اس ستمبر کی ایک تپتی اور حبس زدہ دوپہر کو مظہر اقبال کھیتوں سے گذرتے پانی کے ایک کھالے کی صفائی کر رہے ہیں۔ وہ صبح سات بجے سے کدال چلا رہے ہیں اور چار گھنٹے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
انہیں جلد از جلد یہ کام نمٹانا ہے کیونکہ شام پانچ بجے تک انہیں مویشیوں کے لیے چارہ بھی تیار کرنا ہے۔ چارہ ڈالنے کے بعد وہ بھینسوں کا دودھ دوہیں گے اور یہ دودھ زمیندار کے گھر پہنچائیں گے۔ رات کو سونے سے پہلے انہوں نے مکئی کی فصل کو پانی بھی لگانا ہے کیونکہ اگر آج پانی نہیں لگایا گیا تو فصل کی پیداوار کم ہونے کا خطرہ ہے۔
ان کے دِن کا آغاز کھالے کی صفائی شروع کرنے سے بھی پہلے ہوا۔ سورج کے نکلتے وقت انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر مویشیوں کو چارہ ڈالا۔ بھینسوں کا دودھ دوہا اور پھر ان کا گوبر اکٹھا کر کے اسے ایک بیل گاڑی کے ذریعے کھیتوں میں قدرتی کھاد کے طور پر بکھیرا۔
مظہر اقبال چیچہ وطنی کے نواحی گاؤں بارہ گیارہ ایل میں ایک زمیندار کے ہاں چوبیس گھنٹے کے ملازم ہیں۔ ان کا ہر دن اسی طرح شروع اور ختم ہوتا ہے اور ان کے کام میں چھٹی کا کوئی تصور نہیں لیکن ان کی ماہانہ اجرت صرف چھ ہزار روپے اور 40 کلو گرام گندم ہے۔
وہ اسی عمارت میں ایک نیم پختہ کمرہ میں اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں جہاں زمیندار کے مویشی بندھے ہیں۔ جس چولہے پر ان کا کھانا بنتا ہے اس کے پاس ہی مویشیوں کی ناند ہے جس کے ارد گرد گوبر کا پتلا سا لیپ ہوا ہے اور ہوا میں مستقل طور پر جانوروں کے فضلے کی بو ٹھہری ہوئی ہے۔
مظہر اقبال کی خوراک واجبی سی ہے۔ وہ ہر روز صبح لسی کا ایک گلاس پیتے ہیں- ڈھلتی دوپہر میں ان کی بیوی ان کا کھانا کھیت میں ہی لے کر پہنچ جاتی ہیں۔ یہ کھانا اکثر خشک روٹیوں، اچار اور لسی وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ شام کا کھانا وہ گھر پر کھاتے ہیں جس میں کبھی کبھی زمیندار کے گھر سے آیا ہوا سالن بھی شامل ہوتا ہے۔
ان کی بیوی مویشیوں کی دیکھ بھال میں ان کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ زمیندار کے گھر پر بھی کام کرتی ہیں۔ آج انہوں نے گندم کو جڑی بوٹیوں کے بیجوں اور کنکریوں سے صاف کرنا ہے تا کہ اسے پسوانے کے لئے چکی پر بھیجا جا سکے۔
دونوں میاں بیوی پچھلے پندرہ سال سے ایسی ہی مشقت بھری زندگی گزار رہے ہیں اور اگلے پندرہ سال بھی شاید وہ ایسے ہی غلاموں کی طرح رہتے رہیں۔ مظہر اقبال کے والدین کی زندگی بھی مختلف زمینداروں کے ہاں جبری مشقت کرتے گذری ہے۔
ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات
ان کا خاندان کئی سالوں سے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے- اس وقت بھی انہوں نے اس زمیندار کے ڈھائی لاکھ روپے دینے ہیں جس کے ہاں وہ کام کر رہے ہیں۔ اس میں سے زیادہ تر رقم انہوں نے ملازمت شروع کرنے سے پہلے پیشگی کے طور پر لی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی اجرت میں سے تھوڑی تھوڑی رقم واپس کرتے رہیں گے اور یوں ایک دن ان کا سارا قرض اتر جائے گا لیکن حققیت میں ایسا نہیں ہوا اور ان کا قرض کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوتا گیا ہے۔
مظہر اقبال سے پہلے ان کے والد اسی طرح تمام عمر مقروض رہے اور قرضہ چکانے کی خواہش میں اپنے بیوی بچوں سمیت برائے نام اجرت پر زمینداروں کی ملازمت کرتے رہے۔
ان کا خاندان ساہیوال کے قریبی قصبہ بہادر شاہ کا رہنے والا ہے لیکن تیس سال پہلے ان کے والد بارہ گیارہ ایل کے ایک زمیندار کے ہاں نوکری کرنے کی وجہ سے یہاں منتقل ہو گئے۔ اس وقت مظہر اقبال کی عمر دو برس تھی۔
جب وہ سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد نے ایک زمیندار سے پنتیس ہزار روپے قرض لے کر ان کی شادی کر دی۔ یہ قرض اتارنے کے لئے انہیں آٹھ سو روپے ماہانہ اجرت پر اسی زمیندار کی ملازمت کرنا پڑی جس سے ان کے والد نے قرض لیا تھا۔
اگلے تین سال وہ اس زمیندار کے ہاں نوکری کرتے رہے۔ اس عرصے میں ان کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی لیکن تنخواہ کم ہونے کی وجہ انہیں اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لئے کئی بار زمیندار سے مزید ادھار لینا پڑا۔ یوں ان پر واجب الادا قرضہ پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچ گیا۔
مظہر اقبال نے یہ قرضہ اتارنے کے لئے ایک دوسرے زمیندار سے پیشگی قرض لیا اور اس قرض کو اتارنے کے لئے اس کے ہاں دو ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر نوکری کر لی۔ یہاں ایک ہی سال میں ان کے ذمے قرض کی رقم دو لاکھ پینتیس ہزار تک جا پہنچی کیونکہ ان دنوں ان کی بیوی اور ایک بچہ بیمار ہوگئے جن کے علاج کے لیے درکار رقم کی وجہ سے ان کے اخراجات معمول سے کہیں بڑھ گئے۔
دوسری طرف زمیندار نے قرض کی رقم بڑھتی دیکھ کر ان سے اس کی واپسی کا تقاضا کرنا شروع کردیا- مظہر اقبال کے پاس کسی دوسرے زمیندار سے قرض لینے کے سوا اس رقم کی واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے مقامی زمینداروں کی منت سماجت شروع کر دی۔ ایک مہینے کی تگ و دو کے بعد ایک زمیندار ان کا قرض اتارنے اور بدلے میں انہیں اپنے ہاں ملازمت دینے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار روپے مقرر کر دی۔
یہ 2011 کے اختتام کی بات ہے جب حکومت نے مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ بارہ ہزار روپے مقرر کی ہوئی تھی لیکن مظہر اقبال اس بات سے مکمل طور پر بے خبر تھے۔
تاہم ان دونوں انہوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ اپنا قرض اتارنے کی کوشش کریں گے۔ جب بھی انہیں فرصت ملتی وہ مٹی ڈھونے والی ٹرالیوں پر کام کرتے جس سے انہیں روزانہ دو چار سو روپے اضافی مل جاتے۔ ان کی بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے کچھ رقم کما لیتیں۔
اکیس ماہ کی سخت محنت کے بعد دونوں نے ستر ہزار روپے زمیندار کو واپس کردیئے جسے ان کی آزاد ہونے کی یہ کوشش اتنی بری لگی کہ اس نے مظہر اقبال سے پورے قرض کی فوری واپسی کا مطالبہ کردیا اور انہیں نوکری سے بھی نکال دیا-
مظہر اقبال کو ایک اور زمیندار سے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے پیشگی لے کر باقی ماندہ قرض چکانا پڑا یوں وہ پانچ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر اس نئے زمیندار کے ملازم ہو گئے۔ لیکن یہاں بھی ان کا قرض بڑھتا رہا اور اگلے پانچ سال میں دو لاکھ باون ہزار تک پہنچ گیا۔
ہم میں سے کتنے لوگ اب بھی غلام ہیں؟
جبری مشقت کے مقدمات کے ماہر وکیل ندیم پرواز کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1988 میں ایک فیصلہ دیا تھا جس میں حکومت کو واضح طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ ملک میں ہر قسم کی جبری مشقت پر پابندی لگائی جائے۔ 'اس حکم کے تحت 1992 میں پارلیمان نے بانڈڈ لیبر سسٹم ایبولیشن ایکٹ پاس کیا اور 1995 میں اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے قواعد و ضوابط بھی وضع کر لیے گئے'۔
ندیم پرواز کے مطابق اس قانون میں یہ بات بار بار لکھی گئی ہے کہ کسی بھی شخص کو پیسوں یا کسی اور چیز کے عوض زبردستی کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ 'لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ قانون بس کاغذوں کا پلندہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ جبری مشقت کی دلدل میں دھنسنے والے مزدوروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے'۔
ایک آسٹریلوی تنظیم گلوبل سلیوری انڈیکس کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے مزدوروں کی کل تعداد 31 لاکھ 86 ہزار ہے۔ دوسرے لفظوں ہر ایک ہزار پاکستانیوں میں سے کم از کم پندرہ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جبری مشقت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی تنظیم بانڈڈ لیبر فرنٹ پاکستان کی سیکریٹری جنرل سیدہ غلام فاطمہ کے خیال میں ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد اس رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے مطابق جن ملکوں میں جبری مشقت موجود ہے ان کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پتھر پیسنے والے کارخانوں میں موت پھانکتے مزدور: 'یہ کام ہم سب کو کھا گیا ہے'۔
جبری مشقت کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد اینٹیں بنانے والے بھٹوں پر کام کرتی ہے جبکہ لاکھوں غلام خاندان سندھ اور پنجاب کے زمینداروں کے ہاں ان کے کھیتوں اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ غلام فاطمہ کہتی ہیں کہ اس غلامی کی بنیادی وجہ پیشگی کے طور پر لی ہوئی رقم ہے جو ان مزدوروں کے پاؤں کی بیڑی بن جاتی ہے۔ 'اس رقم کی وجہ سے وہ نہ ہونے کے برابر اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن چونکہ اس سے ان کا گذارا نہیں ہوتا اس لئے وہ مزید قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ان کے لیے اسے واپس کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے'۔
ان کی موت پر یہ قرض ان کے بچوں کو منتقل ہو جاتا ہے جو اپنے والدین کی طرح اس کے بوجھ کے نیچے مشقت کرتے کرتے اپنی زندگیاں گذار دیتے ہیں۔
غلام فاطمہ کا یہ بھی کہنا ہے بھٹہ جات کو قانونی طور پر ایک صنعت سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے حکومت وہاں کے حالاتِ کار کی نگرانی کے لئے محکمہ محنت اور محکمہ صنعت کے اہل کاروں کو بھیج سکتی ہے۔ ' اگرچہ اس کے باوجود وہاں پر جبری مشقت جاری ہے لیکن زرعی شعبے سے وابستہ مزدوروں کی حالت اور بھی بری ہے کیونکہ ان کے حالاتِ کار کی نگرانی کے لیے نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی محکمہ یہ پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں'۔
اگر کبھی وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی ہمت کر ہی لیں تو زمیندار 'ان کی عورت کو اغوا کر لیتے ہیں اور ان پر چوری اور ڈکیتی کے پرچے کٹوا دیتے ہیں تا کہ وہ ساری زندگی ان کی غلامی سے آزاد نہ ہو سکیں'۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں چیچہ وطنی سے جبار گجر نے معاونت کی ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ22 اکتوبر2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 15 فروری 2022