں 12 لاکھ 38 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹروں میں سے چھ لاکھ 70 ہزار سے زائد مرد اور پانچ لاکھ 67 ہزار سے زائد خواتین ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں میں بھی یہاں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے پانچ حلقے برقرار رکھے گئے ہیں۔
قومی حلقہ این اے 75 تحصیل شکرگڑھ اور تحصیل ظفروال پر مشتمل ہے۔ن لیگ کے رہنما دانیال عزیز کی نااہلی کے پانچ سال مکمل ہو چکے ہیں۔ وہی اب اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار ہوں گے۔ ان کا مقابلہ ایک بار پھر طارق انیس چوہدری اور میاں رشید کے بیٹے عثمان رشید سے ہونے کی توقع ہے۔ یہ دونوں ابھی تک بطور آزاد امیدوار سامنے آئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ بار کے رکن محمد عرفان خان مقامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں اس حلقے میں گجر، انصاری، پٹھان، ارائیں اور کشمیری (مہاجر) برادریوں کے ووٹوں کی اکثریت ہے۔ ضلع نارووال میں ووٹ سیاسی بنیاد پر کم اور ذات برادری کے نام پر زیادہ پڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دانیال عزیز اور طارق انیس کا تعلق گجر جبکہ میاں رشید کا ارائیں برادری سے ہے۔دانیال عزیز اور ان کے والد مرحوم انور عزیز کو ہمیشہ سے تحصیل ظفروال میں زیادہ حمایت حاصل رہی ہے، تاہم شکر گڑھ میں بھی ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ طارق انیس اور دانیال عزیز کے درمیان شکرگڑھ تحصیل میں برابر کا مقابلہ ہو گا۔ مگر ظفروال میں طارق انیس کی پوزیشن زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتی۔ تیسرے امیدوار میاں عثمان رشید کا ووٹ بنک تحصیل ظفروال میں زیادہ ہے۔
میاں عثمان رشید کی والدہ رکن اسمبلی رہی ہیں ۔ ان کے والد میاں رشید اور میاں رشید کی بہو سمیرا یاسر رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ تاہم پچھلے الیکشن میں میاں رشید اس حلقے سے صرف 55 ہزار ووٹ لے سکے تھے۔طارق انیس یہاں دانیال عزیز کی اہلیہ سے 50 ہزار ووٹوں سے ہار گئے تھے۔
این اے 76، تحصیل نارووال کے علاوہ شکرگڑھ کے دیہات پر مشتمل ہے۔ اس حلقہ سے پچھلے الیکشن میں ن لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال ایک لاکھ 59 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، تحریک انصاف کے ابرار الحق 88 ہزار ووٹ ہی حاصل کر پائے تھے۔
اس قومی حلقے میں مغل، بٹ، جٹ، راجپوت، ارائیں اور رانا برادری کے ووٹ دیگر برادریوں کی نسبت زیادہ ہیں۔
مقامی سیاست کار سعید الحق ملک بتاتے ہیں کہ احسن اقبال نے پچھلے چناؤ کے فورا بعد ہی عملاً اپنی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔وہ ہر ہفتے اپنے حلقے میں ووٹروں سے ڈیروں پر جا کر ملتے ہیں۔
"احسن اقبال اب بھی کارنر میٹنگز اور جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ ابرار الحق تو سیاست کو ہی خیر باد کہہ گئے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے سابق امیدوار چوہدری انوارالحق نارووال سے واپس آبائی گاؤں شکرگڑھ جا چکے ہیں۔ یوں احسن اقبال کے مدمقابل ابھی تک کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔"
نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضلع نارووال کے پانچ صوبائی حلقوں میں پی پی 54، پی پی 55، پی پی 56، پی پی 57 اور پی پی 58 شامل ہیں۔
پی پی 54 ظفروال شہر اور نواحی دیہات پر مشتمل ہے۔ یہاں سے ن لیگ کے منتخب سابق رکن اسمبلی اویس قاسم خان 2018ء میں پارٹی چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے اسی حلقے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر چناؤ لڑا تھا۔ مگر آزاد امیدوار پیر سعید الحسن شاہ نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ہرا دیا تھا۔
اس صوبائی حلقے میں اب ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے اپنے صاحبزادے سابق چیئرمین ضلع کونسل احمد اقبال کو میدان میں اتار دیا ہے۔اس طرح یہاں تین امیدوار سامنے آ گئے ہیں۔ سعید الحسن شاہ اور اویس قاسم خان دونوں سابق ارکان اسمبلی ہیں۔
اویس قاسم کے خاندان کا اس حلقے میں اچھا خاصا ووٹ بینک ہے۔ جبکہ سعید الحسن مذہبی شخصیت ہیں اور کسی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ کے بغیر پچھلا الیکشن جیت چکے ہیں۔
تاہم احمد اقبال کی انتخابی مہم میں احسن اقبال اور ضلعے کے پانچ سابقہ ایم پی ایز حصہ لے رہے ہیں۔ اس لیے تینوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
پی پی 55 میں شکرگڑھ شہر اور ارد گرد کے دیہات شامل ہیں۔ اس حلقے سے ن لیگ کے امیدوار مولانا غیاث الدین پچھلے دو چناؤ جیت چکے ہیں۔ 2018ء میں انہوں نے سابق چیئرمین ضلع کونسل ڈاکٹر نعمت علی جاوید کو ہرایا تھا۔
عابد فرید خان ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ مولانا غیاث الدین سیاسی وفاداری تبدیل کرکے صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کو سپورٹ کرتے رہے۔ اب ن لیگ کی ضلعی تنظیم نے یہاں سے پارٹی ٹکٹ حافظ محمد شبیر کو دینے کی سفارش کی ہے جو اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس صوبائی حلقے میں انصاری برادری کا ووٹ بہت اہم ہے۔ مولانا غیاث الدین اور حافظ محمد شبیر دونوں انصاری برادری سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے دونوں کے ووٹ تقسیم ہونے کا امکان ہے، یہاں گجر برادری کا ووٹ بھی بہت زیادہ ہے۔
پچھلے دو انتخابات میں یہاں سے رنر اپ ڈاکٹر نعمت علی اور ڈاکٹر گلزار احمد تحریک انصاف کے امیدوار تھے اور دونوں گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں سےکون میدان مارے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
گوجرانوالہ میں ٹکٹوں کے حصول کے لیے ن لیگ کے سیاسی پہلوانوں کا باہمی دنگل، اپنے اپنے اکھاڑے سنبھال لیے
پی پی 56 شکرگڑھ کے دیہاتوں پر مشتمل ہے۔یہاں پٹھان، گجر اور انصاری برادریاں زیادہ نمایاں ہیں۔ پچھلے دونوں الیکشن یہاں سے ن لیگ کے امیدوار رانا منان خان نے جیتے تھے۔ انہوں نے ایک چناؤ میں تحریک انصاف کے ثاقب ادریس تاج اور دوسرے میں محمد عارف خاں کو شکست دی تھی۔
اس حلقے میں اب مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا منان خان ہی ہیں جبکہ محمد عارف خاں ابھی تک بطور آزاد امیدوار انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
پی پی 57 میں میونسپل کمیٹی نارووال اور نواحی دیہات شامل ہیں۔ اس حلقے میں پچھلے دونوں انتخابات کا معرکہ مسلم لیگ ن کے خواجہ وسیم بٹ نے جیتا تھا۔ 2013 میں تحریک انصاف کے امیدوار محمد عرفان بٹ اور پچھلی بار محمد سجاد مہیس کو 20 ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔
اب محمد سجاد پی ٹی آئی کو چھوڑ کر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ تاہم امجد خان کا کڑ اس حلقے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔
پی پی 58 تحصیل نارووال اور تحصیل ظفروال کے دیہات پر مشتمل ہے۔ 2013ء میں یہاں سے ن لیگ کے کرنل ریٹائرڈ شجاعت نے آزاد امیدوار رانا محمد وکیل منج اور تحریک انصاف کے ندیم نثار کو شکست دی تھی۔ پچھلا الیکشن کرنل شجاعت کے بھتیجے بلال اکبر خان نے ن لیگ کے ٹکٹ پر جیتا تھا۔
بلال اکبر خان نے اس حلقے سے تحریک انصاف کی امیدوار رفعت جاوید کاہلوں کو 22 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہرایا تھا۔ اب ن لیگ کے امیدوار بلال اکبر کا افضال احمد اور محمد وکیل منج کمزور سے مقابلہ متوقع ہے۔
تمام حلقوں میں جوڑ توڑ اور مقامی صف بندیاں جاری ہیں لیکن حتمی فیصلہ ضلع نارووال کے ووٹرز آٹھ فروری کو حق رائے دہی استعمال کرکے دیں گے۔
تاریخ اشاعت 27 دسمبر 2023