ملتان میں اڈا متی تل کے اللہ وسایا گدھا گاڑی چلا کر روزی کماتے ہیں۔ یکم اپریل کو وہ اپنے کام کے سلسلے میں بازار سے گزر رہے تھے کہ انہیں لوگوں کا شور سنائی دیا۔ راہگیروں کی زبانی انہیں معلوم ہوا کہ لوگ ڈاکوؤں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی فائرنگ سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
اللہ وسایا موقع پر پہنچے تو انہوں نے ہجوم کو چند ڈاکوؤں پر تشدد کرتے دیکھا۔ اسی دوران لوگ اللہ وسایا کو پہچان کر انہیں تسلی اور دلاسے دینے لگے۔
اللہ وسایا کہتے ہیں کہ یہ بات ان کے لئے حیران کن تھی۔
''میں ںے لوگوں سے پوچھا کہ میرا اس معاملے سے کیا تعلق ہے تو لوگوں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے تمہارا بیٹا بھی زخمی ہو گیا ہے۔''
ان کے بیٹے کو سر میں گولی لگی تھی جسے تشویش ناک حالت میں نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔
جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا وہاں سے قریب ترین تھانہ آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو اس وقت تک لوگ تین ڈاکوؤں کو ہلاک کر چکے تھے جبکہ ان کا ایک ساتھی شدید زخمی ہوا جسے پولیس ساتھ لے گئی اور وہ نشتر ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔
ملتان میں اسی ہفتے ایسا ہی ایک اور واقعہ گلگشت کی گردیزی مارکیٹ میں پیش آیا۔
اس واقعے میں پانچ ڈاکوؤں نے ایک سنار کی دکان سے دکان سے پندرہ لاکھ روپے اور 22 تولے زیور لوٹ لئے۔ دکاندار نے مزاحمت کی تو ڈاکوؤں اسے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا اور بھاگ اٹھے۔ ڈاکوؤں کو پکڑنے کی کوشش میں مزید دو دکاندار زخمی ہو گئے جن میں سے ایک دم توڑ گیا۔
اتنی دیر میں بہت سے لوگوں نے ڈاکوؤں کو گھیر کر انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ تشدد کے نتیجے میں چار ڈاکو بری طرح زخمی ہو گئے جبکہ ایک بھاگ نکلا۔ کچھ دیر کے بعد پولیس نے ڈاکوؤں کو لوگوں کی گرفت سے چھڑا کر ہسپتال منتقل کیا جن میں سے تین دم توڑ گئے اور ایک زیرعلاج ہے۔
اسی ماہ گردیزی مارکیٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے تین ڈاکو ہلاک ہو گئے تھے
پولیس ترجمان کے مطابق دونوں واقعات میں ہلاک و زخمی ہونے والے ڈاکو پہلے بھی کئی وارداتوں میں مطلوب تھے۔
لوگوں کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کے ان سنگین واقعات پر جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی محمد آصف کا کہنا ہے کہ نفری کی کمی کے باعث کئی واقعات میں پولیس بروقت جائے وقوعہ پر نہیں پہنچ پاتی جس کے باعث لوگوں کو ملزموں پر تشدد کا موقع مل جاتا ہے۔
ملتان شہر کی آبادی تقریباً 20 لاکھ ہے۔یہاں مجموعی طور پر 33 تھانے ہیں جن میں پانچ ہزار 200 پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ فوری کارروائی کے لئے ڈولفن فورس بھی چوبیس گھنٹے شہر میں گشت کرتی ہے۔ اس فورس میں ایک سب انسپکٹر، دو اے ایس آئی، ایک ہیڈ کانسٹیبل اور 119 کانسٹیبل فرائض انجام دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
وہاڑی 16 سالہ نوجوان کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت: 'پولیس کے پاس سزا دینے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے'
شہریوں کو شکایت ہے کہ پولیس سٹریٹ کرائمز کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کرتی اور اگر ملزم پکڑے بھی جائیں تو نظام عدل کی خامیوں کے باعث قرار واقعی سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
محمد آصف کہتے ہیں کہ پولیس اہلکار اپنی بنیادی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کی مدد میں بھی مصروف ہیں۔ پولیو ورکرز کے ساتھ بھی پولیس اہلکار تعینات کرنا پڑتے ہیں جبکہ رمضان میں پولیس نے مفت آٹے کی فراہمی کے مراکز پر بھی ڈیوٹی دی، مساجد کی حفاظت کے لئے بھی نفری مخصوص کی گئی اور پروٹوکول ڈیوٹی اس کے علاوہ ہے۔ ایسے میں پولیس کے لئے سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لئے مطلوبہ تعداد میں فورس نہیں ہوتی۔
ان واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے لوگوں کی آگاہی کے لئے شہر میں تشہیری مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں لوگوں کو قانون کی پاسداری کے لئے کہا جائے گا۔
سٹی پولیس آفیسر منصورالحق نے شہریوں سے کہا ہے کہ کسی بھی واقعے میں اگر ملزم لوگوں کے ہاتھ آ جائیں تو انہیں مارنے پیٹنے کے بجائے ذمہ دار شہریوں کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کیا جائے۔
تاریخ اشاعت 9 مئی 2023