پنجاب میں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پنجاب میں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

ماہ پارہ ذوالقدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

سولہ سالہ محمد فاروق میانوالی کے نواحی گاؤں تری خیل کے رہائشی ہیں۔ وہ میٹرک کے بعد  اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائےاور شہر  کی ایک بیکری پر کام شروع کر دیا۔ یہاں انہیں 20 ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے۔ بیکری سے ان کا گاؤں بارہ کلو میٹر دور ہے۔ یوں سو روپے روزانہ آنے جانے پر خرچ ہو جاتے تھے۔

 فاروق بتاتے ہیں کہ ایک ماہ قبل انہوں نے بازار میں کہیں ایک اشتہار دیکھ لیا جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہوئی ہے۔ اشتہار پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ویلفیئر میانوالی کے دفتر کا فون نمبر بھی لکھا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے فوراً لیبر ڈیپارٹمنٹ کے دفتر فون کیا اور اپنی اجرت  کم ہونے  کی شکایت درج کرا دی۔ اس شکایت پر بیکری مالک کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی البتہ اگلے ہی روز انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔

تیس سالہ عبداللطیف خان میانوالی شہر میں رہتے ہیں اور ایک پٹرول پمپ پر ملازم ہیں۔ وہ روزانہ 12گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں لیکن ماہانہ اجرت صرف 16 ہزار روپے ملتی ہے۔ دو بچوں اور بیوی کے ساتھ اس تنخواہ میں گزارہ یقیناً آسان نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن ٹی وی پر کم سے کم اجرت 32 ہزارروپے کا اشتہار دیکھا جس میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ عدم ادائیگی پر مالک کے خلاف کارروائی  کی جائے گی۔ اس کے بعد وہ  معلومات لینے کے لیے محکمہ لیبر کے دفتر پہنچ گئے۔

"وہاں جا کر معلوم ہوا کہ میرے پاس کیونکہ ملازمت کا کوئی کنٹریکٹ لیٹر نہیں ہے اس لیے مجھے اس قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا"۔

پاکستان میں کم سے کم اجرت کا قانون پہلی بار 1961ءمیں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔ اس کے تحت حکومت فیکٹری مالکان کو مقرر کردہ  اجرت کی لازمی ادائیگی کا پابند کرتی تھی۔ 2010ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ساتھ ہی یہ اختیار صوبائی حکومت کو منتقل ہو گیا۔

یوں پنجاب اسمبلی نے 2019ء میں اجرت کا نیا قانون منظور کیا۔ جس کے تحت فیکٹریوں کے ساتھ کمرشل اداروں، دکانوں، دفاتر پر بھی اس قانون کا اطلاق کر دیا گیا۔ ' کم از کم اجرت' کے تعین کا اختیار  حکومت کے مقرر کردہ بورڈ کو دیا گیا ہے۔ جس میں آجروں اور مزدوروں کے نمائندے بھی شامل کیے گئے ہیں۔

'دی پنجاب منیمم ویجز ایکٹ 2019' کے تحت فیکٹری یا انڈسٹریل اسٹبلشمنٹ کے علاوہ کمرشل اسٹبلشمنٹ کو بھی 'حکومتی اعلان کردہ کم سے کم اجرت/تنخواہ ' کی عدم ادائیگی کی صورت میں  20 ہزار روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا۔ دوسری بار اس جرم کے ارتکاب پر سات دن سے چھ ماہ تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس کے باوجود پنجاب کے کئی صنعتی ادارے (ٹھیکیداری نظام والے عموماً )، دفاتر اور خاص طور پر کمرشل اسٹبلشمنٹ(ان فارمل سیکٹر) اس قانون پر عمل نہیں کر رہے۔ یہاں دکانوں، بیکریوں، ہوٹلز، پٹرول پمپس وغیرہ پر کام کرنے والے ملازمین کو کہیں بھی'حکومتی مقرر کردہ اجرت' ادا نہیں کی جاتی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر سماجی بہبود سمیع اللہ خان  بتاتے ہیں  کہ قانون کے تحت ورکر روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرے گا اور مہینے میں چار چھٹیوں کا حق دار ہو گا۔ آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی کی صورت میں کارکن کو اضافی ادائیگی کرنا ہو گی۔

 سٹیٹ بنک آف پاکستان نے 2017ء میں اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک  کے ان فارمل سیکٹر (کمرشل اسٹبلشمنٹ ) کی تقریباً ساڑھے 47 فیصد کمپنیاں کارکنوں کو مقررہ کم از کم تنخواہ  کی ادائیگی نہیں کرتیں۔

ورلڈ بینک نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 83 فیصد پاکستانی خاندانوں کی روزانہ آمدنی دو امریکی ڈالر( لگ بھگ ساڑھے 16ہزار روپے ماہانہ ) سے بھی کم ہے۔

غیر سرکاری تنظیم پائلر(پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ) نے چھ ماہ قبل بتایا تھا کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان اور افراط زر 35 فیصد سے زائد ہے۔ لیکن 80 فیصد غیر ہنرمند ورکرز کو کم از کم اجرت بھی ادا نہیں کی جا رہی۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ویلفیئر  محمد خالد خان اعتراف کرتے ہیں کہ کمرشل اسٹبلشمنٹ میں ورکرز کو قانون کے مطابق تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تقریباً سبھی ملازمین کسی تحریری کنٹریکٹ کے بغیر ملازمت کر رہے ہیں۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ " شکایت پر جب ہم کسی دکان یا کمرشل یونٹ کے مالک کو بلاتے ہیں تو وہ شکایت کنندہ کو اپنا ملازم تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ ورکر ثبوت کے طور پر کوئی تحریری معاہدہ پیش نہیں کر سکتے۔ یوں ان کی داد رسی نہیں ہو پاتی اور وہ ملازمت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

'نہ پسینہ خشک ہوتا ہے نہ مزدوری ملتی ہے'، تھرپارکر میں نمک کی جھیلوں پر محنت کشوں کی کسمپرسی

مزدور یونین کے صدر امیر نواز خان نیازی بتاتے ہیں کہ میانوالی میں دو سیمنٹ اور ایک کھاد بنانے والی فیکٹری ہے ان تینوں میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل ہو رہا ہے۔ یونین کے علاوہ حکومت  بھی اس معاملے کو مانیٹر کرتی ہے۔

 اسسٹنٹ  ڈائریکٹر لیبر تصدیق کرتے ہیں کہ تین سال میں یہاں  کسی صنعتی یونٹ سے اجرت سے متعلق شکایت نہیں آئی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ کمرشل اسٹبلشمنٹ میں شاید ہی کہیں حکومتی مقرر کردہ اجرت دی جاتی ہو۔

سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میانوالی خان نیازی کا ماننا ہے کہ اگر حکومت ان فارمل سیکٹر کو پابند کرے کہ ہر ادارہ یا مالک اپنے ملازم کو تحریری کنٹریکٹ  دے، تو ہی کمرشل اداروں میں کم سے کم تنخواہ کے قانون پر عمل ہو پائے گا۔ بصورت دیگر  ورکرز کو انصاف نہیں مل سکتا۔

 میانوالی کی کاروباری شخصیت علی خان کا خیال ہے کہ کم سے کم اجرت کے تعین کے لیے حکومتی پیمانہ(معیار) ٹھیک نہیں ہے اور چھوٹے کاروباری اتنی اجرت دے بھی نہیں سکتے۔ اس لیے ہنر مند اور غیر ہنرمند(ان سکلڈ) مزدوروں کی تنخواہ میں فرق ہونا چاہیے۔ اسی طرح کم سے کم اجرت کا تعین کرتے ہوئے چھوٹے اور بڑے شہروں میں فرق کے ساتھ کاروبار کی نوعیت کو بھی سامنے رکھا جائے۔

تاریخ اشاعت 31 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.