ننکانہ صاحب میں روایتی حریفوں میں مقابلے، بڑی برادریاں کس امیدوار کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟

postImg

جاوید احمد معاویہ

postImg

ننکانہ صاحب میں روایتی حریفوں میں مقابلے، بڑی برادریاں کس امیدوار کے ساتھ کھڑی ہوں گی؟

جاوید احمد معاویہ

ضلع ننکانہ صاحب میں امیدواروں نے انتخابی مہم شروع تو کر رکھی ہے لیکن ابھی تک عام انتخابات کے روایتی رنگ دکھائی نہیں دے رہے۔

2018ء کے انتخابات میں ضلع ننکانہ سے ن لیگ نے ایک قومی اور تین صوبائی نشستیں جیتی تھیں۔ تحریک انصاف ایک قومی اور ایک صوبائی نشست لینے میں کامیاب ہوئی تھی۔

اس ضلعے کی آبادی 16 لاکھ 34 ہزار 871 ہے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد نو لاکھ 46 ہزار 64 ہے جن میں سے پانچ لاکھ 14 ہزار 667 مرد اور چار لاکھ 31 ہزار 397 خواتین ووٹر ہیں۔

آئندہ الیکشن کے لیے یہاں دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر 171 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ جن میں سے 16 کے کاغذات نامزدگی ابتدائی جانچ پڑتال میں مسترد ہو ئے ہیں۔

این اے 111 ننکانہ ون میں تحصیل شاہ کوٹ، سانگلہ ہل اور قصبہ وار برٹن شامل ہیں۔

پچھلے عام انتخابات میں اس قومی حلقے (سابقہ این اے 117) پر ن لیگ کے چوہدری برجیس طاہر کا سامنا پی ٹی آئی ٹکٹ ہولڈر چوہدری بلال احمد ورک اور سابق ایم پی اے آزاد امیدوار چوھدری طارق محمود باجوہ سے ہوا تھا۔

برجیس طاہر یہ مقابلہ طارق محمود سے صرف تین ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے۔ پی ٹی آئی کے بلال ورک تیسرے نمبر پر رہے تھے۔

آئندہ الیکشن کے لیےاس نشست پر 26 امیدوار تھے جن میں سے بلال ورک اور پی ٹی آئی رہنما احسن رضا سمیت چار کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔


ننکانہ صاحب نئی حلقہ بندیاں 2023

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 117 ننکانہ صاحب 1 اب این اے 111 ننکانہ صاحب 1 ہے
ننکانہ صاحب ضلع کا یہ حلقہ سانگلہ ہل اور شاہ کوٹ کی تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں قصبہ واربرٹن کی میونسپل کمیٹی بھی شامل ہے۔ 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ سوائے مصطفی آباد پٹوار سرکل کے پورے واربرٹن قانون گو حلقے کو نکال دیا گیا ہے۔ ننکانہ صاحب تحصیل کے ہی شیریں جھنگڑ،بال لیلا اور مال جی صاحب پٹوار سرکلز کو شامل کیا گیا ہے۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 118 ننکانہ صاحب 2 اب این اے 112 ننکانہ صاحب 2 ہے
یہ حلقہ ننکانہ صاحب کی شہری اور دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔  نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں سوائے مصطفی آباد پٹوار سرکل کے پورے قصبہ واربرٹن قانون گوئی حلقے کو شامل کرلیا گیا ہے۔  ننکانہ صاحب تحصیل کے ہی شیریں جھنگڑ،بال لیلا  اور مال جی صاحب پٹوار سرکلز اس حلقے سے نکال دیے گئے ہیں۔

2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 131 ننکانہ صاحب 1 اب پی پی 132 ننکانہ صاحب 1 ہے
یہ سانگلہ ہل تحصیل کی مکمل آبادی پر مشتمل حلقہ ہے۔ جس میں شاہ کوٹ تحصیل کے پانچ پٹوار سرکل بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سوائے پانچ پٹوار سرکل کے پورے شاہ کوٹ قانون گوئی حلقے کو نکال دیا گیا ہے۔

2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 132 ننکانہ صاحب 2 اب پی پی 133 ننکانہ صاحب 2 ہے
یہ حلقہ شاہ کوٹ تحصیل پر مشتمل ہے۔ جس میں ننکانہ صاحب تحصیل کے قصبے واربرٹن کی شہری آبادی بھی شامل ہے۔ پہلے اس حلقے میں واربرٹن قانون گوئی حلقہ بھی شامل تھا لیکن نئی حلقہ بندیوں میں سوائے ایک پٹوار سرکل کے باقی کو نکال دیا گیا ہے۔ شاہ کوٹ قانون گوئی کے پانچ پٹوار سرکل اب اس میں شامل ہیں اسی طرح ننکانہ صاحب قانون گوئی ون کے تین پٹوار سرکلز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 133 ننکانہ صاحب 3 اب پی پی 134 ننکانہ صاحب 3 ہے
یہ ننکانہ صاحب کا شہری حلقہ ہے جس میں ریحان والا قصبے کے دیہات بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں ایک پٹوار سرکل چھوڑ کر پورے واربرٹن قصبہ قانون گوئی حلقے کو شامل کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح مانگٹانوالہ قصبے کا چاندپور پٹوار سرکل بھی اب اس حلقے کا حصہ ہے۔ ننکانہ صاحب ون اور ٹو قانون گوئی حلقوں کے پانچ پٹوار سرکلز کو اس حلقے سے نکال دیا گیا ہے۔

2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 134 ننکانہ صاحب 4 اب پی پی 135 ننکانہ صاحب 4 ہے
یہ ننکانہ صاحب تحصیل کا دیہی حلقہ ہے جس میں سید والا اور بڑا گھر قصبوں کی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں ننکانہ صاحب تحصیل کے پٹوار سرکل بدھے اور برخوردار کو شامل کیا گیا ہے جبکہ چاند پور پٹوار سرکل کو اس حلقے سے نکال دیا گیا ہے۔


اب یہاں ن لیگ کے چوہدری برجیس طاہر اور طارق محمود باجوہ میں فائنل ریس نظر آ رہی۔ طارق باجوہ آزاد حثیت سے میدان میں اتریں گے حالانکہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ لیکن اب ان کی انتخابی سرگرمیوں میں کہیں سیاسی وابستگی کا ذکر نہیں ہوتا۔

اس حلقے میں جٹ، رائے، ارائیں اور شیخ بڑی بڑی برادریاں ہیں مگر جٹ برادری کے ووٹ زیادہ ہیں۔ ماضی میں بلال ورک کی کامیابی میں بھی اسی برادری کا ہاتھ رہا ہے۔

طارق باجوہ کا اس حلقے میں اچھا خاصا ذاتی ووٹ بینک ہے تو برجیس طاہر یہاں اپنے ترقیاتی کاموں پر فخر کرتے ہیں۔ اب بھی ان دونوں میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

 بلال ورک ایک بار ق لیگ اور دو مرتبہ ن لیگ کے ٹکٹ پر یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ کاغذات منظور ہونے اور پی ٹی آئی ٹکٹ ملنے کی صورت میں مقابلے کی پوزیشن میں واپس آ سکتے ہیں۔

این اے 112 ننکانہ ٹو ننکانہ صاحب شہر، بچیکی، سید والہ، منڈی فیض آباد اور مانگٹانوالہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔

2013 ء میں اس حلقے (سابق این اے 118)میں ن لیگ کے رائے منصب علی نے تحریک انصاف کے برگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز احمد شاہ کو ہرا یا تھا۔

2015ء میں رائے منصب علی کے انتقال پر ڈاکٹر شذرہ منصب نے اعجاز شاہ کو شکست دی تھی۔ پچھلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے اعجاز شاہ نے ڈاکٹر شذرہ مںصب سے یہ سیٹ چھین لی تھی۔

تحریک لبیک کے سید افضال حسین رضوی 49 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور پیپلز پارٹی کے شاہ جہان بھٹی چوتھے نمبر پر رہے تھے۔ 2023ء میں اعجاز کے استعفے پر یہاں ضمنی الیکشن ہوا تو اس حلقے سے عمران خان جیت گئے۔

آئندہ انتخابات کے لیے اس نشست پر 22 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ ان میں سے چار کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں جن میں پی ٹی آئی رہنما جمیل حسن، نواز چڈھر اور مرکزی مسلم لیگ کے غریب عالم شامل ہیں۔

 اب سابقہ ایم این اے ڈاکٹر شذرہ منصب علی ن لیگ اور سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ تحریک لبیک کے پیر افضال حسین شاہ، استحکام پاکستان پارٹی کے راٸے اسلم خاں، پیپلز پارٹی کے رائے شاہ جہاں بھٹی اور آزاد امیدوار رائے فیصل رشید بھٹی بھی میدان میں ہیں۔

تاہم اس حلقے میں ڈاکٹر شذرہ منصب اور اعجاز احمد شاہ کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پیر افضال حسین شاہ بھی مریدوں کی بڑی تعداد کے باعث مضبوط امیدوار ہیں۔

اس حلقے میں رائے اور ارائیں بڑی برادریاں ہیں ہیں جو امیدوار دونوں کی حمایت حاصل کر لیتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔رائے فیصل کے دستبردار نہ ہونے کی صورت میں اعجاز شاہ کو نقصان ہو سکتا ہے۔

ضلع ننکانہ صاحب کے چار صوبائی حلقوں میں 123 امیدواروں سامنے آئے تھے جن میں سے آٹھ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گٸے ہیں۔

 پی پی 132 میں تحصیل شاہ کوٹ کے چکوک اور تحصیل سانگلہ ہل کے علاقے شامل ہیں۔

پچھلے انتخابات میں یہاں (سابقہ پی پی 131) سے ن لیگ کے میاں اعجاز بھٹی معمولی برتری کے ساتھ آزاد امیدوار شازیہ چیمہ سے جیت گئے تھے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے طارق سعید گھمن تیسرے نمبر پر آئے تھے۔

 سابق ایم پی اے میاں اعجاز بھٹی اس حلقے سے ن لیگ کے دوبارہ متوقع امیدوار ہیں جنہیں برجیس طاہر کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دو پی ٹی آئی رہنماؤں طارق سعید گھمن اور چوہدری ارشد ساہی کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں۔

پی ٹی آئی اس نشست پر ابھی امیدوار کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس حلقے میں تاحال مقابلہ میاں اعجاز اور آزاد امیدوار طارق باجوہ کے درمیان ہوتا نظر آ رہا ہے۔

پی پی 133 تحصیل شاہ کوٹ کے چکوک، وار برٹن اور تحصیل ننکانہ صاحب کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔

2018ء میں اس حلقے(سابقہ 132) سے پی ٹی آئی کے میاں عاطف نے ن لیگ کے امیدوار رانا ارشد کو شکست دی تھی۔

آئندہ انتخابات کے لیے سابق ایم پی اے میاں عاطف کےکاغذات نامزدگی ابتدائی جانچ پڑتال میں مسترد کر دیے گئے ہیں۔

 یہاں رانا ارشد ن لیگ کے متوقع امیدوار ہیں۔ پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے کی صورت میں سابق ایم پی اے کی اہلیہ فائزہ عاطف مضبوط امیدوار ہوں گی۔ استحکام پاکسان پارٹی کے چوہدری نوشیر مان بھی میدان میں ہیں۔

اگرچہ اس حلقے سے مزید کئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کر رکھے ہیں۔ تاہم فائنل راؤنڈ رانا ارشد، فاٸزہ عاطف اور نوشیر مان کے درمیان ہونے کی توقع ہے۔

 پی پی 134 میں میونسپل کمیٹی ننکانہ، مانگٹانوالہ، میونسپل کمیٹی واربرٹن وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا۔ جس میں ن لیگ کے محمد کاشف جیت گئے تھے۔ پی ٹی آئی کے شاہد منظور گل تھوڑے کم ووٹوں کے سات دوسرے اور پیپلز پارٹی کے سید ابرار تیسرے نمبر پر تھے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شیخو پورہ میں پارٹی ووٹ اہم، کس حلقے میں کن امیدواروں کے درمیان فائنل ریس متوقع ہے؟

اب شاہد منظور گل، طاہر منظور گل اور راٸے رضوان طاہر کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں۔ اس نشست پر سابقہ حریف ن لیگ کے کاشف رنگ الٰہی پڈھیار اور پیپلز پارٹی کے سید ابرار میدان میں ہیں۔ شاہد منظور کی جگہ پی ٹی آئی کے سہیل منظور گل نے لے لی ہے۔

سیاسی مبصرین اس حلقے میں آئندہ ہونے الیکشن میں ان تینوں کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع کر رہے ہیں تاہم جیت کس کا مقدر ٹھہرے گی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پی پی 135 میں تحصیل ننکانہ کے علاقے ناتھا ،بڑا گھر، سید والہ وغیرہ آتے ہیں ۔اس حلقے میں زیادہ ترمقابلہ آغا، راجپوت اور رائے برادریوں میں ہوتا ہے۔ ایک بار آغا تو اگلے الیکشن میں راجپوت یا رائے برادری کی شخصیت جیت جاتی ہے۔

پچھلے چناؤ میں آغا علی حیدر نے ن لیگ کے ٹکٹ پر پی ٹی آ ئی کے رائے اسلم کھرل کو ہرایا تھا۔ آزاد امیدوار رانا جمیل تیسرے نمبر پر تھے۔

اب یہاں آغا علی حیدر ن لیگ اور رائے اسلم استحکام پاکستان پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما و سابق ایم پی اے رانا جمیل حسن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں۔

 تاہم پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لیے رانا جمیل کے بھتیجے رانا شیرافضل خاں، سابق مشیر راٸے ملازم حسین کھرل اور نوجوان وکیل چوہدری اویس باور بھی امیدوار ہیں۔ یوں اس حلقے میں بھی تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ متوقع ہیں۔

تاریخ اشاعت 6 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جاوید احمد معاویہ کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے۔ عرصہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.