شہناز بی بی کو 8 اکتوبر 2021 کی شام آٹھ بجے ایک فون کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی 13 سالہ بیٹی کرن شہزادی چھت سے گر گئی ہے اور اسے کچھ چوٹیں آئی ہیں۔
یہ سن کر وہ اپنی 15 سالہ بیٹی ارم شہزادی اور اپنے بھائی کے ہمراہ جنوب مغربی لاہور میں واقع مرغزار کالونی کے اس گھر میں پہنچیں جہاں کرن کام کرتی تھی۔ وہاں اس کی لاش ایک سفید چادر سے ڈھکی رکھی تھی۔
گھر کی مالکن شگفتہ شاہین نے شہناز بی بی کو بتایا کہ کرن نے دراصل خودکشی کی ہے۔ انہیں گھر کا ایک کمرہ بھی دکھایا گیا جس میں چھت پر لگے ایک پنکھے سے ایک دوپٹہ لٹکا ہوا تھا اور اس کے نیچے ایک کرسی قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔
شگفتہ شاہین نے شہناز بی بی سے کہا کہ وہ کرن کی لاش کو اپنے گھر لے جائیں (جو لاہور کے نواحی ضلعے قصور کی تحصیل پتوکی میں ڈھولن نامی گاؤں میں واقع ہے) اور اسے دفن کر دیں۔ ارم کا کہنا ہے کہ انہیں کرن کے جسم کو چھونے تک نہیں دیا اور ڈرایا دھمکایا گیا کہ یہ خودکشی کا معاملہ ہے جسے لوگوں کے سامنے لانے سے وہ مشکل میں پڑ جائیں گے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ شگفتہ شاہین نے انہیں تدفین کے لیے ایک لاکھ روپے دیے اور لاش کو گاؤں لے جانے کے لیے فوری طور پر ایک ایمبولینس کا بندوبست بھی کر دیا۔
اگلے دن کرن کو دفنانے سے پہلے اسے غسل دینے والی خواتین نے دیکھا کہ اس کے گلے اور جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے نشان ہیں۔ جب انہوں نے شہناز بی بی کو ان زخموں کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کرن کی تدفین روک دی اور فوراً مقامی پولیس کے پاس رپورٹ درج کرا دی کہ ان کی بیٹی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ایک دن بعد کرن کا پوسٹ مارٹم کیا جا چکا ہے اور اس کی میت شہناز بی بی کے اینٹوں اور گارے سے بنے گھر میں سوگوار عورتوں کے درمیان پڑی ہے۔ اس کے منہ سے نکلنے والے خون کی لکیر اس کے گال پر سوکھ گئی ہے۔ پاس ہی غم سے نڈھال شہناز بی بی سینہ کوبی کر رہی ہیں جبکہ چند دیگر عورتیں کرن کو آخری غسل دینے کی تیاری کر رہی ہیں۔
گاؤں کے بہت سے مرد بھی وہاں جمع ہیں۔ ان میں سے کچھ نے پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے کرن کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کی اپیل کر رہے ہیں۔
کچھ دیر بعد کرن کا جنازہ پڑھایا جاتا ہے تو اس میں گاؤں کے مرد بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ پتوکی اور قصور سے آئے تاجر تنظیموں کے کچھ نمائندے بھی اس میں شریک ہوتے ہیں لیکن کوئی حکومتی یا سیاسی شخصیت اس میں شمولیت نہیں کرتی۔
اس پر ڈھولن کے لمبردار رانا محمد وقار سوال کرتے ہیں کہ اگر دوسرے لوگ اس واقعے کی اطلاع پا کر قصور اور لاہور سے جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ سکتے ہیں تو کوئی حکومتی عہدیدار سوگوار خاندان کی غم گساری کے لیے کیوں ان کے گاؤں نہیں آ سکا۔
ان کے مطابق کرن کا والد غلام نبی تین سال پہلے فوت ہو گیا تھا۔ مرنے سے پہلے وہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا تھا جس کے مالک سے اس نے دو لاکھ روپے قرض لے رکھا تھا۔اس کی وفات کے بعد یہ قرض ادا کرنے کے لیے اس کی بیوی شہناز بی بی نے اپنے پانچ بچوں کو (جن کی عمریں اس وقت 16 سال سے کم تھیں) سکول سے اٹھا کر کام پر لگا دیا۔ محمد وقار کہتے ہیں کہ اس خاندان کو "انصاف کے حصول کے لیے مالی اور اخلاقی مدد کی شدید ضرورت ہے"۔
دوسری طرف پولیس نے کرن کے قتل کے الزام میں تاحال دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے ایک شگفتہ شاہین کے خاوند انوار حسین کا بھائی فیصل حسین ہے جبکہ دوسرا ان کی سوتن کا سترہ سالہ بیٹا قاسم ہے۔ وہ دونوں مرغزار کالونی کے قریب واقع ہنجروال تھانے میں قید ہیں۔
شگفتہ شاہین اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ہمراہ غائب ہو چکی ہیں اگرچہ فیصل حسین کی بیوی اور بچے ابھی بھی اسی گھر میں رہ رہے ہیں جہاں کرن کی موت ہوئی تھی۔ اس کے آہنی گیٹ پر پولیس نے ایک نشان لگا رکھا ہے۔
فیصل حسین کی سترہ سالہ بیٹی کا کہنا ہے کہ اس کے چچا کاروباری سلسلے میں افریقی ملک کانگو میں مقیم ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ اس کا خاندان گھر کی نچلی منزل میں رہتا ہے جبکہ اس کے چچا کا خاندان دوسری منزل پر مقیم تھا۔
فیصل حسین کی اہلیہ پریشان ہیں کہ ان کے خاوند کو "ایک ایسے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے جس سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں"۔ ان کے بقول "ہمارے بھی بچے ہیں۔ ہم ایسا کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے"۔
وہ کہتی ہیں کہ انوار حسین اور شگفتہ شاہین کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتی تھیں۔ کرن کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "وہ ایک ہنس مکھ بچی تھی"۔
سزا کے لیے ثبوت کیسے اکٹھے کیے جائیں
ڈاکٹر فائزہ قاضی نے 10 اکتوبر 2021 کو لاہور کے جناح ہسپتال میں کرن کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اس وقت اس کی موت کو 36 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے جسم پر ایسا کوئی نشان نہیں تھا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ وہ چھت سے گر پڑی تھی۔ ان کے بقول اس کی موت کو "خود کشی بھی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ واضح طور پر قتل کا معاملہ ہے" کیونکہ "اس کا گلا گھونٹے جانے کے واضح نشانات ملے ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
بچوں سے جنسی زیادتی کے مقدمات: ملزموں کو معاف کرنے کے لیے لواحقین پر کس قِسم کا دباؤ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فائزہ قاضی کو یہ بھی یقین ہے کہ قتل سے پہلے کرن کو کئی مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے جنسی اعضا کی وضع قطع 13 سالہ کنواری لڑکی کے جنسی اعضا جیسی نہیں تھی بلکہ انہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کے ساتھ کافی عرصے سے جنسی عمل ہو رہا تھا۔
تاہم ہنجروال تھانے میں متعین محرر کا کہنا ہے کہ طبی معائنے کے ذریعے حتمی طور پر جنسی زیادتی کے ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ان کے مطابق ان کے تھانے کی حدود میں جنوری 2021 سے اب تک جنسی زیادتی کے 12 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر کو "معمولی" قرار دے کر ان پر مقدمات نہیں چلائے گئے کیونکہ ان میں کیے جانے والے طبی معائنے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
حکومت پنجاب کے ساتھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر کام کرنے والے وکیل حافظ محمد عظیم نے 22 فروری 2021 کو پاکستان ٹوڈے نامی اخبار میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہا ہے کہ طبی معائنے میں اس ابہام کو دور کرنے کے لیے "ایسے واقعات میں بروقت ڈی این اے ٹیسٹ لیا جانا ضروری ہوتا ہے"۔
لیکن ڈاکٹر فائزہ قاضی کا کہنا ہے کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈی این اے کے نمونے زیادتی کے بعد پہلے 36 گھنٹے میں جمع کر لیے جائیں ورنہ، ان کے مطابق، "فیصلہ کن ثبوت حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے"۔
وہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہیں کہ آگاہی نہ ہونے کے سبب زیادتی کا نشانہ بننے والی بیشر خواتین اپنے ہی ہاتھوں ضروری ثبوتوں کو ضائع کر بیٹھتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ نہ تو وقت پر ڈی این اے ٹیسٹ کراتی ہیں اور نہ ان کپڑوں کو محفوظ کرتی ہیں جو انہوں نے زیادتی کا شکار ہوتے وقت پہن رکھے تھے۔
اس طرح کے مسائل سے جنم لینے والی قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے جنسی زیادتی کے بہت سے واقعات عدالت میں پہنچ ہی نہیں پاتے۔ حافظ محمد عظیم نے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران پاکستان بھر میں پولیس کو جنسی زیادتی کے 22 ہزار سے زیادہ واقعات کی اطلاع دی گئی لیکن ان میں ملوث تمام افراد میں سے صرف 77 کو سزا سنائی گئی۔
کرن کے اہلِ خانہ اور گاؤں والوں کو یہی خدشہ ہے کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے قتل میں ملوث لوگ بھی کہیں طبی ابہام اور قانونی پیچیدگیوں کے نتیجے میں سزا سے بچ نہ جائیں۔ اس لیے وہ حکومتِ پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں خصوصی دلچسپی لے اور اس میں ملوث لوگوں کو فوری اور قرار واقعی سزا دلائے۔
تاریخ اشاعت 20 اکتوبر 2021