سُن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں: ننکانہ صاحب کی انوکھی ضلعی حدود کیسے اس کے باسیوں کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہیں۔

postImg

آصف ریاض

postImg

سُن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں: ننکانہ صاحب کی انوکھی ضلعی حدود کیسے اس کے باسیوں کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہیں۔

آصف ریاض

عدالت نے 50 سالہ کریم بخش کو تین گھنٹے کی مہلت دی ہے۔ اگر اس دوران ان کے وکیل کمرہِ عدالت میں نہ پہنچے تو ان کے مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی جائے گی۔ 

وہ 13 ستمبر 2022 کی صبح موٹر سائیکل پر 56 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے وسطی پنجاب کے سید والا نامی قصبے سے ننکانہ صاحب شہر میں واقع ضلع کچہری میں پہنچے ہیں اور کہتے ہیں کہ "سماعت ملتوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام سفر رائیگاں چلا جائے گا"۔  

انہیں موٹر سائیکل پر کچہری میں لانے والے ان کے جواں عمر بھانجے اللہ دتہ کے بقول ان کے ماموں پچھلے چار سال سے دو کنال زرعی زمین کی ملکیت کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور اس سلسلے میں ہر ماہ کم از کم ایک بار یہ طویل سفر طے کر کے عدالت میں حاضر ہوتے ہیں۔ ان کے بقول "جتنا پیسہ ہم نے آنے جانے میں برباد کردیا ہے اتنی مالیت کی تو وہ زمین ہی نہیں ہے"۔ 

موٹر سائیکل پر ضلع کچہری پہنچنے میں انہیں دو گھنٹے لگے ہیں لیکن اللہ دتہ کہتے ہیں کہ سفر کے متبادل ذرائع نہ تو قابل اعتبار ہیں اور نہ ہی آرام دہ۔ ان کے مطابق سید والا کو ننکانہ صاحب شہر سے جوڑنے والی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہیں اور ان پر چلنے والی ویگنیں اور موٹرسائیکل رکشا جگہ جگہ رکتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں چنانچہ "انہیں ان دونوں مقامات کے درمیان فاصلہ طے کرنے میں کم از کم تین گھنٹے لگ جاتے ہیں"۔ 

سید والا ہی کے ایک نواحی گاؤں کے رہنے والے ادھیڑ عمر کسان محمد شیر بھی ضلع کچہری میں موجود ہیں۔ وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے زمیندار کے ہاں کام کرتے ہیں جو پچھلے 12 سال سے 12 ایکڑ زرعی اراضی کی ملکیت کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اِس روز وہ زمیندار خود تو اپنے وکیل کے کمرے میں بیٹھے ہیں لیکن انہوں نے محمد شیر کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ جیسے ہی انہیں عدالت میں بلایا جائے تو فوراً انہیں اس سے آگاہ کردیا جائے۔ 

محمد شیر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کچہری میں چلنے والے 70 فیصد مقدمے سید والا اور اس کے نواحی دیہات سے متعلق ہیں۔ مختلف کمرہ ہائے عدالت کے باہر لگی مقدمات کی فہرستیں ان کی بات کی مکمل توثیق تو نہیں کرتیں لیکن ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ان مقدموں کے سائلیں کی ایک بڑی تعداد اُسی علاقے کی رہنے والی ہے۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سید والا کے علاقے میں "غربت، جہالت اور معاشی پسماندگی اس قدر شدید ہیں کہ اس کے باسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مقدمہ بازی شروع کر دیتے ہیں"۔

قومی ترجیحات، مقامی تفکرات

وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے پاکستان بھر میں رہنے والے لوگوں کے سماجی اور انفرادی معیار زندگی کے بارے میں 2019-20 میں کیے گئے ایک سروے میں ضلع ننکانہ صاحب کے رہنے والے صرف چھ فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے حالات ماضی کی نسبت بہتر ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس کے نواحی ضلع فیصل آباد کے 14 فیصد لوگوں نے اسی رائے کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح ننکانہ صاحب کے جنوب میں بہنے والے دریائے راوی کے پار واقع ضلع اوکاڑہ کے 13 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی میں بہتری آئی ہے جبکہ اس کے شمال مغرب میں موجود حافظ آباد ضلع کے 13 فیصد لوگوں نے اپنے حالات بہتر ہونے کا دعوی کیا تھا۔ 

سید والا کے علاقے میں صورتِ حال مزید بدتر ہے۔ 2017 کی قومی مردم شماری کے مطابق اس کی کل آبادی ایک لاکھ دو ہزار ایک سو 94 افراد پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 48 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں (جبکہ ضلع ننکانہ صاحب کے دیہی علاقوں میں مجموعی طور پر یہ شرح 61 فیصد ہے)۔ ان میں سے سات ہزار چار سو چھ لوگ ہی میٹرک تک پہنچ پائے ہیں جن میں خواتین کی تعداد صرف دو ہزار 30 ہے۔

محمد شیر اس صورتِ حال کی ذمہ داری 2005 کے اس حکومتی فیصلے پر ڈالتے ہیں جس کے تحت ایک تو ننکانہ صاحب کو ایک ضلعے کا درجہ دیا گیا اور دوسرا سیدوالا کو اس نئے ضلعے میں شامل کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ "اس کے بجائے اگر ہمارے علاقے کو ضلع فیصل آباد کا حصہ بنا دیا جاتا تو پچھلے 17 سال میں ہمارے حالات زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو جاتے"۔ 

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سیدوالا کی پسماندگی کی ایک اہم وجہ اس کا ضلعی صدرمقام ننکانہ صاحب شہر سے بہت دور ہونا ہے۔ ان کے مطابق اس فاصلے کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں کو اپنے ہر انتظامی، قانونی اور ترقیاتی مسئلے کے حل کے لیے "50 کلومیٹر سے زیادہ لمبا اور تکلیف دہ سفر کرنا پڑتا ہے"۔ 

اس لیے ان کا کہنا ہے کہ اگر مقامی لوگوں کے بس میں ہو تو وہ کبھی ننکانہ صاحب شہر نہ جائیں بلکہ اس کے بجائے ضلع فیصل آباد کے قصبے جڑانوالا جانے کو ترجیح دیں جو ان سے محض 25 کلومیٹر دور ہے۔ ان کے بقول "سیدوالا کے باسی کاروبار، خریداری، پڑھائی اور علاج معالجے جیسے ذاتی معاملات میں پہلے ہی ایسا کر رہے ہیں کیونکہ جڑانوالا معاشی اور تجارتی لحاظ سے بھی ننکانہ صاحب کی نسبت کہیں بہتر ہے"۔  

رفیع اللہ نیازی محمد شیر کی باتوں سے متفق ہیں۔ وہ 2000 کی دہائی کے وسط میں ضلع ننکانہ صاحب میں ایک پولیس آفیسر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں پائے جانے والے سماجی، معاشی اور عدالتی مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ "اسے انتہائی عجلت میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا"۔

اس فیصلے کی بنیادی وجہ اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کا یہ خیال تھا کہ وہ اس ضلعے کو پاکستان اور انڈیا کے باہمی تعلقات میں ایک اہم مہرے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ ننکانہ صاحب شہر سکھ مذہب کے بانی گورونانک کی جائے پیدائش ہے۔ آج بھی یہاں سینکڑوں سکھ رہتے ہیں جبکہ انڈیا سمیت کئی دوسرے ملکوں میں رہنے والے ان کے ہزاروں ہم مذہب ہر سال یہاں موجود گوردوارہ جنم استھان میں عبادت کرنے آتے ہیں۔ 

جنرل پرویز مشرف سکھ برادری کو بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان ان کے مذہبی حقوق کی حفاظت انڈیا سے کہیں بہتر طریقے سے کر رہا ہے۔ اس نکتہ نظر کے تحت انہوں نے نہ صرف گوردوارہ جنم استھان کی تعمیرنو اور وسعت پر توجہ دی بلکہ ننکانہ صاحب میں گورونانک کے نام پر یونیورسٹی قائم کرنے اور اس شہر کو ایک موٹروے کے ذریعے لاہور اور پاکستان-انڈیا سرحد سے منسلک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ 

رفیع اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ ان کاموں کی نگرانی کے لیے درکار انتظامی ڈھانچے کو باہم پہنچانے کے لیے "مقامی لوگوں سے کوئی مشاورت کیے بغیر ننکانہ صاحب کو ضلع بنا دیا گیا حالانکہ اس میں شامل کیے گئے بیشتر علاقوں کے لوگ اس فیصلے سے ناخوش تھے"۔ ان کے مطابق "ان میں سے کئی ایک نے تو اس شمولیت کے خلاف فوری طور پر احتجاج بھی کرنا شروع کر دیا تھا"۔

18 جون 2005 کو بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک خبر ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک مقامی قصبے خانقاں ڈوگراں کے لوگوں نے اسے ضلع ننکانہ صاحب میں شامل کیے جانے کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوگئی۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں تین مظاہرین زخمی ہوئے اور ایک مقامی تھانے کو آگ لگا دی گئی۔ 

تبدیلی کے متاثرین

ضلع ننکانہ صاحب دو ہزار دو سو 16 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کی جغرافیائی حدود مشرق میں لاہور، شمال اور شمال مشرق میں شیخوپورہ، شمال مغرب میں حافظ آباد، جنوب مغرب میں فیصل آباد اور جنوب میں اوکاڑہ اور قصور سے ملی ہوئی ہیں۔ ابتدا میں اس میں شیخوپورہ ضلع کی چار تحصیلیں، ننکانہ صاحب، سانگلہ ہل، شاہ کوٹ اور صفدر آباد، شامل کی گئی تھیں لیکن صفدر آباد کے لوگوں نے اس فیصلے کے خلاف شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے 2005 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ تک کر دیا۔ اس عوامی دباؤ کے نتیجے میں حکومت نے 2008 میں ان کی تحصیل کو دوبارہ ضلع شیخوپورہ میں شامل کردیا۔

ضلع ننکانہ صاحب کے قصبے منڈی فیض آباد میں رہنے والے سماجی رہنما اویس علی کھوکھر کا کہنا ہے کہ سانگلہ ہل اور شاہ کوٹ تحصیلوں میں رہنے والے لوگ بھی اس مسئلے پر بار بار آواز اٹھا چکے ہیں۔ ان کے اپنے قصبے اور سیدوالا سمیت تحصیل ننکانہ صاحب کے جنوبی حصوں کے بیشتر باسی بھی اس فیصلے سے خوش نہیں کیونکہ "ان کے خیال میں شیخوپورہ جیسے صنعتی ضلعے سے کٹ کر ان کے معاشی حالات مزید خراب ہو گئے ہیں"۔

اویس علی کھوکھر کا یہ بھی کہنا ہے کہ وسطی پنجاب کے کسی اور ضلعے کی حدود ننکانہ صاحب جیسی انوکھی نہیں کیونکہ "ایک طرف تو اس کا شمال مغربی سرا اس کے جنوب مشرقی سرے سے ایک سو 26 کلومیٹر دور ہے جبکہ دوسری طرف اس کی شمالی حد پر واقع ایک مقام، چک نمبر 4، اس کی جنوبی حد سے محض چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے"۔  

اسی طرح اس ضلعے کے اپنے متعدد علاقے تو ننکانہ صاحب شہر سے 50 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہیں لیکن دو دیگر اضلاع کے کئی دیہات اس شہر سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان میں ضلع فیصل آباد کا گاؤں کوٹ دیال داس اور ضلع شیخوپورہ کا گاؤں بگے کا چک شامل ہیں جو یہاں سے بالترتیب صرف پانچ کلومیٹر اور 10 کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔ دوسری طرف ضلع ننکانہ صاحب کا اپنا جنوب مشرقی قصبہ جندراکہ اس کے صدر مقام سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔   

طاہر منظور گِل، جو 2005 میں ننکانہ صاحب تحصیل کے ناظم منتخب ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ انہوں نے اُس وقت "بہت کوشش کی تھی کہ نئے ضلعے کی حدبندی میں بہتری لائی جائے"۔ لیکن، ان کے بقول، "چونکہ اس وقت ملک میں ایک فوجی آمر کی حکومت تھی اس لیے میری آواز بے اثر رہی"۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ننکانہ صاحب کے رہنے والے سابق فوجی افسر بریگیڈیر اعجاز شاہ نے، جو اس وقت انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے تھے، ان حدود کو مقامی لوگوں کی مشاورت کے بغیر متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ وہ "ہر صورت میں ننکانہ صاحب کو ضلع بنانا چاہتے تھے"۔ 
بریگیڈیر اعجاز شاہ نے 2013 کے عام انتخابات میں اسی ضلعے سے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ تاہم 2018 کے عام انتخابات میں وہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر یہاں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے اور سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ بھی رہے۔ اِس وقت قومی اسمبلی کی یہ نشست خالی ہے کیونکہ رواں سال کے وسط میں انہوں نے اپنی جماعت کے ایک فیصلے کے نتیجے میں اس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 

ننکانہ صاحب کی ناقص حدبندیوں کے حوالے سے دوسرا نام جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں پنجاب کے چیف سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے سلمان صدیق کا لیا جاتا ہے۔ ان کا آبائی علاقہ مانانوالا ننکانہ صاحب شہر سے محض 10 کلومیٹر دور ہے اسی لیے 2005 میں اسے نئے ضلعے میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن کئی مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2009 میں اسے دوبارہ ضلع  شیخوپورہ کا حصہ بنا دیا گیا تاکہ "سلمان صدیق کے بیٹے علی سلمان صدیق کو پنجاب اسمبلی کی ایک مقامی نشست پر انتخاب لڑنے میں آسانی ہو"۔ اس الزام کے ثبوت کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ 2013 کے عام انتخابات میں علی سلمان صدیق نے نہ صرف ایک آزاد امیدوار کے طور پر اس نشست سے انتخاب میں حصہ لیا بلکہ 24 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب بھی ہو گئے۔

ننکانہ صاحب کی ضلعی حدود کے حوالے سے وصی ظفر مرحوم کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ وہ 2002 میں ضلع فیصل آباد کی تحصیل جرانوالا سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر جنرل پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں وفاقی وزیر قانون رہے تھے۔ رفیع اللہ نیازی کہتے ہیں کہ "وصی ظفر نے اپنے حلقہ انتخاب کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے گاؤں 562 گ ب سمیت کئی ایسے علاقوں کو ضلع ننکانہ صاحب میں شامل نہ ہونے دیا" جو اس کے صدرمقام سے 20 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔ 

اگرچہ رفیع اللہ نیازی خود بھی کئی سالوں سے جڑانوالا تحصیل کو ضلع بنوانے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس تحصیل کی 10 کے قریب ایسی یونین کونسلوں کو ضلع ننکانہ صاحب میں شامل کر دینا چاہیے جو اس کی جنوبی سرحد کے بالکل ساتھ واقع ہیں۔ ان میں ان کے اپنے گاؤں کے ساتھ ساتھ وصی ظفر کا گاؤں بھی شامل ہے۔

اس کے بدلے میں وہ چاہتے ہیں کہ ننکانہ صاحب کے جنوبی حصے میں واقع سیدوالا، جندراکہ اور بڑا گھر نامی قصبے اور ان کے نواحی دیہات، جن کی مجموعی آبادی سوا دو لاکھ کے قریب ہے، جڑانوالا تحصیل میں شامل کر دیے جائیں کیونکہ "وہ جغرافیائی، مواصلاتی اور معاشی اعتبار سے اسی تحصیل سے منسلک ہیں"۔     

کریم بخش، اللہ دتہ اور محمد شیر بھی یہی چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جڑانوالا کا حصہ بننے سے ان کے علاقے کے لوگوں کو اپنے سرکاری اور عدالتی مسائل کے حل کے لیے ننکانہ صاحب کا دوردراز اور دشوار سفر نہیں کرنا پڑے گا۔

تاریخ اشاعت 26 ستمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.