نہ والڈ سٹی اتھارٹی بنی، نہ فنڈ ملے: ملتان کے گھنٹہ گھر کا بُرا وقت بدلتے بدلتے پھر رک گیا؟

postImg

سہیرہ طارق

postImg

نہ والڈ سٹی اتھارٹی بنی، نہ فنڈ ملے: ملتان کے گھنٹہ گھر کا بُرا وقت بدلتے بدلتے پھر رک گیا؟

سہیرہ طارق

گھنٹہ گھر ملتان شہر کی اہم پہچان ہے اور اس میں لگے گھڑیال کی سوئیاں برسوں سے رُکی ہوئی ہیں اور ان کو دوبارہ حرکت میں لانے کا حالیہ منصوبہ بھی اب ٹھپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

گھنٹہ گھر کی 138 سالہ قدیم عمارت کو اصل حالت میں بحال کرنا ملتان والڈ سٹی پراجیکٹ نامی منصوبے کا حصہ تھا۔ یہ مںصوبہ پنجاب حکومت نے اٹلی کی حکومت کے تعاون سے شروع کیا تھا۔

اس کے تحت شہر کی کئی تاریخی عمارتوں کی بحالی عمل میں آئی لیکن بہت سا کام اب بھی ادھورا ہے جبکہ اٹلی کی حکومت نے رواں سال کے آغاز پر اس میں اپنی شراکت ختم کر دی ہے۔

گھنٹہ گھر کی بحالی کے لئے اٹلی کی حکومت نے دو کروڑ روپے فراہم کرنے کی حامی بھری تھی۔

پہلے مرحلے میں 80 لاکھ روپے جاری ہونے کے بعد مرمتی کاموں کا آغاز ہوا جو 30 فیصد ہی مکمل ہو پایا ہے۔

فنڈ کی فراہمی معطل ہو جانے کے باعث عمارت کے نئے فرش اور چھت کی تعمیر، رنگ و روغن اور گھڑیال کی بحالی سمیت کئی کام ادھورے رہ گئے ہیں۔

ملتان کی تاریخی عمارتوں کو محفوظ بنانے کا یہ جامع منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے بغیر بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے شہر کے ثقافتی ورثے کو لاحق خطرات پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔

2012ء میں شروع ہونے والے اس منصوبے کے تحت ملتان کے تاریخی دروازوں اور عمارتوں کو صدیوں پرانے انداز کے مطابق اپ گریڈ کیا جانا تھا۔

اس منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ 85 کروڑ روپے لگایا گیا جسے 'جائزے اور عملدرآمد' کے دو مراحل میں مکمل ہونا تھا۔

پراجیکٹ کے مینیجر محمد عمیر بتاتے ہیں کہ عملدرآمد کے مرحلے میں حرم گیٹ کی بحالی، چوک حرم گیٹ پر لوگوں کے بیٹھنے کے لئے پویلین اور عوامی بیت الخلا کی تعمیر، دربار موسیٰ پاک کے مسافر خانے اور اندرون شہر صرافہ بازار کی سو میٹر پر محیط 80 دکانوں کی حالت بہتر بنانے، وہاں بجلی کی تاروں کو زیر زمین بچھانے اور سولر سسٹم نصب کرنے کے علاوہ چند دیگر مقامات کو بحال کیا جانا تھا۔

عمیر کے مطابق منصوبے کے دوسرے مرحلے کے کچھ اہداف حاصل کر لئے گئے تاہم بہت سی جگہیں یا تو جزوی طور پر ہی بحال ہو پائیں یا ان پر سرے سے کام ہی شروع نہیں ہو سکا۔

ان میں پاک گیٹ سے دہلی گیٹ تک 1.9 مربع کلومیٹر پر محیط شہر کی قدیم فصیل بھی شامل ہے جس کی تزئین و آرائش کے لئے 20 لاکھ روپے کے فنڈ درکار تھے جن کی عدم دستیابی کے باعث اس پر کام معطل ہو گیا۔

ضلعی انتظامیہ نے 2021ء میں یہ کام پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے حوالے کر دیا جس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ چنانچہ اس دیوار کے نصف سے زیادہ حصے کی بحالی کا کام ادھورا پڑا ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ ملتان کے سابق سربراہ محمد غلام کا کہنا ہے کہ 2002ء میں لاہور والڈ سٹی اتھارٹی قائم ہونے کے بعد اسے ملتان میں بھی شروع کیا گیا اور ابتداً یہاں اتھارٹی بنانے کے بجائے ثقافتی ورثے کی بحالی کا عمل ایک منصوبے کے طور پر شروع کیا گیا۔

منصوبے پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کےبعد اسے اتھارٹی میں تبدیل کیا جانا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

چار سال تک انتظار کرنے کے باوجود والڈ سٹی اتھارٹی کا قیام ممکن نظر نہ آیا تو اٹلی کی حکومت نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے سے معذوری ظاہر کی اور مزید فنڈ کی فراہمی روک کر پنجاب حکومت کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کر دیا۔

اب یہ منصوبہ معطل ہے اور کسی بھی وقت بند ہو سکتا ہے۔

اکتوبر 2020ء میں وزیراعلیٰ کو پنجاب والڈ سٹی اتھارٹی کے بل کی سمری پیش کی گئی تھی۔ 2021ء میں اس بل کی قانونی حیثیت میں تبدیلیوں کے بعد اسے دوبارہ اسمبلی میں لایا گیا لیکن بل کو حتمی منظوری نہ مل سکی۔

اس سال 13 جنوری کو چیف سیکرٹری پنجاب کے زیر صدارت والڈ سٹی پراجیکٹ کی مینجمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں منصوبے پر عملدرآمد کی حتمی رپورٹ پیش نہ کئے جانے، اثاثوں کی منتقلی اور ٹھیکیداروں کے واجبات کی ادائیگی کے معاملات زیربحث آئے اور شرکا نے والڈ سٹی اتھارٹی کے عدم وجود کو مسائل کا بنیادی سبب قرار دیا۔

اسی اجلاس میں اٹلی کے نمائندوں نے منصوبے پر کام جاری رکھنے سے معذوری کا اظہار کیا تھا۔

اس منصوبے میں کام کرنے والے انجینئر کاشف عمران بتاتے ہیں کہ شہر کے تاریخی ورثے کی بحالی کے لئے بہت بڑی رقم خرچ کی گئی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ اگر اب یہ پراجیکٹ بند ہو گیا تو ناصرف بحال کیے گئے مقامات کو اس حالت میں برقرار رکھنا مشکل ہو گا بلکہ ادھورے چھوڑے گئے آثار قدیمہ بہت جلد ملیامیٹ ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان کا بہاءالدین زکریا کمپلیکس: زائرین کے لیے تعمیر عمارت 32 برس سے کون استعمال کررہا ہے؟

کاشف کے مطابق اس منصوبے کو بند کئے جانے کی صورت میں مکمل اور نامکمل تمام مقامات کو متعلقہ محکموں کے حوالے کرنا ضروری ہے۔

بحال کئے گئے مقامات کی دیکھ بھال کے لئے نہ تو کوئی فنڈ ہیں اور نہ ہی فنڈ ملنے کی کوئی امید ہے۔ ان حالات میں یہ منصوبہ ناکام ہو جانے کا خدشہ ہے۔

ملتان کے کئی تعلیمی اداروں میں شعبہ تاریخ کے سربراہ رہنے والے پروفیسر عبدالسلام نے شہر کی تاریخ و ثقافت سے متعلق کتابوں پر مشتمل لائبریری قائم کر رکھی ہے۔

ان کا کہنا کہ ملتان کے بہت سے تاریخی مقامات اب معدوم ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ معدومیت کے قریب ہیں۔ نئی نسل کو اس کے ثقافتی ورثے کے بارے میں آگاہ رکھنے کے لئے باقی ماندہ آثار کی بحالی ضروری ہے وگرنہ شہر میں صرف پلازے ہی دکھائی دیں گے۔

تاریخ اشاعت 14 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سہیرہ طارق گزشتہ 7 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف قومی و علاقائی نیوز چینلز میں سماجی، سیاسی، معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.